پنجاب حکومت کا یہ فیصلہ کہ صوبے بھر کے پینسٹھ ہزارائمہ کرام کو دس ہزار روپے ماہانہ ظیفہ دیا جائے، ایک دیرینہ ضرورت کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔ مگر یہ فیصلہ دراصل اُس محرومی کا اعتراف بھی ہے جو دہائیوں سے ہمارے مذہبی طبقے کے مقدر کا حصہ بنی ہوئی ہے۔ وہ طبقہ جو عوام کو دینی و روحانی رہنمائی دیتا ہے مگر خود دنیاوی ضروریاتِ زندگی سے بھی محروم ہے۔پنجاب اور دیگر صوبوں کے دیہات میں ایسے ہزاروں امام ہیں جنکی روزی روٹی کا کوئی مستقل ذریعہ نہیں۔ کئی دیہات میں امام صاحبان کو مسجد کی خدمت کے عوض صرف غلہ یا فصل میں سے کچھ حصہ دیا جاتا ہے۔ بعض اوقات یہ حصہ اتنا کم ہوتا ہے کہ وہ اپنے اہلِ خانہ کیلئے دو وقت کی روٹی کا بندوبست بھی نہیں کر پاتے۔ امام حافظ رشید احمد پنجاب کے ایک دیہی علاقے کی مسجد میں صبح فجر سے عشا تک خدمت انجام دیتے ہیں۔ نماز پڑھاتے ہیں، بچوں کو قرآن سکھاتے ہیں، مگر شام ڈھلے مزدوری کیلئے کھیتوں میں جانا پڑتا ہے۔ وہ کہتے ہیں’’اللہ کے گھر کی خدمت میرا فخر ہے، مگر جب میرا بچہ بھوکا سوتا ہے تو دل چِر جاتا ہے‘‘۔ایک اور گاؤں کے امام قاری نعمان صاحب کے پاس سواری نہیں۔ وہ روزانہ تین کلومیٹر پیدل چل کر مسجد پہنچتے ہیں۔ کبھی کبھار محلے والے کھانا دے دیتے ہیں، ورنہ چائے اور خشک روٹی ان کا معمول ہے۔ وہ کہتے ہیں’’ہم اللہ کے نام پر کام کرتے ہیں، بندوں سے امید نہیں رکھتے‘‘۔ان جیسے بے شمارائمہ کرام ہیں جن کی زندگیوں میں غربت کے سائے ہیں، مگر ایمان کی روشنی کبھی مدھم نہیں ہوئی۔
کئی دیہات میں امام مسجد کو وہ احترام بھی نہیں ملتا جو ایک معمولی سرکاری ملازم کو حاصل ہے۔ ان سے علاقے کے تنازعات حل کرنے کیلئے کہا جاتا ہے مگر ان کے فیصلوں کو ماننے والا کوئی نہیں ہوتا۔ بعض بااثر لوگ ان پر دباؤ ڈالتے ہیں کہ ان کے حق میں فتوے دیے جائیں، اور انکار پر مسجد کا چندہ روک دیا جاتا ہے۔ ایک قصبے کے امام صاحب نے بتایا کہ محلے کے ایک بڑے شخص نے کہاکہ بیان میں ہمارا ذکر لازمی ہونا چاہئے۔ انکار پر انہیں مسجد سے الگ کر دیا گیا۔ پاکستان کی تقریباً ستر فیصد آبادی گاؤں اور دیہات میں مقیم ہے۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں تعلیم کی کمی، معاشی پسماندگی اور روایتوں کی گرفت آج بھی مضبوط ہے۔ ان علاقوں میں امام مسجد کا کردار صرف مذہبی نہیں بلکہ سماجی بھی ہے۔ عوام ان کی بات کو قانون سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ بعض اوقات کسی ایک فتوے یا بیان کی بنیاد پر پورے گاؤں کے رویے بدل جاتے ہیں۔ اگر یہ ائمہ کرام قومی دھارے میں منظم انداز میں شامل کر لیے جائیں، ان کیلئے رہنمائی کا واضح راستہ حکومت طے کرے اور ان کی تربیت جدید خطوط پر کی جائے، تو پاکستان کی سماجی ساخت میں حیرت انگیز تبدیلی آ سکتی ہے۔
