مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
تقریباً 14سال پہلے ہم کراچی کے علاقے ناصر جمپ، کورنگی میں مقیم تھے۔ اُن ہی دنوں میری بہن کی شادی کی تاریخ طے ہوگئی، تو شادی کی تیاریوں اور بارات کے مہمانوں کی تواضع کے لیے پکوان کا سامان لینے آبائی شہر میرپور خاص جانے کا پروگرام بنایا۔
میرے دوست خرّم کی رینٹ اے کار کی دکان تھی، اس سے میرپورخاص چلنے کو کہا، تو فوراً راضی ہوگیا۔ اس طرح رات بارہ بجے ہم اپنی فیملی کے ساتھ میر پور خاص کے لیے روانہ ہوئے۔ 3 گھنٹے میں حیدرآباد پہنچے، اُس وقت حیدر آباد سے میرپور خاص جانے والا راستہ ون وے ہوا کرتا تھا۔
خرّم، بڑے محتاط انداز سے گاڑی چلا رہا تھا۔ ابھی ٹنڈو الہ یار کے قریب ہی پہنچے تھے کہ یکایک سامنے سے آنے والی کار کے ڈرائیور نے ، جو شاید بہت عجلت میں تھا، کچھ اس طرح اوور ٹیک کیا کہ ایک زور دار دھماکے سے اس کی کار ہماری گاڑی کی ڈرائیونگ سائیڈ سے ٹکرا گئی۔ اُس کارکار کا ڈرائیور بھی مشّاق تھا، اس نے مہارت سےگاڑی فوراًکچّے میں اتار کر روک لی۔
اِدھر خرّم نے بھی گاڑی سائیڈ میں روک لی۔ خوش قسمتی سے زیادہ نقصان نہیں ہوا، ہماری گاڑی کا سائیڈ کور اور سامنے سے آنے والی کار کے بونٹ کا کچھ حصّہ متاثر ہوا۔ اس موقعے پر دونوں گاڑیوں کے ڈرائیور حاضر دماغی سے کام نہیں لیتے، تو یقیناً خوف ناک حادثے سے دوچار ہوجاتے۔
خیر، پہلے تو فریقین نےروایتی طور پر ایک دوسرے پر الزام دھرنے کی کوشش کی، بعدازاں دونوں طرف سے افہام و تفہیم سے معاملہ رفع دفع ہوجانے کے بعد ہم لوگ دوبارہ روانہ ہو گئے۔ صبح 6بجے میر پور خاص پہنچے۔ خرّم، گاڑی کی مرمّت کے لیے چلا گیا اور ہم اپنے رشتے داروں سے ملنے۔ اُس کے بعد جیسے تیسے خریداری کی اور دوسرے دن رات 11بجے سارا سامان لے کر کراچی کے لیے روانہ ہوگئے۔
واپسی پر خرّم نے سپر ہائی وے کے بجائے ٹھٹّھہ والے راستے سے جانے کا فیصلہ کیا اور ہم سفر کی دُعا پڑھ کر چل پڑے۔ ابھی تقریباً ایک گھنٹہ ہی چلے ہوں گے کہ گاڑی کا ٹائر پنکچر ہوگیا۔ خرّم نے گاڑی سائید پہ روکی اور ڈکی سے اسپیئر وہیل نکالنے لگا، مگر یہ دیکھ کر اس کے اوسان خطا ہوگئے کہ گاڑی میں اوزار ہی نہیں تھے۔ اُس وقت رات کے دو بج رہے تھے، سردی بھی عروج پرتھی۔ بہرحال، ہم گاڑی سے باہر نکل کر کھڑے ہوگئے، ہمارے سامنے سے بہت سی گاڑیاں اور ٹرک گزر رہے تھے، مگر کوئی مدد کرنے کو تیار نہ تھا۔
ہم دونوں ہاتھ ہلا ہلا کر گاڑیوں کو روکنے کی کوشش کررہے تھے، کافی دیر بعد ایک کار والے نے ہمیں دیکھ کر اپنی گاڑی سائیڈ پر روک کر پوچھا ’’کہاں جارہے ہو۔‘‘ ہم نے کہا، کراچی، تو اس نے گاڑی میں بیٹھی میری اہلیہ اور بچّوں کی طرف دیکھ کر کہا ’’تم لوگ پاگل ہو، جو فیملی کے ساتھ اس خطرناک راستے پر سفر کررہے ہو، کوئی لوٹ کر یا مار کر چلا جائے، تو پتا بھی نہیں چلے گا۔‘‘
بہرکیف، اس نے اپنی گاڑی سے نہ صرف اوزار نکال کر دیئے بلکہ وہیل تبدیل کرنے میں ہماری مدد بھی کی۔ وہیل تبدیل ہونے کے بعد ہم نے اس رحم دل انسان کا شکریہ ادا کیا اور فُل اسپیڈ سے گاڑی بھگاتے ہوئے ایک گھنٹے میں کراچی پہنچ کر سُکھ کا سانس لیا۔
آج بھی وہ سنسان علاقہ، اندھیری رات یاد آتی ہے، تو جھرجھری سی آجاتی ہے۔ اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود ہم آج تک اس نیک دل انسان کو نہیں بُھولے۔ آج بھی اُسے اپنی دعائوں میں یاد رکھتے ہیں، جسے اللہ تعالیٰ نے مشکل گھڑی میں ہمارے لیے فرشتہ بنا کر بھیجا تھا۔ (محمد ناصر خان، گلشن اقبال، کراچی)
سُنیے…آپ سے کچھ کہنا ہے…!!
اگر آپ کے ذہن میں کوئی ایسا واقعہ محفوظ ہے، جو کسی کردار کی انفرادیت، پُراسراریت یا واقعاتی انوکھے پن کی بِنا پر قارئین کے لیے دل چسپی کا باعث معلوم ہو، تو فوراً قلم اٹھائیے اور اس صفحے کا حصّہ بن جائیے۔ یہ واقعات قارئین کے شعور و آگہی میں اضافے کے ساتھ اُن کے لیے زندگی کا سفر آسان کرنے میں بھی ممدومعاون ثابت ہوسکتے ہیں۔
واقعات بھیجنے کے لیے تحریر کا پختہ ہونا ضروری نہیں، صرف سچّا ہونا لازم ہے۔ نیز، اپنا نام و پتا بھی لکھیے تاکہ رابطے کی ضرورت محسوس ہو، تو رابطہ کیا جاسکے۔ ہمیں اپنی تحریریں اس پتے پر بھیجیں۔
ایڈیٹر، سنڈے میگزین صفحہ ’’ناقابلِ فراموش‘‘، روزنامہ جنگ، شعبہ میگزین، اخبار منزل، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