پاکستان میں سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے رحجانات کے نتیجے میں پر تعیش لائف اسٹائل کی عکاسی کرنیکا فیشن دن بدن پھیل رہا ہے جبکہ دوسری طرف ٹیکس چوری کو ایک معمول کی کارروائی سمجھا جاتا ہے۔ اس رجحان کے دو نقصانات سامنے آ رہےہیں۔ ایک طرف تو ٹیکس کا سارا بوجھ مینوفیکچرنگ کے شعبے پر آن پڑا ہے جو ٹیکس کے اندر موجود ہے دوسری طرف تنخواہ دار طبقہ پر بے تحاشا بوجھ لاد دیا گیا ہے۔ اس کیساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر پر تعیش زندگی کی عکس بندی کیساتھ معاشرے میں موجود 40فیصد سے زیادہ لوگ جو خط غربت کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ انکی مایوسیوں میں اضافہ ہونے کےعلاوہ معاشرے میں موجود تفاوت کے نظام کی بڑھوتری کی عکاسی بھی ہوتی ہے۔فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے حال ہی میں سوشل میڈیا مانیٹرنگ سیل کے قیام کا نوٹیفیکیشن جاری کیا ہے جسکے بعد اس سیل نے بیس سے زائد ایسےکیسز کی نشاندہی کی ہے جن میں سوشل میڈیا پرمہنگی ترین گاڑیوں ،بائیکس اور بیرون ملک سفر کی ویڈیوز مختلف پلیٹ فارم پر اپ لوڈ کی گئیں لیکن جب ان کے سالانہ ریٹرنز کی جانچ پڑتال کی گئی تو پتا چلا کہ انہوں نے صرف چند لاکھ روپے ڈکلیئر کیے ہیں ان اثاثہ جات کی نمائش اور انکم ٹیکس ریٹرن کی اسکروٹنی کے نتیجے میں ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ پاکستان میں ٹیکس چوری موجود ہے۔ اس مبینہ ٹیکس چوری کی متعدد وجوہات ہیں جن کے بارے میں دوبارہ کسی وقت بات کرینگے فوری طور پر تین کیسز مثال کے طور پر آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں جن کی تفصیلات موجود ہیں۔ ایف بی آر کے قائم کردہ لائف اسٹائل مانیٹرنگ سیل کی جانب سے کی گئی تحقیقات کے مطابق ایک نوجوان نے سوشل میڈیا پر 19مہنگی ترین گاڑیاں اور بائیکس ڈسپلے کیں جن کی مالیت 624ملین روپے بنتی ہے جب لائف اسٹائل مانیٹرنگ سیل نے جمع کرائے گئے ریٹرنز کی جانچ پڑتال کی تو پتا چلا کہ صرف ایک گاڑی ٹیکس سال 2020ءمیں ڈکلیئر کی گئی جسکی مالیت 10 لاکھ روپے دکھائی گئی ہے ۔ ٹیکس سال 2021ءکے دوران اس شخص نے ایک گاڑی جس کی مالیت 30لاکھ 75ہزار 950روپے ظاہر کی ، ٹیکس سال 2022ء اور 2023ءکے اندر ڈکلیئر کی جبکہ 2024 ء کے دوران کوئی گاڑی ڈکلیئر نہیں کی۔ دوسری طرف سوشل میڈیا کے اکاؤنٹس کے اوپر 8 کروڑ روپے مالیت کی Cherolet Coveteامریکن کار 2020ء ماڈل دکھائی گئی ہے جو پاکستان کے اندر صرف چند گاڑیاں موجود ہیں اسکے علاوہ متعدد مہنگی ترین گاڑیاں اور بائیکس بھی ڈسپلے کرنے کے شواہد موجود ہیںدوسرے کیس میں ایک ٹریول وی لاگر نے گزشتہ پانچ سال کے دوران مہنگے ترین ممالک جن میںSeychelles سے لیکر دبئی، فلپائن، نیدر لینڈ، ترکی، برطانیہ، مالدیپ، جارجیا، سعودی عرب، ہنگری، فرانس، بلجیم اور سوئٹزر لینڈ کےدورے کئے اور ان ملکوں کی عکسبندی کی لیکن جب ٹیکس گوشواروں کی جانچ پرتال کی گئی تو انہوں نے چار لاکھ 90 ہزار روپے کی آمدنی 2020 ء کے دوران دکھائی جو بڑھ کرپانچ لاکھ 41 ہزار 2021 ،پانچ لاکھ 64ہزار 2022 اور ساٹھ لاکھ چوراسی ہزار 2023 اوراور آٹھ لاکھ سولہ ہزار 2024 کے سال کےاندر دکھائی گئی۔ جبکہ دوسری طرف دیگر اخراجات کی مدد میں تین لاکھ نوے ہزار سے لیکر پانچ لاکھ چار ہزار روپے دکھائے گئے ۔یہ کیس اس بات کی دلیل ہے کہ لائف اسٹائل اور ڈکلیئرڈآمدن اور اخراجات میں واضح فرق موجود ہے۔ تیسرا کیس بھی جنوبی پنجاب سےتعلق رکھتا ہے جس میںسوشل میڈیا کے اکاؤنٹس پر 180ملین روپے سے زائد کی چار گاڑیاں اور بائیکس کی نمود و نمائش کی گئی جنکی مارکیٹ ویلیو 8 کروڑ روپے بنتی ہے لیکن دوسری طرف جمع کرائے گئے گوشواروں میں سال 2023کے دوران دو موٹر سائیکلیں ڈکلیئر کی گئیں جن کی مالیت 31.28 ملین روپے بنتی ہےٹیکس سال 2024 کے دوران صرف ایک بائیک ڈکلیئر کی گئی جسکی مالیت 14.2 ملین روپے بنتی ہے۔ ایف بی آر کی جانب سے کئی کی تحقیقات کے مطابق Lx 570 جس کی مالیت 80 ملین روپے بنتی ہے اسکو ڈکلیئر نہیں کیا گیا۔ان تین کیسوںسے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ پاکستان میں ٹیکس چوری موجود ہے۔اس کے خاتمے کیلئے ایف بی آر اوردوسرے محکموں کو ایک جامع حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے ۔ اس حکمت عملی کی غیر موجودگی میں تنخواہ دارطبقہ کےاوپر ٹیکس کا بوجھ کم نہیں ہو سکتا۔ حالیہ بجٹ 2025-26میں حکومت نے شروع کے سلیب کے اندرڈھائی پرسنٹ کی کمی کی ہے لیکن پہلی سہ ماہی کے دوران تنخواہ دار طبقہ نے سب سے زیادہ ٹیکس جمع کروایا ہے جو پرچون فروشوں ،ہول سیلرز ، ایکسپورٹرز اور جائیداد کی خرید و فروخت کرنے والوں میں سب سے زیادہ ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو اشرافیہ اور امیر طبقہ کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہوگا۔