پاکستان کی واحد بلند رَو (elevated) میٹرو ٹرین اپنی تعمیرات اور سروسز کے لحاظ سے ایک شاندار منصوبہ ہے جسکی کامیاب منصوبہ بندی اور منظوری اس وقت کی صوبائی قیادت کی ذاتی دلچسپی سے ممکن ہوئی۔ جسکی تکمیل پاکستانی انجینئرز اور مقامی پرائیویٹ تعمیراتی اداروں کے ہاتھوں ہوئی۔ گزشتہ اتوار ہم بھی فیملی کے بچوں اور انکے ننھے منے کلاس فیلوز کے ہمراہ شہر کے تاریخی مقامات کی سیر کے دوران ایک بار پھر اس ٹرین کے سفر سے لطف اندوز ہوئے۔ وہ تاریخی مقامات جو ایک روزہ سیر میں سما نہ سکتے تھے۔ ٹرین کے سفر کے دوران بچوں نے ان تاریخی مقامات کا بھی مفت میں نظارہ کر لیا۔آج 25-اکتوبر2025ء کے دن بچوں کا ’’ٹورسٹ گائیڈ‘‘ ہوں۔ ٹھیک پانچ سال قبل اسی ٹرین سروس کا باقاعدہ افتتاح ہوا تو بطور ٹیم لیڈر سامعین اور مہمانوں کو تعمیرات بارے بریف کر رہا تھا۔ ان خوش گوار تعلقات اور حیرتوں میں گم تھا کہ میٹرو ٹرین کا ہدایت نامہ پڑھ لیا جسکے تحت مسافروں کو اولین ڈبے میں داخل ہونے سے منع کیا گیا تھا تاکہ بغیر ڈرائیور اس آٹومیٹڈ کی روانی میں خلل پیدا نہ ہو۔؎
رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں
اورنج لائن پاکستان کا پہلا بالائے زمین (overhead) اربن ٹرین پراجیکٹ ہے جسکی کل لمبائی 27.1کلومیٹر ہے اور جو شمالی لاہور کی گنجان آبادی کو جنوبی لاہور سے ملاتا ہے۔ اسکے متحرک اسٹاک میں اس وقت 27گاڑیاں شامل ہیں اور ہر گاڑی میں پانچ کمپارٹمنٹس ہیں۔ پانچ سال قبل اس گاڑی کے مسافروں (Commuters) کی تعداد ایک لاکھ سے نہ بڑھ سکی، لیکن کم وقت، ماحولیاتی آلودگی اور کم کرایہ کی وجہ سے یہ سفر آہستہ آہستہ ایسا مقبول عام ہوا کہ اس وقت مسافروں کی تعداد تقریباً ڈھائی لاکھ روزانہ ہے۔ مختصر دورانیہ اور کم سٹاپس فاصلہ کی وجہ سے ایک کثیر آبادی اس سے مستفید ہو رہی ہے، بلکہ شہر کے تاریخی مقامات شالامارباغ، لکشمی بلڈنگ، مقبرہ زیب النساء، جنرل پوسٹ آفس، سپریم کورٹ رجسٹری، سینٹ اینڈریو چرچ اور چوبرجی جیسی قدیم عمارات کا بھی متحرک نظارہ کیاجا سکتا ہے۔ اس پراجیکٹ کی تعمیرکیلئے مئی 2014ء میں MOU پر دستخط ہوئے۔ جسکے تحت چائنا ایگژم بینک اور حکومت پاکستان نے بالترتیب 52فیصد اور 48فیصد کی نرم شرائط پر اتفاق کر لیا۔پراجیکٹ کا باقاعدہ آغاز اکتوبر2015ء کو کر دیا گیا۔ اس پراجیکٹ میں سول ورک ازقسم بالائی سٹرکچر، اسٹیشن، زیریں لنک روڈز، برقی زینے، ڈپو وغیرہ کا کام مقامی تعمیراتی کمپنیوں نے انجام دیا جسکی ٹیکنیکل نگرانی لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے شعبہ انجینئرنگ کو سونپی گئی۔ جاری ٹریفک کے ساتھ شہر کی مصروف ترین شاہراہوں کے اُوپر سے سول سٹرکچر کی تعمیرات کوئی معمولی کام نہ تھا۔ زیرزمین پرانی تنصیبات کی تبدیلی، توسیع کیلئے زمین، جائیدادوں کی منصفانہ زرتلافی اور ادائیگی، تاریخی مقامات کی حفاظت، یہ وہ بڑی مشکلات اور مراحل تھے جن کیلئے اس وقت کے وزیراعلیٰ نے خصوصی دلچسپی سے احکامات جاری کئے۔ مئی 2018ء تک پراجیکٹ کا بیشتر کام مکمل ہو چکا تھا کہ پنجاب میں سیاسی قیادت اور اقتدار میں تبدیلی آ گئی اور یوں نئے سیاسی دور نے اس پراجیکٹ کو شکار کر لیا۔ مبینہ انتظامی، مالیاتی اور تکنیکی الزامات کی روشنی میں احتسابی اداروں نے اس پراجیکٹ کا پوسٹ مارٹم شروع کر دیا۔ فنڈز کی ترسیل روک دی گئی۔ اس صورتِ حال میں تعمیراتی کمپنیوں نے کام چھوڑ کر عدالتوں کا رُخ کر لیا اور ٹیکنیکل ٹیم بددلی کا شکار ہو گئی۔ یہ ہماری ملکی سیاست کا المیہ ہے کہ اقتدار میں آنیوالے اپنے پیش رَو (Predecessor) ادوار کے عوامی فلاحی منصوبوں کو بریکیں لگا دیتے ہیں، حالانکہ اس طرزِعمل سے ملکی مفاد کو نقصان پہنچتا ہے اور پراجیکٹ کی تکمیل کیلئے اخراجات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
اورنج لائن پراجیکٹ کا مزید التواء مالیاتی Sponsors کیلئےناقابل برداشت ہو گیا تو ناچار محکمہ سی اینڈ ڈبلیو سے ٹیم لیڈ / چیف انجینئر کو مستعار بنیادوں پر ایل ڈی اے میں تعینات کیا گیا۔ چنانچہ عدالتی لڑائیوں میں مصروف تعمیراتی کمپنیوں کو دوبارہ کام پر واپس لایا گیا۔ ایل ڈی اے کے مایوس ٹیکنیکل سٹاف کی دلجوئی کی گئی، اس ٹیم نے ایک نئے جذبہ کے ساتھ باقی ماندہ کاموں کی تکمیل کروائی اور یوں 25-اکتوبر2020ء کے دن شہر لاہور کے باسیوں نے اس خوش رنگ ٹرین میں سفر شروع کر دیا۔ اگرچہ کامیاب تکمیل کے بعد اب ٹرین لاہور کی فضاء میں رواں دواں ہے اور عوام بھی مطمئن وشاداں ہیں۔ تاہم مناسب ہو گا کہ آخری ٹیم لیڈ کی حیثیت سے اپنے تاثرات بیان کروں تاکہ مستقبل میں نئے پراجیکٹس متعصب رویوں اور تاخیرسے دوچار نہ ہوں۔ چنانچہ تمام سیاسی زعماء اور فریقین اس اتفاق پر صاد فرمائیں کہ مفادِ عامہ کے جاری منصوبہ جات کو نئے سیاسی دور میں بہرطور اولیت دی جائیگی۔ نیز کم فنڈز کی دستیابی کے ساتھ کثیر لاگت اور طویل المدتی پراجیکٹ شروع نہ کئے جائیں گے تاکہ آنیوالی حکومتوں کیلئے وبال جان نہ بن جائیں۔ بڑے پراجیکٹ کیلئےمسابقت کےبعد مشاورتی فرموں (Consultants) کا انتخاب کیا جائے تاکہ نجی شعبہ بھی بڑے پراجیکٹ کیلئے خدمات فراہم کر سکے۔ سرکاری مشاورتی ادارے بالعموم نئی حکومتوں اور انتظامی اداروں کا دبائو بردشت نہیں کرتے۔ بعدازاں جاری پراجیکٹ میں غیرروایتی، غیرقانونی طور پر تبدیلیوں کی غلطی کرتے ہیں، جبکہ پرائیویٹ مشاورتی اداروں پر اسٹیک ہولڈرز کا دبائو کام نہیں کرتا۔ پراجیکٹ کی تکمیل مدت بھی ڈیزائننگ کا حصہ ہوتی ہے جو نہایت سوچ بچار کے ساتھ متعین کی جاتی ہے۔ پراجیکٹ کو کم از کم مدت میں مکمل کرنا کوئی بڑا کمال نہیں۔ البتہ کوتاہیوں سے بچتے ہوئے پراجیکٹ کی پائیدار تکمیل ہی اصل ہنر و کارنامہ ہے۔ اگرچہ ترقیاتی کاموں کی ترجیحات اور ضروریات کے تعین میں سیاسی اور انتظامی قیادت کی مشاورت مفید ہے۔ لیکن اس کی تکمیل کیلئے ٹیکنیکل ٹیم پر زیادہ سے زیادہ اعتماد کیا جائے اور بے جا مداخلت سے احتراز کیا جائے تاکہ وہ یکسو ہو کر فرائض ادا کر سکے۔
اورنج ٹرین کی صورت میں ’’نارنجی لہو‘‘ کا یہ دھارا جو شہر لاہور کے ایک حصہ کو توانائیاں فراہم کر رہا ہے، متحرک کر رہا ہے۔ ہماری دعا ہے کہ شہر کے باقی ماندہ حصوں بلکہ پورے پاکستان میں یہ توانیاں جاری و ساری ہو جائیں۔ ایسی ماحول دوست ٹرینیں اور ٹرامیں ہر شہر کے راستوں پر عوام کیلئے گامزن ہو جائیں اور آسانیاں پیدا کریں۔