ایسے حالات میں پنجاب حکومت کا دس ہزار روپے ماہانہ وظیفہ ایک نعمت کی طرح ہے۔ یہ محض ایک اعلان نہیں بلکہ اس احساس کا اظہار ہے کہ ائمہ کرام بھی ریاست کے ذمہ دار شہری ہیں، جن کی محنت اور خدمت کا معاوضہ دینا ریاست کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔ یہ پہلا قدم ہے، مگر اسے آغاز سمجھ کر آگے بڑھانا ہوگا۔ حکومت اگر اس اقدام کو پالیسی کی شکل دے اورائمہ کرام کو باعزت روزگار، تربیت اور مراعات کے ساتھ جوڑے تو مساجد حقیقی معنوں میں قومی اصلاح کے مراکز بن سکتی ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت چند بنیادی نکات کو عملی شکل دے۔ سب سے پہلے دس ہزار روپے کے وظیفے کو کم از کم پچیس ہزار روپے ماہانہ تک بڑھایا جائے تاکہ امام صاحبان اپنے اہل خانہ کی ضروریات پوری کر سکیں۔ائمہ کرام کو سولہ یا سترہ گریڈ کے افسران کے مساوی درجہ اور مراعات دی جائیں، نکاح ناموں، تصدیقات اور سماجی امور میں انہیں محدود انتظامی اختیارات دیے جائیں تاکہ انکا کردار باوقار ہو۔ حکومت ان کیلئے تربیتی مراکز قائم کرے جہاں جدید تعلیم، اخلاقی قیادت اور سماجی ہم آہنگی کے اصول سکھائے جائیں۔ انکے بچوں کی تعلیم، صحت اور رہائش کیلئے خصوصی اسکیمیں شروع کی جائیں تاکہ وہ فلاحی معاشرے کے فعال رکن بن سکیں۔مسجد وہ ادارہ ہے جس نے اسلام کے آغاز سے ہی قوم سازی کا کام کیا۔ اگر آج پاکستان میں بھی مسجد کو صرف عبادت گاہ نہیں بلکہ سماجی اصلاح کا مرکز بنا دیا جائے تو قوم میں اتحاد پیدا کیا جا سکتا ہے۔ سعودی عرب، قطر اور خلیجی ممالک میں امام مسجد کو معاشی تحفظ، سماجی احترام اور حکومتی سرپرستی حاصل ہے۔ پاکستان میں بھی اگر ایسا کیا جائے توائمہ کرام دین و دنیا دونوں میں رہنمائی کے اعلیٰ مقام پر فائز ہو سکتے ہیں۔یہ وقت ہے کہ حکومت اپنے مذہبی رہنماؤں کو محض خطیب نہیں بلکہ اصلاحِ معاشرہ کے معمار کے طور پر تسلیم کرے۔ انکی رہنمائی کو قومی پالیسی کا حصہ بنایا جائے تاکہ مساجد، منبر اور محراب معاشرتی تربیت کے مراکز بن سکیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ سلسلہ صرف پنجاب تک محدود نہ رہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاق اور دیگر تمام صوبائی حکومتیں بھی اس مثال کو اپنائیں تاکہ پاکستان کے تمام علماء و ائمہ کرام ایک منظم قومی دھارے میں شامل ہو کر قوم کی فکری، اخلاقی اور تعلیمی رہنمائی کا فریضہ ادا کر سکیں۔ یہی وہ راستہ ہے جو پاکستان کو امن، اتحاد اور شعور کے سفر پر گامزن کر سکتا ہے۔