• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ فیصلہ وزیراعظم شہباز شریف کا نہیں ہو سکتا۔ میں یہ پورے یقین اور شعور کے ساتھ کہہ رہا ہوں، کیونکہ میں نے شہباز شریف کی سیاست کو صرف تین دہائیوں سے دیکھا ہی نہیں بلکہ اُن کے فیصلوں سے جانچا، پرکھا اور سمجھا ہے۔ میں نے نواز شریف کی سیاست کو بھی قریب سے دیکھا ہے، مسلم لیگ نون کے نظریے کو بھی پڑھا ہے، اور اُن جذبات کو بھی محسوس کیا ہے یہ دونوں لیڈر دنیا بھر میں مقیم ایک کروڑ اوورسیز پاکستانیوں کو دل کے قریب رکھتے ہیں۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنی حساس، اتنی سخت اور اتنی غیر منصفانہ پالیسی اُن پاکستانیوں کے خلاف بنے جو اپنے پسینے کی کمائی سے پاکستان کی معیشت کی رگوں میں خون دوڑاتے ہیں، اور وزیراعظم شہباز شریف اس کی منظوری دے دیں؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ جماعت جس نے ہمیشہ اوورسیز پاکستانیوں کو قومی سرمایہ قرار دیا، آج اُن ہی کے مفاد کے خلاف ایک فیصلہ کر دے؟

دنیا بھر میں ایک کروڑ سے زائد پاکستانی اپنے وطن کی معیشت کے محافظ بنے ہوئے ہیں۔ اُن کی محنت سے ہر سال پینتیس سے چالیس ارب ڈالر کی ترسیلاتِ زر پاکستان آتی ہیں۔ یہی لوگ ہیں جواپنی کمائی کا بڑا حصہ پاکستان بھیجتے ہیں، اپنے رشتہ داروں کی کفالت کرتے ہیں اور اپنی سرزمین سے جذباتی وابستگی قائم رکھتے ہیں۔ ماضی میں انہی اوورسیز پاکستانیوں کو Personal Baggage، Gift Scheme اور Transfer of Residence کے تحت استعمال شدہ گاڑیاں پاکستان لانے کی اجازت دی گئی تھی۔ یہ سہولت دراصل اُن کی خدمات کا اعتراف تھی۔ اس پالیسی کے تحت ہر سال تیس سے چالیس ہزار گاڑیاں پاکستان آتی تھیں اور حکومت کو تقریباً پانچ سو ملین ڈالر کا زرمبادلہ سالانہ صرف ڈیوٹی کی مد میں حاصل ہوتاتھا —وہ بھی بینکنگ چینل کے ذریعے۔

یہ استعمال شدہ گاڑیاں صرف درآمد نہ ہوتیں بلکہ پاکستان میں ایک نئی انڈسٹری کو جنم دیتی تھیں۔ اُن کی خرید و فروخت سے پینتیس سے چالیس ہزار پاکستانیوں کو روزگار میسر تھا۔ چھوٹے شہروں میں شورومز کھلے، میکینک، پینٹر، کلر ماسٹر اور آٹو پارٹس فروشوں کی ایک نئی دنیا آباد ہوئی۔ یہ گاڑیاں جاپان جیسے ملک سے آتی تھیں جہاں 660 سی سی کی چھوٹی کار میں بھی دس سے بارہ ایئر بیگز ہوتے ہیں تاکہ ڈرائیور اور سوار محفوظ رہیں، جبکہ پاکستان میں آج بھی اسمبل ہونے والی 660 سی سی گاڑی میں ایئر بیگ کا تصور نہیں۔

