ماہرین جب بھی آنے والے سالوں میں ذیابطیس کی شرح کا تخمینہ لگاتے ہیں، تو اس سے کہیں پہلے ہی اس کی شرح بڑھ جاتی ہے۔ لہٰذا ذیابطیس پر قابو پانے کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا۔ حکومتوں کے صحت کے لیے جو بجٹ مختص ہیں، وہ ذیابطیس کے مریضوں ہی کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہیں، باقی مسائل اپنی جگہ ہیں۔ بین الاقوامی ادارہ برائے ذیابطیس کی ہدایات پر عوامی آگاہی کے پروگرام مرتّب کیے گئے، ڈاکٹرز کے لیے پوسٹ گریجویٹ پروگرامز ہوئے، لیکن اِس سب کے باوجود ذیابطیس کی شرح بڑھنے سے نہ رُک سکی۔
اِس سے ثابت ہوتا ہے کہ کہیں کسی چیز کی کمی ہے، جس کے سبب ذیابطیس کا جِن قابو سے باہر ہوتا جارہا ہے۔ بین الاقوامی ادارہ برائے ذیابطیس(IDF) کے اعداد وشمار کے مطابق، دنیا میں ذیابطیس سے متاثرہ افراد کی تعداد 589ملین ہے اور اِن مریضوں کی بڑی تعداد غیر تشخیص شدہ ہے، یعنی اُنہیں پتا ہی نہیں کہ وہ ذیابطیس کی لپیٹ میں آچُکے ہیں۔ اِسی طرح پِری ذیابطیس افراد کی، یعنی جنہیں شوگر ہونے کا خطرہ ہے، تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔
پاکستان میں ذیابطیس کے مریضوں کی تعداد 33ملین سے زاید ہے۔ ہمارا طرزِ زندگی، جیسے فاسٹ فوڈ کا کثرت سے استعمال، ہائی کیلورک ڈرنکس، دیر سے سونا، بے وقت کھانا اور ورزش کا نہ کرنا، اِس شرح میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ یہ بیماری افراد، صحت کے نظام اور معیشتوں کے لیے کسی سنگین خطرے سے کم نہیں۔ اِسی وجہ سے آئی ڈی ایف نے سال2025 ءکی مہم کے لیے ایک بہت ہی اچھے تھیم کا انتخاب کیا ہے۔
یعنی’’ذیابطیس کے لیے مستقبل کی منصوبہ بندی کیجیے۔‘‘ اگرچہ یہ ایک عام سا نعرہ یا عنوان محسوس ہوتا ہے، مگر ماہرینِ ذیابطیس کے لیے کال ٹو ایکشن ہے۔ ذیابطیس ایک ایسی دائمی حالت ہے، جس کے دوران خون میں گلوکوز کی سطح نارمل حالت سے زیادہ ہوتی ہے اور اس کی وجہ سے انسولین تیار کرنے یا مؤثر طریقے سے استعمال کرنے میں ناکامی ہوتی ہے۔ اگرچہ ذیابطیس کی کئی اقسام ہیں اور حال ہی میں آئی ڈی ای کی کانگریس میں ذیابطیس ٹائپ-5 بھی تسلیم کی گئی ہے، مگر پھر بھی اس کی دو ہی اقسام زیادہ عام ہیں۔
(1) ٹائپ وَن ذیابطیس، یہ آٹو ایمیون ہے، جس میں جسم کا مدافعتی نظام لبلبے کے انسولین پیدا کرنے والے خلیات تباہ کر دیتا ہے، جس کے باعث لبلبہ، انسولین پیدا نہیں کرتا۔ پاکستان میں اِس قسم کی ذیابطیس کی شرح کم ہے۔ یہ عموماً کم عُمر افراد میں دیکھی گئی ہے۔
(2) ٹائپ ٹو ذیایطیس ایک میٹابولک عارضہ ہے، جس کے دَوران ابتدا میں جسم میں انسولین کے خلاف مدافعت اور بعدازاں انسولین کی کمی ہو جاتی ہے۔ بعض مریضوں میں یہ دونوں عوامل ایک ساتھ بھی ہو سکتے ہیں۔ ذیابطیس کی اِس قسم کا تعلق طرزِ زندگی سے ہے۔
