• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلاشبہ9مئی وطنی تاریخ کا تاریک دن ، ناقابل یقین اندوہناک واقعہ تھا ۔ صدق دل سے متاثرہ فریق کیساتھ،بدقسمتی کہ سانحہ کو ہینڈل کرنے کیلئے جو سنجیدگی درکار تھی ہینڈلرز اس سے کوسوں دور تھے ۔ دسمبر 2021ءتک عمران خان غیرمقبولیت کی اتھاہ گہرائیوں میں غوطہ زن ، سوچنے کی بات مقبولیت ساتویں آسمان پر کیسے جا پہنچی ۔ 10 اپریل 2022 اقتدار سے علیحدگی کے بعد وہ کیا منتر تھا کہ مقبولیت کو پر لگ گئے ۔ عثمان بزدار اور محمود خان ، 50 لاکھ گھر ،ایک کروڑ نوکریاں ، میگا پراجیکٹ ، بہترین سفارت کاری یا CPEC منصوبہ کو چار چاند لگانا ، دفتر میں کوئی ایک ایسا عمل جس پر اِتراتے اور عوام الناس کو جتلاتے ۔ جنرل باجوہ کا مفاداتی ایجنڈا گُل کھلا گیا ۔ جنرل باجوہ کے سر پر 29نومبر 2022ء سوار تھا جبکہ جنرل فیض حمید کا مجرمانہ ذہن باجوہ کے ہاتھ کا دستانہ تھا ۔ باجوہ کے آخری سات ماہ نے مملکت کی چولیں ہلا دیں۔ ایک طرف عمران کے غیرمقبول مردے میں جان ڈالی تو دوسری طرف اپنے ہی ادارے پر عمران سے بلوہ کروا ڈالا ۔ ایک لیفٹیننٹ جنرل جو بطور آرمی چیف ممکنہ طور پر زیرغور آ سکتا تھا ، عمران خان نے اسکے خلاف جہاد اکبر کا اعلان کر دیا اور جلسوں میں شرکاء سے اس پر احمقانہ حلف لئےگئے ۔ ادارے پر کھلے عام رکیک حملے کروائے، ایسی عیاشی ماضی میں کسی کی سیاست کا حصہ نہ بن سکی ۔ جس شد و مد سے ادارے کیخلاف عمران استعمال ہوا ، 9 مئی اسکا منطقی نتیجہ تھا ۔ صدافسوس ! 29مئی 2023ءکو اسلام آباد میں جب یوم شہدامنایا گیا تو سلامی چبوترے پر جنرل باجوہ کی موجودگی مجھے آزردہ کر گئی ۔

سانحہ 9مئی میں ملوث کرداروں کو چند ہفتوں میں کیفر کردار تک پہنچایا جا سکتا تھا ،امریکہ اور برطانیہ میں دِنوں میں سزائیں ہوتی دیکھیں ۔ شاید پہلی ترجیح ملوث ایسے کرداروں سے حساب کتاب چکانے سے زیادہ PTI کو نیست و نابود کرنا تھا ۔ 9 مئی کے بعد مقتدرہ نے گنتی کی بجائے تول کر PTI کے MNA's اور MPA's اکٹھے کئے ۔ معافی مانگنے والوں کو فی الفور رفعتیں ملیں ۔ خام خیالی کہ پارٹی ہوگئی خالی اور مرزا یار خوب دندنائے گا ۔ الیکشن 8 فروری کےنتائج یکسر الٹ ، مشکلات بڑھا گئے ۔ مایوسی کفر ، چنانچہ حوصلہ نہ ہارا ۔ فوراً نئی حکمت عملی ترتیب اور PTI قیادت میں باہمی تصادم کو فروغ دینا ٹارگٹ تاکہ پارٹی زمیں بوس ہوجائے۔ عمران نے کمال مہارت سے اپنے چاہنے والے عوام کو پارٹی قیادت کی بجائے سوشل میڈیا کی کمانڈ میں منتقل کر دیا نتیجتاً پارٹی قیادت ’’ بیٹھی ڈھول بجا ‘‘۔ ناکامی پر ہمت نہ ہاری ، مزاحمتی و مخاصمتی بیانیہ رکھنے والے اقرباپر محنت شروع کر دی تاکہ سوشل میڈیا اور معتقدین کو دونوں ہاتھوں سے سمیٹا جاسکے ۔ عمران خان نے آج آخری پراجیکٹ بھی متزلزل کر رکھا ہے ۔ اگر عمران خان سیاست ساتویں آسمان پر ہے تو اسکا کریڈٹ سیاسی انجینئرز کو نہ دینا صریحاً زیادتی ہو گی ۔ کاش ماضی میں ایسوں کی گوشمالی ہوجاتی تو احمقانہ تجربوں سے پہلے کئی بار سوچتے کہ تدبیریں الٹی پڑنے پر بُھگتنا ہو گا ۔ آپریشن مڈ نائٹ جیکال ( 1988 ) کی ناکامی پر کئی معتبر ذمہ داران کو گھر جانا پڑا تھا ۔ مجھے نہیں معلوم کہ اگلا پلان فیض حمید سے متعلقہ ، کارآمد ہو پائیگا یا نہیں ؟ کیا ہی اچھا ہوتا کہ 9 مئی کیسز میرٹ پر چلائے جاتے ، حقی سچی سزائیں ملتیں تو شاید زیادہ افاقہ رہتا۔ شاید یہی وجہ کہ اب جھوٹ بول کر سزائیں دلوائی جا رہی ہیں ، مزید عدالتوں کی بدنامی ہو رہی ہے۔

