ایک باتونی حجام سے حجامت بنواتے ہوئے پیٹر نے کہا’’یار جوزف مسیح میںذرا ایک ماہ کیلئے بیرون ملک جارہا ہوں ان شاءاللہ اب واپسی پر ملاقات ہو گی‘‘۔
کہاں جا رہے ہیں صاحب؟ جوزف نے پوچھا۔’’روم جانے کا ارادہ ہے ‘‘،چھوڑیں صاحب ، روم بھی کوئی جگہ ہے، جانا ہے تو پیرس جائیں ،لندن جائیں، نیو یارک جائیں،’’نہیں بھئی جوزف اب تو پروگرام بن گیا ہے‘‘،کون سی ائر لائن سے جا رہے ہیں؟،’’برٹش ایرویز سے‘‘،یہ بھی کوئی ائر لائن ہے صاحب، ایک سے ایک ائر لائن پڑی ہے، کسی اچھی سی ائر لائن سے سفر کریں،’’بھئی میں تو ٹکٹ بھی خرید چکا ہوں‘‘،آپ کی مرضی ، روم میں کہاں قیام کریں گے؟،’’ہلٹن میں ٹھہرنے کا ارادہ ہے‘‘،چھوڑیں صاحب، ہلٹن بھی کوئی ٹھہرنے کی جگہ ہے کوئی اور جگہ دیکھیں،’’نہیں بھئی میں وہاں دوستوں کو اطلاع دے چکا ہوں‘‘،ویسے آپ روم میں کریں گے کیا ؟،’’کرنا کیا ہے، کچھ تھوڑی بہت سیر و تفریح ہو جائے گی لیکن اصل مقصد پوپ کی زیارت ہے بس دل میں ایک خواہش ہے کہ ان کے ہاتھ چومنے کا موقع مل جائے‘‘،پوپ سے آپ کیسے ملیں گے، وہ تو سال چھ مہینے پہلے ملاقاتوں میں نام لکھوانا پڑتا ہے، پھر بھی ملاقات کا موقع نصیب والوں ہی کو ملتا ہے،’’تم ٹھیک کہتے ہو لیکن کوشش کرنے میں کیا حرج ہے؟‘‘،آپ کوشش کر دیکھیں، لیکن ملاقات ناممکن ہے۔ایک ماہ بعد پیٹر واپس پاکستان آیا اور حجامت بنوانے جوزف کے پاس گیا۔ جوزف نے پوچھا صاحب آپ باہرسے ہو آئے؟، ’’ہاں بھئی کل ہی لوٹا ہوں‘‘۔کہاں گئے تھے؟،’’میں نے تمہیں کہا تھا نا کہ روم جانے کا ارادہ ہے‘‘۔تو پھر کیسا لگا روم۔؟’’بھئی جوزف کیا کہنے اس شہر کے، میں نے دنیا گھومی ہے لیکن سچی بات یہ ہے کہ اس شہر کا کوئی جواب نہیں‘‘۔آپ کون سی ائر لائن سے گئے تھے؟ جوزف نے مایوس ہو کر پوچھا۔’’برٹش ائر ویز میں گیا تھا بھئی کیا ائر لائن ہے اتنی اسموتھ فلائٹ بس لگتا ہے جیسے جہاز ہوا میں تیر رہا ہے‘‘۔روم میں قیام کہاں رہا؟’’ہلٹن میں ٹھہر اتھا ، بھئی پیسے تو کافی خرچ ہو گئے لیکن مزا آ گیا‘‘،پوپ سے ملاقات ہوئی ؟ جوزف نے آخر میں سخت مایوسی کے عالم میں پوچھا۔’’بھئی جوزف کمال ہو گیا ، ادھر میں نے درخواست دی اور ادھر پوپ نے مجھے طلب کر لیا، میں آدھ گھنٹہ تک ان کی خدمت میں حاضر رہا، البتہ جب میں جاتی دفعہ ان کے ہاتھوں کو بوسہ دینے کے لیے جھکا تو انہوں نے کہا ...‘‘،کیا کہا انہوں نے ؟’’انہوں نے کہا یہ حجامت تم نے کس گدھے سے بنوائی ہے؟‘‘
