• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر بدر الدین پنھور..... انسان کے رُوپ میں فرشتہ

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

ڈاکٹر بدرالدین پنھور کو ہم سب سربدر کہتے تھے۔ وہ ایک بہترین ڈاکٹر ہونے کے ساتھ بہترین انسان بھی تھے۔ بلامبالغہ انسان کے رُوپ میں انھیں فرشتہ کہنا غلط نہ ہوتا۔ اُن جیسا مسیحا مَیں نے بہت ہی کم دیکھا ہے۔ ڈاکٹر بدر، نواب شاہ اسپتال میں، بچّوں کے وارڈ کے رجسٹرار تھے۔ 

یہ اُن دنوں کی بات ہے، جب ہم ہائوس جاب کے لیے پہلے دن ڈرتے ڈرتے بچّوں کے وارڈ میں داخل ہوئے۔ وہاں سامنے ہی ایمرجینسی روم میں سفید بالوں والا ایک شخص دنیا ومافیہا سے بے خبر روتے، بلکتے بچّوں کو آئی وی کینولا لگاتا اور مائوں کو دلاسا دیتا نظر آیا۔

مختلف شعبوں سے ہوتے ہوئے تھوڑی دیر بعد جب ہم اس وارڈ سے ملحقہ دوسرے وارڈ میں داخل ہوئے، تو دیکھا، وہی شخص بڑی تن دہی سے ایک Fits ( دورے) پڑنے والے بچّے کو سنبھال رہا ہے۔ پھر جب ان سے تعارف ہوا، تو معلوم ہوا کہ یہ اسپتال میں داخل ہر بچّے کو اپنی خصوصی صلاحیتوں سے مستفید کرنے اور وارڈ میں سب سے زیادہ وقت دینے والے ڈاکٹر بدر الدین پنھور ہیں۔ ڈیوٹی ٹائم ختم ہوجانے کے باوجود بھی وارڈ میں موجود بچّوں کی دیکھ بھال میں مشغول رہتے۔

یوں تو پہلی ملاقات ہی میں ہم اُن سے بے حد متاثر ہوچکے تھے، مزید تعارف کے بعد اُن کے انسان دوستی کے قائل ہوگئے۔ وہ نہ صرف اپنے وارڈ، بلکہ پورے اسپتال میں ہر دل عزیز تھے، وارڈ میں داخل ہوتے ہی اُن کا مخصوص قہقہہ اُن کی موجودگی کا پتا دیتا تھا۔ 

ماشاء اللہ ان کی اہلیہ بھی ایک سمجھ دار اور وفا شعار خاتون تھیں، جن کی یہ شکایت بجا تھی کہ ڈاکٹر صاحب گھر کو وقت نہیں دیتے، مگر جب انھیں محبّت اور خلوص سے اپنا فرض ادا کرتے دیکھتیں، تو فخر بھی کرتیں۔

ڈاکٹر بدر کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ انہیں روپے پیسے کاکوئی لالچ نہیں تھا۔ ایک بار ہم نے پوچھا کہ ’’سر! آپ دیگر ڈاکٹرز کی طرح اپنا ذاتی کلینک کیوں نہیں کھول لیتے؟‘‘ تو قہقہہ لگاکر بولے۔ ’’ارے بھئی، ہم جیسوں کا کلینک نہیں چل سکتا۔‘‘ ہم نے حیرت سے اُن کی طرف دیکھا اور پوچھا۔ ’’کیوں؟‘‘ تو سنجیدگی سے بولے۔ ’’وہ اس لیے کہ مَیں کسی مریض کو ڈھیر ساری دوائیں لکھ کر نہیں دے سکتا، کیوں کہ مَیں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کے پروٹوکول کی پیروی کرتا ہوں۔ 

مثلاً اگر بچّے کو وائرل ڈائریا (وائرس کی وجہ سے دست) ہے، تو مَیں اسے صرف او آر ایس دے کر رخصت کردیتا ہوں، (کیوں کہ وائرس کا انفیکشن پانچ چھے دن میں خودبخود ختم ہوجاتا ہے) تو والدین حیران ہوکر بے یقینی اور تعجب سے دیکھتے ہیں، اور سمجھانے کے باوجود مزید ادویہ پر اصرار کرتے ہیں۔‘‘

ڈاکٹر بدرنہ صرف اپنے شعبے سے مخلص تھے، بلکہ وارڈ کے ہر فرد کا خاص خیال رکھتے۔ جب ہاؤس جاب کے دوران کمیشن کے لیے فارم بھروانے کی باری آئی، تو مجھے خود فارم لاکردیا اور زبردستی بھروایا۔ مَیں نے کہا۔ ’’سر! میں تیاری نہیں کرپاؤں گی۔‘‘ توجواب دیا۔ ’’اس کی تیاری آپ ضرور کریں، اس سے کم ازکم امتحان کا تجربہ ہی ہوجائے گا۔‘‘ اور پھر جب اللہ تعالیٰ اور ڈاکٹر بدر کی مہربانی سے مَیں کمیشن میں پاس ہوگئی، تو بے حد خوش ہوئے۔ 

ڈاکٹر بدر، دل کے بہت غنی اور سخی تھے۔ کالونی میں رہنے والے وارڈ کے بیچلرز ڈاکٹرز کو اکثر بہانے بہانے سے اپنے گھر مدعو کرکے خوب خاطر مدارات کرتے تاکہ انھیں اپنے گھر کی کمی محسوس نہ ہو۔ اسی طرح ہاؤس جاب کے دوران کسی ڈاکٹر کو کوئی بھی مسئلہ ہوتا، تو ڈاکٹر بدر اسے حل کرکے ہی چھوڑتے۔ حقیقتاً ڈاکٹر بدر اس شعر کی عملی تفسیر تھے؎ اپنے لیے توسب ہی جیتے ہیں اس جہاں میں..... ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا۔ 

خیر، ہاوس جاب کرنے کے بعدہم اپنی ملازمت اور گھر گرہستی میں مصروف ہوگئے، تاہم سر بدر سے رابطہ برقرار رہا۔ پھرنہ جانے کب وارڈ میں کام کرتے کرتے وہ ہیپاٹائٹس بی جیسے موذی مرض کا شکار ہوگئے۔ پھر کچھ عرصے بعد ایک دن اچانک اُن کی اہلیہ کا فون آیا کہ ’’ڈاکٹر بدر کی طبیعت انتہائی خراب ہوجانے کے سبب اُنھیں کراچی لے گئے ہیں۔‘‘ 

دل سے اُن کی سلامتی کی دُعا نکلی، لیکن وہ جاں بَر نہ ہوسکے اور 19مارچ 2002ء کوخالقِ حقیقی سے جاملے۔ وہ کیا ہے کہ ؎ ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ خدمت ِ انسانیت کے لیے خود کو وقف کردینے والے ڈاکٹر بدرالدین پنھور کو جنّت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ (آمین)۔ (ڈاکٹر تبسّم سلیم،خیرپور)

سنڈے میگزین سے مزید