• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر: اقصیٰ منور ملک

ماڈل : ثمن

ملبوسات: شاہ پوش

آرائش: دیوا بیوٹی سیلون

عکاسی: عرفان نجمی

لےآؤٹ: نوید رشید

زندگی کا فلسفہ ہر کسی کے لیے مختلف سہی، لیکن اس بات پر تو شاید سبھی متفق ہوں کہ زندگی میں سارے رنگ رُوپ عورت ہی کے دَم قدم سے ہیں۔ کسی نے کیا خُوب صُورت بات لکھی ہے کہ ’’عورت کے حُسن میں رب کی صنّاعی چُھپی ہے۔ اُس کے بغیرہر آرٹ ادھورا، شاعری بے اثر، موسیقی بے سُر اور محبت بے رنگ ہے۔ عورت درحقیقت جنس نہیں، ایک احساس ہے۔ ایسا احساس، جو قلب و جاں میں جاگزیں، رُوح میں سمایا ہوتا ہے۔‘‘ غالباً عورت وہ واحد تخلیق ہے، جس کے حُسن کی تشریح کُل عالم میں بولی جانے والی ہر ایک بولی میں الگ الگ اندازمیں کی گئی۔ 

جیسا کہ خلیل جبران نے کیا منفرد بات کی کہ ’’اگر خدا نے عورت سےزیادہ کوئی حسین چیزبنائی، تو وہ یقیناً اپنے پاس ہی رکھی۔‘‘ اِسی طرح کئی اور بہت خُوب صورت، برمبنی حقائق، وجودِ زن کی فطرت، سرشت و عادات کی سو فی صد درست عکاسی کرتے مقولے، جملے، اشعار بولے، لکھے، سنائے دہرائے گئے۔ جیسا کہ ’’عورت صرف عورت نہیں، وہ ایک مکمل کائنات ہے، جس میں ہر رنگ، ہر جذبہ اور ہر کہانی موجود ہے۔‘‘، ’’عورت کے بغیر کائنات، نظامِ فطرت نامکمل ہی نہیں، بےآب و گیاہ صحرا کی مانند ہے۔‘‘، ’’عورت ایک ایسی روشنی ہے، جس سے پوری دنیا روشن، ایک ایسی کڑی ہے، جس سے ہر رشتہ جُڑا ہوا ہے۔‘‘، ’’یہ ایک عورت ہی کا وصف ہےکہ اُسے جتنا اچھا، جتنا حسین کہو، وہ اتنی ہی اچھی، اُسی قدر حسین ہوتی چلی جاتی ہے۔‘‘، ’’عورت کی کم زوری اُس کی نرمی اور یہی نرمی اس کی سب سے بڑی طاقت ہے۔‘‘، ’’ عورت کا اصل حُسن، اُس کی رُوح سےجھلکتا ہے۔‘‘، ’’عورت کا دل ایک ایسا وسیع و عریض سمندر ہے، جس کی گہرائی ناپی جا سکتی ہے اور نہ ہی اس میں چُھپے طوفانوں کا اندازہ لگانا ممکن ہے۔‘‘، ’’ہرعورت اپنی ذات میں مکمل، اپنی راج دھانی کی تنہا وارث ہے۔ 

یہ تو اُس کا ظرف ہے کہ وہ حاکمیت کی بجائے خدمت و مشقت، ایثار و قربانی زیادہ پسند کرتی ہے۔‘‘ جب کہ بقول ساغر صدیقی ؎ ’’اگر بزمِ ہستی میں عورت نہ ہوتی… خیالوں کی رنگین جنّت نہ ہوتی… ستاروں کے دل کش فسانے نہ ہوتے… بہاروں کی نازک حقیقت نہ ہوتی… جبینوں پہ نورِمسرت نہ کِھلتا… نگاہوں میں شانِ مروت نہ ہوتی… گھٹاؤں کی آمد کو ساون ترستے… فضاؤں میں بہکی بغاوت نہ ہوتی… فقیروں کو عرفانِ ہستی نہ ملتا… عطا زاہدوں کو عبادت نہ ہوتی… مسافر سدا منزلوں پر بھٹکتے… سفینوں کو ساحل کی قربت نہ ہوتی…ہر اِک پھول کا رنگ پھیکا سا رہتا… نسیم بہاراں میں نکہت نہ ہوتی… خدائی کا انصاف خاموش رہتا… سُنا ہے کسی کی شفاعت نہ ہوتی۔‘‘ اور سب سے خُوب صُورت بات کہ ’’دنیا کی کوئی عورت کبھی بدصُورت نہیں ہو سکتی۔‘‘

