تحریر: نرجس ملک
ماڈل: طیبہ
ملبوسات: فائزہ امجد اسٹوڈیو(ڈی ایچ اے، لاہور)
آرائش: دیوا بیوٹی سیلون
عکّاسی: عرفان نجمی
لے آؤٹ: نوید رشید
خُوب صُورت ٹی وی فن کارہ، نازش جہانگیر نے گزشتہ دنوں معروف شاعر، ڈراما نگار، میزبان، سیّد وصی شاہ کو ایک انٹرویو میں اُن کے اِس سوال کے جواب میں کہ ’’کتنے فی صد لوگ آپ کے حُسن کی تعریف کرتے ہیں، کتنے فی صد اداکاری کی اور کتنے آواز کی؟‘‘ کہا کہ ’’پیاری مَیں ہوں۔ مَیں خُود مانتی ہوں کہ مَیں خُوب صُورت ہوں۔ آئینہ دیکھ کر خُود سے کہتی ہوں کہ ’’پیاری تو مَیں ہوں‘‘۔ دراصل مجھے اپنا آپ بہت پسند ہے، اپنا ہر فیچر پسند ہے۔ مَیں باقاعدہ شُکرانے کے نوافل پڑھتی ہوں۔
اللہ کا بہت شُکر ادا کرتی ہوں کہ اُس نے مجھے اتنی خُوب صُورتی دی۔ مَیں نے آج تک کبھی یہ نہیں کہا کہ یہ ڈریس ایسا ہے، ویسا ہے، مجھ پر اچھا نہیں لگے گا۔ لباس کیسا بھی ہو، مَیں پہن لوں، آپ ہی آپ سج، جچ جاتا ہے۔‘‘ کیا بات ہے، بس زندگی میں ایسا ہی کانفیڈنس چاہیے۔ اِس قدر خُود اعتمادی ہو، تو پھر ہی جینے کا اصل لُطف آتا ہے ناں۔ یہ کیا کہ عمومی خواتین کی طرح آدھی زندگی اِسی غم میں گُھل گُھل کر گُھلادی کہ ’’پتا نہیں یہ رنگ مجھ پر کِھلے گا یا نہیں؟‘‘، ’’یہ اسٹائل میرے جسم، قد کاٹھ پر بھلا لگے گا کہ نہیں۔‘‘ ’’یہ ماڈرن لُک یا روایتی انداز میرے رُوپ رنگ کے ساتھ لگّا کھائے گا یا نہیں؟‘‘
اِس قسم کےسوالات، مسائل سے یک سر بے نیازی، بے پروائی بھی بڑی ہی نعمت ہے۔ گرچہ نازش کے جواب پر کافی لے دی ہوئی۔ فارغ، ویلے لوگوں نے جی بھر کے زہریلے، کٹیلے کمنٹس دے کر دل کی بھڑاس نکالی، مگر وہ پنجابی کی ایک کہاوت ہے ناں ’’اِک تے بنّوسوہنی، مگروں سُتی اُٹھی۔‘‘ (ایک تو مٹیار اِتنی حسین و جمیل، اُس پر نیند سے بےدار ہوئی) تو جنہیں خُود پر بلا کا اعتماد ہوتا ہے، وہ اِس بات کی بھی قطعاً پروا نہیں کرتے کہ کوئی اُن سے متعلق کیا کہتا پِھرتا ہے۔ اپنی ذات میں انجمن، خُود شناس، پُراعتماد، رجائیت پسند لوگوں کو یا تو اپنے عیب بھی ہنر معلوم ہوتے ہیں یا کم از کم وہ اپنے عیوب کو محاسن میں بدلنے کا ہُنر ضرور رکھتے ہیں۔‘‘
جیسا کہ کچھ عرصہ قبل بھارتی اداکارہ رِچا چڈا کا ایک سوال وجواب کا سیشن بھی خاصا وائرل ہوا۔ جس میں ایک لڑکے نے سوال کیا کہ ’’ابھی پچھلے دِنوں ایشوریا کے ڈریسنگ سینس پر خاصی تنقید ہوئی، تو آپ لوگ ٹرولنگ سے کیسے ڈیل کرتے ہیں؟‘‘ جواباً رِچا چڈا نے جو کہا۔ وہ اُن خواتین کو، جو ہمہ وقت، بِلا سبب ہی کسی نہ کسی احساسِ کم تری میں مبتلا ہو کے اپنا سیروں خون جلاتی رہتی ہیں، اپنے دل و دماغ کے فریم پر نقش کروالینا چاہیے کہ ’’کیوں تمہیں ڈیل کرنا ہے بھائی۔
