یوں تو صوبۂ سندھ کا تاریخی شہر، شکار پور متعدد وجوہ کی بنا پر شُہرت کا حامل ہے، مگر یہاں تیارکیا جانے والا چٹ پٹا، منفرد ذائقے اور خوش بُو کا حامل اچار، جسے ’’شکار پوری اچار‘‘ کہا جاتا ہے، پاکستان کے علاوہ بیرونِ مُلک بھی خاصا مشہور ہے۔
انواع و اقسام کے مسالوں سے مہکتا یہ اچار اپنے اندر ایک پوری ثقافت اور تاریخی وَرثہ سموئے ہوئے ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ ذائقے اور لذّت کے اِس سفر کی ابتدا کسی کارخانے سے نہیں ہوئی، بلکہ شکار پور کی ایک عام گھریلو خاتون نے یہ منفرد اچار بنانے کا آغاز کیا تھا۔
یہ سات سے آٹھ دہائیاں قبل کا ذکر ہے۔ شکارپور کی بعض خواتین گھرگرہستی کے علاوہ روایتی طریقے سے اچار بنانے میں بھی مہارت رکھتی تھیں۔ یہ خواتین گھریلو استعمال کے لیے روایتی طریقوں سے موسمی سبزیوں اور پھلوں کا اچار تیار کرتی تھیں۔ خلوص اور محنت سے تیار کردہ یہ اچار بہت ذائقے دار ہوتا تھا۔
انہی خواتین میں سے ایک خاتون کے ہاتھ سے بنے اچار کا ذائقہ اس قدر منفرد اور لاجواب تھا کہ اس کی شُہرت گھر اور خاندان سے نکل کر پورے علاقے میں پھیل گئی اور پھر اس خاتون نے اپنے اچار کی بڑھتی ہوئی مانگ دیکھتے ہوئے تجارتی طور پر اس کی تیاری کا آغاز کیا۔
جب اس اچار کی فروخت میں اضافہ ہوا، تو مذکورہ خاتون کے شوہر نے اپنے گھر ہی میں ایک دُکان کھول لی اور اُس میں گھر میں تیار کیا گیا اچار فروخت کرنے لگا۔ کچھ ہی عرصے میں اس اچار کی شہرت اس قدر پھیل گئی کہ دوسرے شہروں سے بھی لوگ خریداری کے لیے آنے لگے۔ نتیجتاً، شکارپور کےکچھ دیگر لوگوں کو بھی اپنا گھریلو ساختہ اچار فروخت کرنے کی تحریک ملی۔
دیکھتے ہی دیکھتے کئی اورخواتین نے بھی اپنے گھروں میں تجارتی پیمانے پر اچار بنانا شروع کردیا، یہاں تک کہ شہر میں جا بہ جا اچار کی دُکانیں قائم ہوگئیں، جو بعد ازاں کارخانوں میں تبدیل ہوئیں اور یوں ایک چھوٹا سا گھریلو کاروبار ایک مکمل صنعت کا رُوپ دھار گیا۔ آج شکار پور پاکستان سمیت دُنیا بَھر میں اپنے چٹ پٹے، چٹخارے دار اچار کے ذائقے کے سبب مشہور ہے۔
شکار پوری اچار اپنی خوش بُو، مسالا جات کے توازن اور لمبے عرصے تک محفوظ رہنے کی خوبی کی وجہ سے نمایاں مقام رکھتا ہے۔ آم، گاجر، لیموں، لہسن، مرچ، پھلکاری اور دیگر اقسام کے اچار شکار پوری اچار کی مشہور ورائٹیز ہیں اور اچار کی ہر شیشی میں صرف ذائقہ و لذّت ہی نہیں، بلکہ ایک مکمل ثقافت، خلوص اور محنت کی جھلک ملتی ہے۔
بہرکیف، شکار پوری اچار کی اِس عالم گیر شُہرت کا سہرا مقامی خواتین ہی کے سَر جاتا ہے۔ یعنی شکار پور کی مائوں، بہنوں اور بیٹیوں نے اپنے خلوص و محنت سے نہ صرف مختلف اقسام کے اچاروں کے منفرد ذائقے تخلیق کیے، بلکہ اُن کے معیار کو بھی برقرار رکھا۔
نیز، ان خواتین نے اچار کی تیاری کے لیے موسم، درجۂ حرارت، مسالوں کے تناسب، تیل کی مقدار اور سورج کی روشنی سمیت دیگر عوامل کا بھی خاص دھیان رکھا۔ اُن کی مہارت کا یہ عالم ہے کہ آج بھی ’’شکار پوری اچار‘‘ کی پہچان اس کا مخصوص ذائقہ، خوش بُو اور طویل عرصے تک ترو تازہ رہنا ہی ہے۔
شکار پوری اچار کی خاص اقسام:
یوں تو شکارپوری اچار کی کئی اقسام ہیں، لیکن مشہور ورائٹیز میں آم کا اچار، جو موسمِ گرما کی بہترین سوغات ہے اور شکار پور کے آموں اور مخصوص مسالوں سے تیار کیا جاتا ہے، مرچ کا اچار، لیموں اور لہسن کا اچار، مکس اچار، جوشکارپور کی خاص پہچان ہےاور جس میں آم، گاجر، مرچ، لیموں اور دیگر سبزیاں شامل ہوتی ہیں اور پھلکاری اچارشامل ہیں۔
یاد رہے، شکارپوری اچار صرف ایک اچار ہی نہیں، بلکہ یہ مقامی خواتین کے عزم و ہمّت، ذائقے اور مہارت کی ایک طویل داستان ہے۔ شکار پور کی گھریلو خواتین نے اپنے ذوق کی بہ دولت انواع و اقسام کے مسالا جات، نمک، مرچ اور تیل سے ایسے ذائقے تخلیق کیے کہ جو آج دُنیا بَھر میں پاکستان کا امتیاز بن چُکے ہیں۔
شکارپوری اچار کی یہ داستان ہمیں اس بات کا درس بھی دیتی ہے کہ خلوصِ نیّت اور محنت سے کیا گیا چھوٹا سا کام بھی انقلاب برپا کرسکتا ہے۔ ان خواتین نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ صرف گھرنہیں چلاتیں، بلکہ ذائقے کے ذریعے دُنیا کو اپنا گرویدہ بھی بنا سکتی ہیں۔ تب ہی تو آج شکارپوری اچار، ہزاروں خاندانوں کا ذریعۂ معاش بن چُکا ہے۔