پوری دنیا میں تمام ممالک دیار غیر میں رہنے والے اپنے باشندوں کی فلاح و بہبود کے لئے تندہی سے کرتے ہیں اور مصیبت پڑنے پر بھرپور مدد بھی مہیا کرتے ہیں ۔جب کہ بدقسمتی سے ہمارے پاکستانی دیار غیر میں 95فیصد اس سہولت سے محروم ہیں۔بیشتر سفارت خانوں کا عملہ ان سے بدتمیزی اور غیر اخلاقی رویے کا مظاہرہ کرتا ہے اور خصوصاً دیار غیر میں ان کو کسی بھی جرم میں سزا ہو جائے پھر تو وہ ایسے منہ پھیرتے ہیں جیسے وہ پاکستانی نہیں کوئی غیر ملکی ہیں ۔حالانکہ سفارت خانے صرف غیر ملکیوں کو ویزے دینے کیلئے نہیں بنائے جاتے بلکہ اس ملک کے باشندوں کو سہولت پہنچانے کیلئے قائم کئے جاتے ہیں ۔ یہ غریب پاکستانی جن میں نوکری پیشہ، مزدور ، انجینئرز کثرت سے خلیجی ممالک میں 40اور 50سینٹی گریڈ درجہ حرارت میں دھوپ اور گرم موسم میں دن رات کام کر کے اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر اپنے گھر والوں، دوستوں اور رشتہ داروں کو بھجواتے ہیں اور وہیں سے برس ہا برس تنہا زندگی گزار کر اپنی غربت دور کرنے میں دن رات ایک کر دیتے ہیں۔ کئی کئی سالوں کے بعد وہ چھٹی ملنے پر ہی پاکستان صرف چند ہفتوں کیلئے اپنے پیاروں سے ملنے آتے ہیں۔یہ ایک بڑے عجیب سلسلوں سے گزر کر بڑی بڑی رقوم گنوا کر پہلے تو ویزہ اور پھر نوکریاں حاصل کرتے ہیں ۔بہت سے جعلی ٹریول ایجنٹوں کی بدولت اور ان کے ایجنٹوں کے ہاتھوں جعلی ویزوں پر جب وہاں پہنچتے ہیں تو انہیں یا تو ایئرپورٹ سے ہی واپس کر دیا جاتا ہے یا پھر اگر وہ کسی طرح داخل ہو جائیں اور ویزوں کی معیاد گزر جائے یا پھر ان کا کفیل ناراض ہو جائے تو وہ خروج لگوا کر ان کو اس ملک میں واپس بھجوا دیتا ہے ۔بہت سے خلیجی ممالک میں اس کا کفیل ہر سال ویزے کی تجدید کی رقم وصول کرنے کے باوجود اس مقامی کمپنی کے مالکان کے خلاف جو مزدوری کروا کر تنخواہیں بھی نہیں دیتے پھر بھی کوئی مدد نہیں کرتا اور اس میں انفرادی متاثر کو تو ہمارا سفارت خانہ گھسنے بھی نہیں دیتا ۔رشوت، رعونیت دونوں چیزیں ہمارے سفارت خانوں میں ہی پائی جاتی ہیں ۔دنیا کے دیگر ممالک بشمول ہمارے پڑوسی ملک بھارت کے سفارت خانے نہ صرف اپنے باشندوں کا خیال رکھتے ہیں بلکہ اپنے ملک کیلئے نئے نئے خریدار بھی پیدا کرتے ہیں جبکہ ہمارے کمرشل اتاشی آج تک کوئی خاطر خواہ کارنامہ انجام نہیں دے سکے جس سے ہمارے ملک کی معیشت میں کوئی مدد مل سکے اور وہ صرف تنخواہیں، رہائش اور آسائشیں لینے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں اور غریب پاکستانی باشندے سفارت خانوں کے چکر لگا لگا کر تھک ہار کر بیٹھ جاتے ہیں آج تک ہمارے سفارت خانوں کا احتساب نہیں ہو سکا اور لاکھ شکایتوں کی بھرمار کے ان کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی جس سے سفارتی عملہ اور مغرور ہو جاتا ہے اس سے رشوت کا دروازہ اور وسیع ہو جاتا ہے ۔یہ تمام معاملات صرف ہمارے جیسے غریب ممالک کے باشندوں کے ساتھ پیش آتے ہیں جو اپنی جانوں پر کھیل کر قانونی، غیر قانونی راستے جو ٹریول ایجنٹس دکھلا کر اپنی جانوں کو بھی گنوا دیتے ہیں ۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بھارتی پڑھے لکھے آئی ٹی، ڈاکٹر، انجینئر، بینکر، انشورنس، پراپرٹی ایجنٹس اب خلیجی ممالک سے واپس بھارت جا رہے ہیں ۔ایک تو ان کا روپیہ ہمارے روپے کے مقابلہ میں تقریباً دگنا ہے اور اب بھارت میں خلیجی ممالک کی بہ نسبت تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ ہو چکا ہے پھر اپنا ملک اپنا ہی ہوتا ہے۔ دیار غیر میں تنہائی، ذلت تیسرے درجے کی شہریت سب کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔
پچھلے ہفتے میری چھٹی کتاب ’’صوبے کیوں ضروری ہیں‘‘ کی تقریب رونمائی جب ختم ہوئی تو ایک وفد جس کی قیادت ایک UAEمیں رہنے والے صحافی بھائی کر رہے تھے سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے UAEمیں 2000سے زائد پاکستانی جو صرف UAEکی مختلف جیلوں میں گزشتہ 10بارہ سالوں سے قید ہیں اور تقریباً 200سے زیادہ تو عمرقید یعنی (25سال قید) میں ذلت آمیز زندگی گزار رہے ہیں جن کی ہمارے سفارت خانوں کے ویلفیئر افسران نے بھی ان کی اب خبر گیری کرنی چھوڑ دی ہے ۔ان کی طویل فہرست لا کر درخواست کی ۔خدارا ہمارا کیس اپنے کالم میں اٹھائیں کہ نومبر2009ء میں حکومت پاکستان اور وفاقی حکومت امارات کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ طے پایا تھا جس کی رو سے 6ماہ سے زائد سزا پانے والوں کو پاکستان واپس بھیج دیا جائے گا اور وہ اپنی بقایا سزا پاکستان کی مقامی جیلوں میں پوری کریں گے ۔5سال گزر چکے ہیں آج تک 2ہزار سے زیادہ قیدی اسی امید میں بیٹھے ہیں کہ کب ہماری حکومت اس معاہدے پر عمل درآمد کرتی ہے۔ امارات کی حکومت ان پاکستانیوں کو واپس بھیجنے کیلئے تیار ہے مگر پاکستان کی طرف سے اس معاہدے پر عمل درآمد نہیں ہو رہا ہے جبکہ بھارت، بنگلہ دیش اپنے قیدیوں کو اپنے اپنے ملک واپس لے جا چکے ہیں ۔خود پاکستان بھی انگلینڈ، تھائی لینڈ سے ایسے ہی معاہدے کی روشنی میں پاکستانی قیدی واپس لا چکا ہے پھر متحدہ عرب امارات ، سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک سے اپنے پاکستانی قیدی لانے میں کیوں پس و پیش کر رہا ہے جب کہ انہی افراد کے اربوں ڈالر ہر سال زرمبادلہ کے طور پر پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔آج وہی مصیبت میں ہیں تو ہم ان سے کیوں آنکھیں چُرا رہے ہیں۔ یاد رہے کہ خلیجی ممالک میں بہت سے قیدی ایسے بھی ہیں جن کے سامان سے خشخاص اور خواب آور دوائیں، کھانسی کے شربت کی بوتلیں نکلی تھیں سب وہ نارکوٹکس کے زمرے میں آتی ہیں جن کی سزائیں کم از کم 10سال اور زیادہ سے زیادہ 25سال عمر قید دی جاتی ہے اور کچھ ایسے بھی معصوم قیدی ہیں جن کے ایجنٹوں نے یہ کہہ کر پیکٹ دیا ہوتا ہے کہ تم میرے فلاں رشتے دار کو دے دینا ۔ایئرپورٹ پر جب کسٹم والے پوچھتے ہیں کہ اس میں کیا ہے تو انہیں خود بھی نہیں معلوم ہوتا تو اس طرح وہ پکڑے جاتے ہیں اور تمام عمر جیل میں گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں وہاں کی پولیس ہماری پولیس کی طرح رشوت لے کر نہیں چھوڑتی کیونکہ خلیجی ممالک میں پولیس کا معیار ہمارے ملک کے بڑے سے بڑے سیکرٹریوں کے بھی مقابلے میں آگے ہوتا ہے اور وہ صرف 8گھنٹے ہی ڈیوٹی دیتے ہیں ۔ہر تھانے میں 3افسران تعینات ہوتے ہیں ۔ہر قسم کی سہولتیں انہیں میسر ہوتی ہیں لہٰذا آٹے میں نمک کے برابر پولیس والے رشوت لیتے ہیں دیگر محکموں کو تو اب بھارتی ، پاکستانی اور بنگلہ دیشیوں نے رشوت دے دے کر انہیں بگاڑ دیا ہے مگر پولیس کا محکمہ ابھی بچا ہوا ہے ۔
انہوں نے بتایا کہ حال ہی میں سرتاج عزیز صاحب UAEمیں تشریف لائے تھے کیونکہ اسلام آباد میں ان قیدیوں کے لواحقین نے ان کے دفتر کے باہر بہت بڑا مظاہرہ کیا تھا۔آج تک پتہ نہیں چل سکا کہ اماراتی ذمہ داروں سے ان کی کیا بات چیت ہوئی ۔ہر قیدی اپنی اپنی رہائی کی آس لگائے بیٹھا ہے۔ وزیر داخلہ، وزیر اعظم صاحب، صدر پاکستان محترم جناب ممنون حسین اگر فوری طور پر اس طرف توجہ دیں تو یقیناً ان کی دعائوں سے بہت سے مسائل خود حل ہو جائیں گے اور ہزاروں لواحقین بھی اپنے پیاروں کو اپنے درمیان پا کر اذیت ناک زندگی سے چھٹکارا پا سکیں گے۔