میری بات سُنو، چِنٹو چندی گڑھ میں بیٹھ کر کیا سوچ رہا ہے، تمہیں کیا فرق پڑے گا۔ چِنٹو اپنی بھڑاس نکال رہا ہے۔ اُس کے گھر کا پینٹ خراب ہورہا ہے، اُس کے پاس نوکری نہیں ہے۔ اُس کی ممی ایل پی جی سے چولھے پر آگئی۔ چِنٹو کیا کہے گا، ’’اِس کا ڈریس اچھا نہیں ہے۔‘‘ اوکے۔ جو لوگ اپنے جیون سے ناخوش ہیں، وہ دوسروں کو ٹارگٹ کرتے ہیں۔ تو سمپل سی بات ہے کہ لوگ جلتے ہیں ایشوریا رائے سے۔‘‘ مطلب، آپ بن سنور کے، تیار شیار ہو کے خُود کو پیاری لگ رہی ہیں۔
تو بس، آپ پیاری ہیں۔ کوئی کیسے دیکھ رہا ہے، کوئی کیا کہہ رہا ہے، کسی کو کیسا لگ رہا ہے، یہ آپ کا نہیں، اُس کا مسئلہ ہے۔ آپ کا دل خوش، دماغ پُرسکون ہے، آئینہ آپ کو دیکھ دیکھ مسکرارہا ہے، Thumbs up کا اشارہ دے رہا ہے، تو بس، کہیں اور دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں۔ کانوں کو اپنی ہی گنگناہٹ سنائی دینی چاہیے کہ ’’مَیں اُڈّی اُڈّی جاواں ہوا دے نال…‘‘
افتخار عارف نے کہا تھا ناں کہ ؎ زمانہ ہوگیا خُود سے مجھے لڑتے جھگڑتے..... مَیں اپنے آپ سے اب صُلح کرنا چاہتا ہوں۔ تو بھئی، آپ بھی یہ خُود پر ہر وقت کی تنقید، جرح، جانچ پڑتال چھوڑ کے بس اب اپنی ’’پکّی سہیلی‘‘ بن جائیں۔ اور… ذرا دیکھیں تو، آج ہم اس سَکھی سہیلی کے دل کا رانجھا راضی کرنے کو کیا ایک سے بڑھ کر ایک رنگ و انداز سمیٹ لائے ہیں۔
بدلتی رُت کی مناسبت سے گہرے جامنی رنگ کے دل نشیں امتزاج میں را سلک کا ایمبرائڈرڈ پہناوا ہے، جس کے ساتھ بھاری کام دار دوپٹے کی ہم آمیزی گویا قیامت ڈھا رہی ہے۔ بے بی پنک رنگ میں انتہائی نفیس سفید رنگ کڑھت سےمزیّن لانگ شرٹ کے ساتھ فرشی شلوار کا دل فریب انداز ہے، تو سی گرین ایمبرائڈرڈ ڈریس پر پولکا ڈاٹس سے آراستہ ایمبرائڈرڈ دوپٹے کا لُک بھی سونے پہ سہاگے کا سا تاثر دے رہا ہے۔
لائٹ گرین کے ساتھ سفید کے کنٹراسٹ میں را سلک کا حسین و دل نشین پہناوا شام کی کسی بھی تقریب کے لیے نہایت موزوں ہے، تو ڈارک رسٹ کلر کےخُوب صُورت پہناوے کے ساتھ ٹائی اینڈ ڈائی کے دل رُبا سے شیفون دوپٹے کی نُدرت و پھبن کے بھی کیا ہی کہنے۔ جس تقریب میں پہن کر شریک ہوجائیں گی، وہ خُود بخود ’’تقریبِ خاص‘‘ بن جائے گی۔
یہ سب کے سب پہناوے آپ ہی کے لیے ہیں۔ بقول ثمینہ ثاقب ؎ اب تجھ سے ملنے کی خاطر سجتی ہوں..... ناک میں موتی، منہ پر غازہ، توبہ ہے..... چائے میرے ہاتھ سے گرنے والی تھی .....اُس نے اِس انداز سے گھورا، توبہ ہے..... شرم سے پانی ہوجانے کو چاہے جی..... جُڑ کر میرے ساتھ ہے بیٹھا، توبہ ہے.....عکس اُسی کا مجھ کو دِکھنے لگتا ہے..... جب بھی تکتی ہوں آئینہ، توبہ ہے.....مجھ پر کالا، آسمانی اور پِیچ کلر..... جچتا ہے ہر رنگ کا جوڑا، توبہ ہے۔