آج کل دنیا بھر میں ایشیائی رہنماؤں کی اس نئی حکمت عملی کا بڑا چرچہ ہے جس میں وہ پہلے ٹرمپ کی خوشامد کرتے ہیںاور پھر اس سے فوائد سمیٹتے ہیں۔یوں جاپان، کوریا اور ملیشیا نے اس حکمت عملی کے سہارے امریکا سے ٹیرف کم کرا کر نئے تجارتی معاہدے کر لیے ہیں۔یاد رہے کہ آمران ذہنیت کا رہنما اپنے ارد گرد چاپلوس لوگوں کی وجہ سے جنگیں شروع کرنے اور تنازعات کو بڑھانے کا رجحان رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے ڈونلڈ ٹرمپ دنیا بھر کے دوروں میں اپنی امن قائم کرنے کی صلاحیتوں سے تو لوگوں کو بھرپور طریقے سے آگاہ کر رہے ہیں لیکن انہیں یہ نہیں بتاتے کہ وہ کس طرح کھلے عام وینزویلا میں فوجی طاقت کے ذریعے ایک جمہوری حکومت کو تبدیل کر رہے ہیں۔ 1823ء میں امریکی صدر جیمز مونرو (James Monroe) نے ایک ڈاکٹرائن کے ذریعے لاطینی امریکہ کے ممالک کو اپنا پچھواڑہ قرار دیتے ہوئے اس بات کا کھل کر اعلان کر دیا تھاکہ لاطینی ممالک یا تو امریکا کے ساتھ تجارت کریں گے یا انٹارٹیکا کے ساتھ۔ اس کیساتھ ساتھ امریکا نے یورپین ممالک کو بھی خبردار کیا کہ وہ لاطینی امریکا کو نوآبادیات بنانے سے مکمل طور پر گریز کریں۔ امریکا کی انہی پالیسیوں کی وجہ سے لاطینی امریکا کی بیسویں صدی کی تاریخ بے شمار بلاجواز مداخلتوں سے حکومتیں گرانے سے بھری پڑی ہے۔معروف دانشور جیفری سیچ کے مطابق دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ دنیا بھر میں ستر سے زائد مواقع پر حکومتیں گرانے اور جنگوں میں ملوث رہا ہے۔گو کہ ٹرمپ کے پہلے دور حکومت میں اس نے کیوبا، وینزویلا اور نکاراگویا پر حملہ کرنے سے گریز کیالیکن اس دفعہ مارکوروبیو،جو متعصب اینٹی کاسٹرو طبقے کا نمائندہ ہے اور ہنری کسنجر کے بعد پہلا شخص ہے جو قومی سلامتی کے مشیراور وزیر خارجہ کے طور پر کام کر رہا ہے، نے منشیات کے خاتمے کا بہانہ بنا کر ٹرمپ کو وینزویلا پر حملےکیلئے قائل کر لیا ہے۔ آج امریکی حکام پانامہ حملے کو ماڈل بنا کر وینزویلا سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں جسکے ساتھ ساتھ امریکہ نے اپنے بحری بیڑے اور سی آئی اے کو زمینی کارروائیوں کی اجازت دے دی ہے۔اس سے پہلے 1989ء میں امریکہ نے پانامہ کے صدر جنرل مینوئل نوریگا (Manuel Noriega) پر بھی منشیات کی سمگلنگ کا الزام لگا کر ناصرف اسکی حکومت کا تختہ الٹ دیا بلکہ اسے ہتھکڑیاں لگاکر امریکی عوام کے سامنے بھی پیش کیا۔ لیکن وینزویلا کی صورتحال بالکل مختلف ہے کیونکہ اس وقت روس، وینزویلا کوہتھیار اورمیزائل فراہم کر رہا ہے اورمختلف سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق اس حملے کے نتیجے میں منشیات کی سمگلنگ، تنازعات اورامیگریشن کے حالات خطے میں مزید بگڑ جائیں گے۔ یاد رہے کہ پانامہ تیس لاکھ نفوس پر محیط ایک چھوٹا ملک ہونے کے ساتھ ساتھ پانامہ نہر کی وجہ سے دوحصوں میں تقسیم تھا اورامریکی حملے کے وقت پانامہ نہر بھی امریکی کنٹرول میں تھی اور وہاں”سدرن کمانڈ“ کا صدر دفتر اور مستقل فوجی اڈہ بھی موجود تھا۔دوسری طرف وینزویلا ایک وسیع اور جغرافیائی طور پر ایک متنوع ملک ہے اور اس کی آبادی تین کروڑ کے قریب ہے اور وہاں نہ تو امریکہ کے کوئی فوجی اڈے ہیں اور نہ ہی وینزویلا کے پڑوسی ممالک جن میں کولمبیا اور برازیل شامل ہیں، ٹرمپ کی کسی پالیسی سے متفق ہیں۔ امریکی حکام زور و شور سے وینزویلا کے صدرنکولس مادورو، کو منشیات کارٹل کا سرغنہ قرار دیتے ہوئے اصل منصوبے کے نظریاتی مقاصد کو چھپا رہے ہیں۔ بین الاقوامی طور پر بھی یہ ایک عمومی رائے پائی جاتی ہے کہ وینزویلا کبھی منشیات کی تجارت کابڑا مرکز نہیں رہا اور نا ہی امریکہ میں فینٹیل(خاص قسم کی منشیات) کے بڑھتے ہوئے استعمال سے اس کا کوئی تعلق ہے۔ یاد رہے کہ مادورو، گزشتہ بارہ برسوں سے ہیوگو شاویز کے جانشین کے طور پر کام کر رہے ہیں جنہوں نے اپنے سوشلسٹ نظریات کی بازگشت کو وینزویلا کی حدود سے نکال کر پورے لاطینی امریکہ میں پھیلا دیاتھا۔شاویز نے اپنے ملک کے غریب ترین طبقے کو غربت سے نکالنے کی بھرپور کوششیں کیں جس میں ناصرف اسے کیوبا کی مدد حاصل رہی بلکہ فیڈل کا سترو نے 2002ء میں شاویز کے خلاف ہونے والی امریکی بغاوت کو ناکام بنانے میں کلیدی کرداربھی ادا کیا تھا۔منرو ڈاکٹرائن کے تحت ہی 1898میں امریکہ نے کیوبا پر حملہ کر کے اسے اسپین سے تو آزاد کروا لیا لیکن پھر کئی دہائیوں تک امریکہ نے کیوباکو عملی طور پر امریکی کمپنیوں کے زیر سایہ ہی رکھا۔ بالآخر1959ء میں فیڈل کاسترو نے کیوبا میں انقلاب برپا کر کے اسے آزادی دلوائی لیکن 1961ء میں امریکہ نے کیوبا پر حملہ کر دیا۔ کاسترو کی فوج نے ناصرف امریکی میرینز کو شکست فاش دی بلکہ بے آف پگس(Bay Of Pigs) کا یہ واقعہ امریکہ کی تاریخ میں ذلت آمیز شکست سے یاد کیا جاتا ہے۔ لیکن اس شکست کے بعد امریکہ نے آج تک کیوبا کو معاف نہیں کیابلکہ فیڈل کاسترو پر کئی بار جان لیوا حملے بھی کروائے،یوں آج تک کیوبا کی معاشی ناکہ بندی جاری و ساری ہے۔ منروڈاکٹرائن کے تحت ہی1954ء میں امریکہ نے گوئٹے مالا کے جمہوری طور پر منتخب ہونے والے صدرکا تختہ الٹ دیاکیونکہ وہ زرعی اصلاحات کا نفاذ کرتے ہوئے 4000ایکڑ زمین قومی تحویل میں لے چکے تھے جس میں سب سے بڑا حصہ یونائیٹڈ فروٹ کمپنی کا تھا جس کو واشنگٹن میں بہت پزیرائی حاصل تھی۔یوں گوئٹے مالا میں امریکی مداخلت کیلئے یہ جوازکافی تھا۔امریکہ کی قائم کردہ کٹھ پتلی حکومت نے فوری طور پر ناصرف زرعی اصلاحات کو واپس لے لیا بلکہ ان زمینوں سے پانچ لاکھ کسانوں کو بھی بے دخل کر دیا۔ 1970ء میں سیلوا ڈور آلاندے چلی کے سوشلسٹ صدر منتخب ہوئے۔لیکن اسکی حکومت کوبھی 1973ء میں مقامی دائیں بازو کی پشت پناہی کرتے ہوئے فوجی بغاوت کے ذریعے گرا دیاگیا۔
ٹرمپ کی لاطینی ممالک سے یہ دشمنی اب کولمبیا تک پہنچ گئی ہے جہاں کے صدر فلسطینیوں کے حقوق کے سب سے بڑے اورپرجوش حامی تصور کیے جاتے ہیں اور جنہوں نے گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں بباہنگ دہل اور دو ٹوک الفاظ میں فلسطینیوں کے حقوق کی کھل کر حمایت کی تھی۔ اس تقریب کے بعد ان کا ناصرف امریکی ویزہ منسوخ کر دیا گیا بلکہ ٹرمپ نے اسے کولمبیا کا بدترین صدر اورپاگل شخص قرار دیا۔امریکہ کی لاطینی امریکی ممالک پر تسلط کی پالیسیاں کوئی نئی بات نہیں ہے اور لاطینی امریکہ کی بیسویں صدی کی تاریخ ایسے ہی بے شمار بلاجواز مداخلتوں سے حکومتیں گرانے کےواقعات سے بھری پڑی ہے۔ لاطینی امریکہ میں امریکی مداخلتیں دراصل ان ممالک اور انکے عوام کیلئے شدید اذیت اور تباہی کا باعث بنتی رہی ہیں جو امریکی تسلط کی پالیسیوں سے مزاحمت کرتے آئے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ایران پر حملے سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ دنیا میں امن کے خیر خواہ نہیں ہیں بلکہ وہ بیک وقت امن قائم کرنے اور جنگ کرنے کی صلاحیتوں کو دراصل امریکی تسلط کو قائم کرنے کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