اس پورے نظام سے نقصان صرف اُن چند بڑے اداروں کو ہو رہا تھا جو چالیس برس سے پاکستان میں مینوفیکچرنگ کے نام پر محض اسمبلنگ کر رہے ہیں۔ وہ گاڑی جو بھارت میں مینوفیکچرنگ کے ذریعے تین سے چار لاکھ روپے میں بکتی ہے، پاکستان میں تیس سے بتیس لاکھ روپے میں فروخت کی جاتی ہے، جو بہت بڑی ناانصافی ہے۔ یہی ادارے حکومتی پالیسیوں پر اثر انداز ہوتے ہیں اور اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے پس پردہ منصوبے بناتے ہیں۔ انہوں نے ایک نیا منصوبہ تیار کیا، ایسا منصوبہ جو وزیراعظم کے علم کے بغیر، کہیں نچلی سطح پر بنایا گیا۔ اس منصوبے میں پاکستان میں کمرشل امپورٹ کے نام پر گاڑیاں درآمد کرنے کی اجازت تو دی گئی، لیکن اس میں اتنی سخت شرائط رکھ دی گئیں کہ کوئی عام پاکستانی یا درمیانے درجے کا ڈیلر گاڑیاں امپورٹ کر ہی نہ سکے۔ اس طرح پورا فائدہ انہی چند بڑے اداروں کو ملے گا جو پہلے ہی حکومت سے بھاری مقدار میں ڈالر لے کر گاڑیاں اسمبل کر رہے ہیں۔ اب استعمال شدہ گاڑیاں بھی یہی بڑے ادارے کمرشل امپورٹ کے نام پر منگوائیں گے، اور یوں یہ پورا میدان ان کے ہاتھ میں چلا جائیگا۔

دکھایا یہ گیا کہ آئی ایم ایف کے دباؤ پر حکومت پانچ سال پرانی گاڑیوں کی کمرشل امپورٹ کی اجازت دے رہی ہے۔ سننے میں یہ پالیسی معاشی نظم کی نشانی لگتی ہے مگر دراصل یہ وہ جال ہے جس سے حکومت اور ملک دونوں مالی نقصان اٹھائیں گے۔ کیونکہ پہلے جو پانچ سو ملین ڈالر ہر سال اوورسیز پاکستانی بینکنگ چینل سے پاکستان لاتے تھے، اب وہ سلسلہ رک جائے گا۔ اوورسیز پاکستانی اپنی ذاتی گاڑی گفٹ اسکیم یا پرسنل بیگیج کے ذریعے نہیں بھیج سکیں گے، اور یہ موقع ان بڑے اداروں کے پاس چلا جائے گا جو اسٹیٹ بینک سے ڈالر حاصل کر کے گاڑیاں باہر سے منگوائیں گے۔ نتیجتاً جو زرمبادلہ پہلے ملک میں آتا تھا، اب وہ ملک سے باہر جائے گا، اور تخمینوں کے مطابق یہ نقصان پانچ سو ملین سے ایک ارب ڈالر سالانہ تک پہنچ سکتا ہے۔

یہ صرف مالی نقصان نہیں بلکہ معاشی خودکشی کے مترادف ہے۔ حکومت کو ڈیوٹی کے نام پر آنے والا پانچ سو ملین ڈالر سالانہ کا ذریعہ ختم ہو جائیگا، اوورسیز پاکستانی اپنی جائز سہولت سے محروم ہو جائیں گے، اور عوام کو ایک بار پھر ناقص، غیر محفوظ اور مہنگی گاڑیاں خریدنے پر مجبور کیا جائے گا۔ یہ وہ فیصلہ ہے جو نہ معیشت کے حق میں ہے، نہ عوام کے، اور نہ ہی اُن محب وطن پاکستانیوں کے جو اپنے وطن کیلئے رات دن محنت کرتے ہیں۔

وزیراعظم شہباز شریف کے بارے میں یہ سوچنا بھی مشکل ہے کہ وہ کسی ایسی پالیسی کی اجازت دیں گے جو ایک طرف اوورسیز پاکستانیوں کو دل شکستہ کرے، دوسری طرف پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کو نقصان پہنچائے اور تیسری طرف چند بڑے کاروباری گروہوں کو نوازے۔میری وزیراعظم شہباز شریف سے التجا ہے کہ وہ اس معاملے کو ذاتی طور پر دیکھیں۔ یہ پالیسی صرف اوورسیز پاکستانیوں کا مسئلہ نہیں بلکہ پاکستان کی معیشت کے مستقبل کا سوال ہے۔ اگر یہ فیصلہ واپس نہ لیا گیا تو پاکستان سالانہ ایک ارب ڈالر کے زرمبادلہ سے محروم ہو جائیگا اور ایک کروڑ اوورسیز پاکستانیوں کے دل ٹوٹ جائیں گے۔ وہ دل جو آج بھی وطن کیلئے دھڑکتے ہیں، جو’’شیر آیا شیر آیا‘‘کے نعرے کے ساتھ پاکستان کا نام بلند کرتے ہیں۔ وزیراعظم صاحب، یہ فیصلہ آپ کا نہیں ہو سکتا —مگر اس کی اصلاح صرف آپ ہی کر سکتے ہیں۔

تازہ ترین