بلاشبہ، کوئی زندگی سے بھرپور شوخ و شنگ الہڑسی دوشیزہ ہو یا پھر ذمّےداریوں میں الجھی خود سے بے نیازسی گھر گرہستن، بہرکیف اُس کی حیاتی قوسِ قزح کے حسین رنگوں کا ایک امتزاج ہی ٹھہرتی ہے۔ اِس سَت رنگی دھنک میں خوشی ومحبّت کا گہرا سُرخ رنگ ہے، تو حُزن وملال کا پھیکا زرد رنگ بھی، راحت و سُکون، فرحت و شگفتگی کی علامت سبز رنگ ہے، تو امن و آشتی، تقدّس و پاکیزگی کا استعارہ سفید رنگ بھی۔ 

دوستی وخیرخواہی، وسعت و گہرائی، الوہیت و روحانیت کا سِمبل نیلا رنگ ہے، تو اُمید و رَجا، دل داری وگرم جوشی کی علامت نارنجی رنگ بھی، اور اماوس، اسرار و رموز، طاقت و اختیارکا مظہر سیاہ رنگ تو ہے ہی۔ اور یہی تمام رنگ مل کر اُس کی کائنات مکمل کرتے ہیں۔ وہ کیا ہے کہ ؎ زندگی پھول ہے، خوشبو ہے، مگر یاد رہے… زندگی گردشِ حالات بھی ہوسکتی ہے۔ اور پھر جون ایلیا لکھتے ہیں ؎ زندگی ایک فن ہےلمحوں کو… اپنے انداز میں گنوانے کا۔ 

مطلب، نشیب و فراز زندگی کا لازمہ ، خوشی، غم ادلتے بدلتے موسم ہیں۔ اور کبھی کبھی بس یوں ہی ساری عُمریا بیت جاتی ہے، پتا بھی نہیں چلتا۔ تو پھر کیوں نہ اِس زندگی کے اِن تیزی سے سرکتے کچھ لمحات کو بہت اچھے انداز سے بھی جی لیا جائے کہ انسان کو دن میں کم ازکم ایک بار تو اپنی بھی ضرورت پڑتی ہی ہے۔ تو چلیں، پھر ذرا وقت نکال کراِس اپنے آپ کو کچھ سنوارا، نکھارا جائے۔ ہاں مگر، یہ آرائش و زیبائش ایک حد ہی میں ہونی چاہیے، خصوصاً لباس کا انتخاب تو اقدار و روایات کے مطابق ہی بھلا لگتا ہے۔

جیسا کہ ہماری آج کی بزم کی مہمان نے دورِ جدید کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بھی پابندیٔ لباس کی خوب پاس داری کر رکھی ہے۔ جو کیژول مشرقی پہناوے زیبِ تن کیے ہیں، اُن میں سیاہ وسفید کے کامبی نیشن میں ایک فلورل پرنٹڈ آل اوورڈریس کا انتخاب ہے، تو سیاہ و سفید ہی کے سدا بہار امتزاج کے ساتھ نارنجی آنچل بھی خُوب بہار دکھا رہا ہے۔ وہ کیا ہے کہ ’’سیاہ لباس بھی جچتا ہے کسی کسی پر، مگر جس پر جچتا ہے، خُوب ہی جچتا ہے۔‘‘ 

ہلکے آسمانی رنگ کے ساتھ روز پرنٹڈ لباس کا انداز منفرد سا ہے، تو سفید اور نارنجی کے تال میل میں ایک دل نشین سا اسٹائل بھی گویا غضب ڈھا رہا ہے۔ اور ہلکے زردی مائل کاٹن ڈریس پر جیٹ بلیک رنگ کی ایمبرائڈری اور ساتھ نیٹ ایمبرائڈرڈ دوپٹے کی ہم آمیزی کے تو کیا ہی کہنے۔ شام ڈھلے ساری ذمّے داریوں، سب جھنجھٹوں سے تھوڑا سا وقت اپنے لیے نکال کر ایسا ہی کوئی پہناوا منتخب کر کے خود کو سنوار دیکھیں۔ کوئی آپ ہی آپ گنگنا اُٹھےگا ؎ بہت دِنوں سے مِرے ساتھ تھی، مگر کل شام… مجھے پتا چلا وہ کتنی خُوب صُورت ہے۔

سنڈے میگزین سے مزید
جنگ فیشن سے مزید