یقیناً حسان خان جان و دل سے عمران خان کیساتھ ہے ۔ درست کہ مقتدرہ کیخلاف غیرضروری سخت زبان کا مرتکب ہے ، دونوں ناقابل معافی جرم اور اصل وجہ نزاع بھی یہی ہے۔ کیا زمانہ تھا کہ عمران خان کی سخت مخالفت پر حسان خان کے والد پر عرصہ حیات تنگ رکھا اور اب کیا زمانہ ہے کہ عمران خان کی پُرجوش حمایت پر بیٹے کو تلا جا رہا ہے ۔ عرصہ حیات تنگ رکھنے والے بھی وہی اور تلنے والے بھی وہی ، وجہ بھی ایک عمران خان ۔ 13اگست 2023 کو ایبٹ آباد سے گرفتارہوا تو معلوم نہ تھا ، کہاں ہے، تمام ہائی کورٹس میں حبس بے جاکی اپیل دائر کی۔ ہائیکورٹ کے اصرار پر ایک خط جمع کرایا گیا ، جس میں کمانڈنٹ EME برانچ نے SHOتھانہ سرور روڈ کو بذریعہ سرکاری خط حکمنامہ جاری کیا کہ ’’حسان نیازی کو ہمارے حوالے کیا جائے ‘‘،آسودگی کہ زندہ ہے ۔ 13 اگست 2023تا 30اکتوبر تک حسان خان پر جو بیتی، اپنے طور المناک داستان ، علیحدہ کالم کا موضوع ہے ۔ سویلین کے ملٹری ٹرائل پر سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کا فیصلہ کہ غیرقانونی تحویل پر ہائیکورٹ سے رجوع کریں ۔ کمانڈنٹ EME کا خط میرے لئے باعث رحمت ثابت ہوا ۔ غیرقانونی خط کی بنیاد پر ہائیکورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کی جس میں حسان خان کی غیرقانونی حوالگی کو چیلنج کیا گیا ہے ۔

دلچسپ صورتحال اتنی کہ اپیل کے بعد ایک چاہنے والے دوست نے رابطہ کیا ۔ پہلے تو مجھے حسان خان کی دس سال قید بامشقت کے اوصاف حمیدہ بتائے پھر جتلایا کہ ’’فوجی تحویل میں اور بعد ازاں کوٹ لکھپت جیل میں حسان خان کیساتھ خصوصی رعایت رہی اور یہ سب کچھ ذمہ داران کی منشا و مرضی سے ہی ممکن تھا ۔ اب جبکہ آپ کو معلوم ہو جائیگا کہ ہائیکورٹ ریلیف دینے سے انکاری ہے اور فیصلہ بھی خلاف آئیگا ۔ کیا فائدہ کہ ایسی اپیل سے ذمہ داران ناخوش ہوں ‘‘۔ عزیز دوست کا حاصل کلام ، ’’حسان خان اپنی درخواست واپس لے کہ ریلیف ملنے کا امکان صفر جبکہ مشکلات بڑھنے کا امکان سو فیصد ہے‘‘۔ جواباً عرض کیا کہ میں حالیہ ساری مشکلات اور مصیبتوںکو من جانب اللہ تعالیٰ سمجھتا ہوں ، باری تعالیٰ کے آگے سر جھکاتا ہوں ۔ یقینا افسران بالا کی مہربانی کہ جناح ہائوس کے قریب پائے جانے کے الزام ( مقدمہ کی کارروائی کےدوران فقط یہی ایک الزام بتایا گیا ) پر بیس پچیس سال کی بجائے دس سال قید بامشقت کی رعایتی مختصر سزا کا مستحق ٹھہرایا ۔ اگرچہ دس سال قید بامشقت کی معمولی سزا چند گھنٹے کے ٹرائل پر ملی اور مزید مزاحیہ تحریری فیصلہ آج تک موصول نہیں ملا ۔ عرض کیا ، معلوم ہے کہ PTI سے متعلقہ لوگوں کی سزائیں شاید سپریم کورٹ بھی نہ توڑ پائے مگر مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں ہر نظام اور ہر اقتدار کی ایک شیلف لائف ہے ۔ مجھے آج بھی فکر اپنے بیٹے سے زیادہ وطن عزیز کی ہے کہ ہینڈلرز کی ناکامی ریاست کا اصل سانحہ رہنی ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ سانحہ 9 مئی کے معاملات سے کوئی ذی شعور نبردآزمارہتا تاکہ وطن آئندہ کسی ایسے سانحہ سے دوچار نہ ہوپاتا ۔

تازہ ترین