مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
مَیں جس ہستی کے لیے آج یہ تحریر رقم کررہی ہوں، وہ اس فانی دنیا سے کوچ کر چکی ہیں، مگر دنیا سے منہ موڑنے کے بعد بھی اپنے بہترین اوصاف اور اخلاق و کردار کی وجہ سے آج بھی ہمارے ذہنوں میں زندہ ہیں۔ بلاشبہ، انسان کا بہترین عمل اُسے مرنے کے بعد بھی زندہ رکھتا ہے اور ہماری ہر دل عزیز اور قابلِ فخر ٹیچر، مس صالحہ خاتون کا شمار بھی ایسی ہی ہستیوں میں ہوتا ہے، وہ ہمیں سائنس کا مضمون پڑھایا کرتی تھیں۔
مَیں جب اپنے محلّے سے دُور اس نئے اسکول میں داخل ہوئی، تو پہلے ہی روز مس صالحہ کے حوالے سے معلوم ہوا کہ وہ پڑھاتی تو بہت اچھا ہیں، لیکن انتہائی سخت مزاج ٹیچرکے طور پر جانی جاتی ہیں۔ اُن کی سخت گیری کے حوالے سے جان کر مَیں تھوڑی خوف زدہ ہوئی، مگر پھرچند روز بعد ہی اندازہ ہوگیا کہ وہ نااہل اور غیر سنجیدہ طلبہ کے لیے تو سخت ہیں، لیکن پڑھنے لکھنے والی ذہین و محنتی طالبات کے لیے دل میں بہت نرم گوشہ رکھتی ہیں۔
مَیں بنیادی طور پر ایک پڑھاکو بچّی تھی، اپنا ہوم ورک نہ صرف بروقت مکمل کرلیا کرتی تھی، بلکہ سبق یاد کرکےدوسرے دن فوراً سُنا بھی دیا کرتی۔ اور مس صالحہ ہوم ورک چیک کرنے کے بعد نہ صرف شاباشی دیتیں، خوب حوصلہ افزائی بھی کرتیں۔ مس صالحہ کی بینائی پیدائشی طورپر انتہائی کم تھی یا کہہ لیں کہ وہ بہت حد تک دیکھنے سے معذور ہوچکی تھیں، مگر اس کے باوجود ان کے پڑھانے کا انداز کچھ ایساتھا کہ مشکل سے مشکل الفاظ بھی ذہن میں نقش ہوجاتے۔
وہ پہلے کلاس کی ہر لڑکی سے ریڈنگ کرواتیں، پھر سمجھاتیں اور بعض اوقات بلیک بورڈ پر خود تصویر بنا کراس طرح وضاحت کرتیں کہ آسانی سے سب کچھ سمجھ میں آجاتا۔ ہم حیران ہوتے کہ بینائی کم زور ہونے کے باوجود وہ اس قدر صحیح تصویر کیسے بنالیتی ہیں۔
سبق یاد کرنے کے معاملے میں کوئی رعایت نہیں کرتی تھیں، سزا کے طور پر ہاف ٹائم بند کردیتیں۔ میری اچھی کارکردگی کی وجہ سے مجھے بہت عزیز رکھتی تھیں۔ جیسے ہی کلاس روم میں آتیں، سب سے پہلے میرا پوچھتیں کہ ’’حنا کہاں ہیں؟‘‘ پھر میں اُن کے دائیں طرف کھڑی ہوجاتی۔ لیکچر کے شروع کے پانچ منٹ مضمون سے متعلق تفصیل سے آگاہ کرتیں۔ اورپھر کلاس کے اختتام پر میں اُن کا ہاتھ پکڑ کر انھیں اسٹاف روم تک چھوڑ کر آتی۔
مس صالحہ، ذہین و متین ہونے کے ساتھ بہت ہی پُرکشش شخصیت کی مالک تھیں۔ مَیں نے انھیں کبھی میک اپ میں نہیں دیکھا۔ اُن کے سُننے کی حِس بھی کمال کی تھی۔ اگر لیکچر کے دوران کلاس روم میں کسی لڑکی کی توجّہ اُن کے لیکچر سے ہٹ کر کہیں اور ہوجاتی، تو درمیان میں رُک کے کہتیں۔ ’’حنا! دیکھو، یہ سیدھے ہاتھ والی رَو میں کون چیونگم چبارہا ہے۔‘‘ یا یہ کس لڑکی کا دھیان، لیکچر کے بجائے کہیں اور ہے۔‘‘ یہی وجہ تھی کہ پوری کلاس اُن کے لیکچر کی دوران الرٹ رہتی۔
سب سے زیادہ حیرانی اُس وقت ہوتی، جب وہ لیب میں پریکٹیکل کرواتیں۔ کھلے ہوئے مینڈک کے ڈائی سیکشن کے دوران اُس کے تمام سسٹمزکے حوالے سے انتہائی باریک بینی سے سمجھاتیں، غرض یہ کہ ناقص بینائی کے باوجود وہ ایک بہترین استاد تھیں۔ اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود مَیں اُنھیں فراموش نہیں کرپائی۔
آج بھی اُن کی یاد شدّت سے آتی ہے کہ انھوں نے ہی مجھے کتابوں سے محبت کرنی سکھائی، کام یاب زندگی کے بہت سے گُر بتائے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ آج مَیں جو کچھ بھی ہوں، اللہ تبارک تعالیٰ اور میرے والدین کے بعد اُس میں بہت بڑا کردار میری عظیم استاد، صالحہ خاتون کا ہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں غریقِ رحمت فرمائے، آمین۔ (ڈاکٹر حنا شاہد، کراچی)