اگر دیکھا جائے، تو کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں ذیابطیس کی صُورتِ حال زیادہ پریشان کُن ہے کہ وہاں اِس کی روک تھام، تشخیص اور انتظام کے لیے درکار بنیادی ڈھانچے اور وسائل کی نمایاں کمی ہے۔
ٹائپ ٹو سے نمٹنے کے لیے ہمیں اپنے طرزِ زندگی پر نظرِ ثانی کرنی ہوگی۔خاص طور پر موٹاپے، غیر صحت بخش غذاؤں، تمباکو نوشی اور جسمانی غیر فعالیت جیسے اہم امور پر توجّہ مرکوز کرنی ہوگی۔
نیز، صحتِ عامّہ سے متعلق تعلیمی مہمّات، صحت بخش غذا، ورزش، باقاعدگی سے طبّی معاینے اور ذیابطیس کے ابتدائی اسکریننگ پروگرام کی اہمیت اجاگر کرنا بے حد ضروری ہے۔ حکومت کو میٹھی اور چکنائی دار اشیاء پر ٹیکس عائد کرنا چاہیے، تو کھانے پینے کی اشیاء کی مارکیٹنگ کے نظام کی بھی نگرانی کرنی ہوگی۔البتہ، شوگر کی اسٹرپس اور گلوکومیٹر کو ٹیکس فری ہونا چاہیے تاکہ علاج معالجے میں سہولت رہے۔نیز، ڈیجیٹل ہیلتھ ٹیکنالوجی انقلابی صلاحیتوں کی حامل ہے، جس سے استفادہ کیا جانا چاہیے۔
گویا، ذیابطیس سے متعلق مستقبل کے لیے کوئی بھی حکمتِ عملی تشکیل دیتے ہوئے مصنوعی ذہانت(AI) کو پیشِ نظر رکھنا ناگزیر ہوچُکا ہے۔ ٹیلی میڈیسن اور موبائل ہیلتھ (HM) کے ذریعے دُور دراز علاقوں میں رہنے والوں کے لیے ذیابطیس کے علاج معالجے کی سہولتیں پہنچائی جاسکتی ہیں۔ کئی موبائل ایپس شوگر چیک کرنے، ادویہ اور جسمانی سرگرمیوں پر نظر رکھنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔
مصنوعی ذہانت سے چلنے والے کئی پلیٹ فارمز ذیابطیس کی پیچیدگیوں کی قبل از وقت پیش گوئی کرنے کے ساتھ، تشخیص میں بھی معاونت کر سکتے ہیں۔جب کہ اس کے ذریعے ڈیٹا بھی جمع کیا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں، صحتِ عامّہ سے آگاہی کے ضمن میں عوامی مہمّات بنیادی کردار ادا کرتی ہیں، جہاں اِس سے امراض سے بچاؤ میں مدد ملتی ہے، وہیں علاج معالجے میں سہولتیں بھی میسّر آتی ہیں۔
ذیابطیس کے ضمن میں ایسی آگاہی ضروری ہے، جس کی بنیاد پر متاثرہ افراد اپنی خوراک، سرگرمیوں اور ادویہ سے متعلق جان سکھیں۔ ادارہ برائے ذیابطیس کی ہدایات کے مطابق، دنیا بَھر میں ذیابطیس پر نظر رکھنے والی مختلف تنظیمیں اِس مرض کے ساتھ رہنے والے افراد کی دیکھ بھال کرنے والوں کی تربیت کے لیے بھی کوشاں ہیں اور پاکستان میں آئی ڈی ایف سے منسلک پرائمری کیئر ذیابطیس ایسوسی ایشن اِس ضمن میں ایک نمایاں نام ہے۔
اِس مقصد کے لیے مقامی ڈاکٹرز کے لیے کئی تربیتی پروگرامز شروع کر رکھے ہیں۔ حال ہی میں لاہور کے مقامی ڈاکٹرز کی تربیت کی غرض سے ایک روزہ پروگرام ’’STEEP‘‘ کے عنوان سے ہوا۔ تاہم، اِس سلسلے میں مزید وسعت کی گنجائش بھی ہے اور ضرورت بھی۔ اساتذہ، طلبہ، ذیابطیس پر کام کرنے والی تنظیموں، تاجروں اور کمیونیٹیز تک یہ تربیتی سلسلہ پھیلایا جانا چاہیے۔ (مضمون نگار، کالج آف فیملی میڈیسن، کراچی کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ہیں)