گزشتہ روزمیری کچھ اسی قسم کی گفتگو ایک دوست سے ہوئی۔ میں نے اسے ڈنر پر بلایا تھا اس کی شیو بڑھی ہوئی تھی گریبان کے بٹن کھلے تھے اور جیکٹ اس نے یوں کاندھوں پر ڈالی ہوئی تھی جیسے ابھی کہے گا ماں آج پھر نوکری نہیں ملی ۔اس نے سوپ کا گھونٹ کڑوے گھونٹ کی طرح حلق میں اتارتے ہوئے کہایار یہ زندگی کیا ہے؟، ’’کیوں کیا ہوا زندگی کو؟ اچھی چیز ہے، اچھی طرح گزارنی چاہیے ‘‘میں نے کہا۔خاک اچھی چیز ہے، آج صبح میں نہا رہا تھا آنکھوں کو صابن ملا ہوا تھا کہ پانی بند ہو گیا،’’واقعی یہ تو بہت افسوسناک ہے اس سے تو تمہیں اپنی آدھی زندگی بے کار محسوس ہوئی ہوگی‘‘ ،اور کیا اوپر سے دوپہر کو ٹیلی فون ہیلڈ ہوگیا ہے کالیں آتی رہیں میں کال نہیں کرسکتا تھا۔’’اوہو، یہ تو سونے پر سہاگہ ہوا ، میرا مطلب ہے ایک کریلا اور دو جانیم چڑھا۔ معافی چاہتا ہوں کوئی مناسب محاورہ نہیں سوجھ رہا، کہنا یہ چاہتا ہوں کہ بہت افسوس ہوا‘‘افسوس ناک باتیں تو اور بھی بہت سی ہیں ، ایک محکمے میں دس لاکھ کا بل پھنسا ہوا ہے. ..،’’بل میں دس لاکھ پھنسے ہوئے ہیں ؟‘‘،مجھے تمہاری اس طرح کی چہلیں اچھی نہیں لگتیں تم خدا کیلئے زندگی کو سیریس کرو۔’’زندگی کیا میں تمہیں بھی سیریس لیتا ہوں، خیر تم بتاؤ تمہارے ساتھ اور کون کون سے افسوس ناک واقعات پیش آئے‘‘۔
کوئی ایک ہو تو بتاؤں بھی ، میری ساری زندگی اس طرح کے دکھوں سے بھری پڑی ہے؟۔’’چچ چچ تم کتنے دکھی انسان ہو، زندگی میں کبھی سکھ بھی دیکھا ہے؟‘‘، کبھی نہیں،’’تمہاری شادی تو ہوئی ہے نا؟‘‘ ۔ہاں،’’بیوی کیسی ملی ؟‘‘،بس ٹھیک ہے’’بچے کیسے ہیں؟‘‘،بس وہ بھی ٹھیک ہیں، پڑھ لکھ کر نوکریوں پر لگے ہوئے ہیں۔ ’’فرمانبردار ہیں؟‘‘، تو کیا نافرمان ہوں گے؟،’’تمہارا اپنا کاروبار کیسا ہے؟‘‘،بس دال روٹی چلتی ہے،’’تمہاری آنکھیں، کان، ناک، بازو، ٹانگیں سب صحیح طور پر کام کرتے ہیں؟‘‘،کرتے ہیں بھئی کرتے ہیں، مگر تم یہ سب کیوں پوچھ رہے ہو؟،’’صرف اس لیے کہ زندگی میں چیزیں جو تمہیں میسر ہیں، وہ نصیبوں والوں کو ملتی ہیں بلکہ صرف اچھی صحت ہی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کیلئے کافی ہے اور تم ہو کہ ہر چیز میں کیڑے نکالتے ہو‘‘۔اور یہ جو نہاتے ہوئے پانی بند ہو جاتا ہے، ٹیلی فون ہیلڈ رہتا ہے یہ چھوٹے دکھ ہیں؟
افسوس تم میرے آنسو پونچھنے کی بجائے مجھے لیکچر دینے لگ گئے ہو۔’’تم مجھ سے کیا چاہتے ہو؟‘‘،بس تم میرے لیے دعا کیا کرو۔’’یہ تو میں تمہارے کہے بغیر بھی کرتا رہتا ہوں ایک دفعہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب بھی آیا تھا‘‘۔کیا کہا تھا اللہ تعالیٰ نے؟ دوست نے بے چینی سے پوچھا۔’’اللہ نےفرمایا تھا تمہارا دوست واقعی بہت دکھی ہے اسے اپنے پاس بلا لیتا ہوں ۔ میرے ہاں پانی وافر مقدار میں ہے اور ٹیلیفون بھی ہیلڈ نہیں ہوتا۔ پھر کیا خیال ہے تمہارا؟‘‘۔