گورا رنگ، کشادہ پیشانی، چوڑی چھاتی، مضبوط کاٹھی، قدرے بڑا سر، چھدرے بال، چھے فٹ کے قریب قامت..... یہ مردانہ وجاہت کا بھرپورنمونہ کوئی اور نہیں، میرے نانا تھے، جنہوں نے مجھے باپ بن کر پالا۔ وہ نواسوں، نواسیوں، بھتیجوں، بھتیجیوں، پوتوں، پوتیوں سب کے ’’بابا محمد حسین‘‘ تھے۔پیشے کے لحاظ سے کاشت کار تھے اور گھر اور محلّے میں اُن کا رُعب و دبدبہ مثالی تھا۔
نانی امّاں، جو دھان پان سی جسامت اور نستعلیق طبیعت کی مالک تھیں، بابا کی موجودگی میں ہمیشہ سراسیمہ رہتیں، جیسے شیر کی کچھار میں کوئی ہراساں سی ہرنی۔ اور اُن ہی پر کیا موقوف، اُن کی دو بیوہ بہنوں اور چھوٹے بھائی اور بیٹے، بیٹیوں سب ہی کی کیفیت یک ساں تھی۔
محلّے کی خواتین، باغی لڑکوںسے تنگ آکر بجنگ آمد آواز دیتیں، ’’لالہ محمد حسین! آنا ذرا دیکھنا شیطان کا چیلا ناک میں دَم کیے جارہا ہے۔‘‘ ایسے میں بابا کی گرج دار آواز دھاڑ کا کام انجام دیتی اور بڑے بڑے تیس مارخان بکری بن جاتے۔ باباکو لاتوں کے بھوتوں کو ہاتھوں سے سیدھا کرنا آتا تھا۔
قیامِ پاکستان کے اگلے برس بابا کی شادی ہوئی اور اس کے بعد وہ قریباً ساڑھے پانچ دہائیاں حیات رہے۔ بابا کو ہمیشہ یہ قلق رہا کہ اُن کے والد (غلام حسین) نے اُنھیں تعلیم کی جانب راغب نہ کیا۔ اسی پچھتاوے کے ازالے کے لیے وہ اپنے چھوٹے بھائی اور اولاد کو پڑھانے لکھانے کے جتن کرتے رہے۔ شعور اور لاشعور کے سنگم پر ہم نے خود کو بابا کے سیاہی مائل اونٹ کی پشت پر پایا۔
ہل چلاتے ہوئے بابا اونٹ سے مخصوص زبان میں بات کرتے ’’تتا تتا۔ پالی۔ تتا۔‘‘ غصّہ ہوتے تو اونٹ کو گالی بھی دے دیتے۔ مہار (باگ) چھمک (چھڑی) اور الفاظ کے تال میل سے اونٹ سیدھا چلتا تاکہ ہَل کا پھل متعیّن راہ پر رہے۔ کسان اور اونٹ کی رفاقت سے کھیت ایسے دکھائی دیتا، جیسے کسی ماہر ریاضی دان نے پیمانے اور پرکار کی مدد سے لائنیں کھینچ دی ہوں۔
اسی لیے تو احمد ندیم قاسمیؔ نے کہا تھا؎صبح کے نُور میں بھیگے ہوئے کھیتوں میں کسان..... ہل چلاتے ہیں، تو فن کار نظر آتے ہیں۔‘‘ مجھ سے انھیں بہت پیار تھا۔ یہ میری برتری نہیں آوازِ خلق ہے۔ بڑی بیٹی کا پہلوٹی کا بیٹا ہونے کی بنا پر یا شاید کسی اور سبب سے۔ سب سے چھوٹے ماموں اور مجھ میں بس چند برس کا فرق ہے۔
اپنی اولاد کے ساتھ انھوں نے ایک متعیّن فاصلہ رکھا اور شاید اسی فاصلے کو پاٹنے یا ازالے کے لیے وہ مجھے اٹھائے اٹھائے پھرتے، حتیٰ کہ لوگ اُن سے پوچھتے کیا ’’یہ آپ کا بیٹا ہے؟‘‘ سانولی رنگت کے طفیل وہ مجھے ’’حبشی ‘‘کہتے۔ رسولِ عربی سے سچّی عقیدت کی بِنا پر قصداً بلالِ حبشی سے تشبیہ دیتے رہے، تاکہ میرے لاشعور میں نبی ؐکی ذات سےعشق کا بیج بویا جاسکے۔ اگرواقعتا ایسا تھا، تو پھر وہ اپنے مقصد میں یقیناً کام یاب ہوئے۔
انھیں سفر کا خبط کی حد تک شوق تھااور تعلقات بنانے اور نبھانے میں بھی ملکہ حاصل تھا۔ جہاں بھی جاتے، زیادہ قیام نہ کرتے، جلدی گھر لوٹ آتے۔ ہر سفر سے واپسی پر میرے لیے مختلف کتابیں لے آتے مثلاً پشتو بول چال، حکایات، بچّوں کے لطیفے، قصص الانبیاء وغیرہ ۔ اہلِ خانہ کے لیے منجن ، سُرمہ ، چورن اور سیپارے لاتے۔
دراصل، ایک تو وہ کسی دکان دار، ساہوکار کو مایوس نہ کرنے کا خیال رکھتے، دوسرا اُن کی جیب میں پیسے نہیں ٹھہرتے تھےیا وہ ٹھہرنے نہ دیتے تھے۔ اس سلسلے میں صوفیا کے مسلک پر عمل پیرا رہتے۔ اولیائے کرام سے بے حد عقیدت رکھتے، میاں والی میں خواجہ آباد کے آستانے پر بیعت تھے، جو خود سیال شریف والوں کے مرید تھے۔
عقیدت میں سادہ لوحی کی آمیزش کی وجہ سے جعلی پیروں، عاملوں کی بھی عزّت افزائی کرتے۔ خریداری کے سلسلے میں نانی امّاں حتی الوسع انہیں تکلیف نہ دیتیں، کیوں کہ گلے ہوئے پھل، باسی سبزیاں ، بیمار مرغیاں وغیرہ خرید لاتے۔ انھیں دھوکا کھانے میں غالباً لُطف محسوس ہوتا تھا۔ وہ غضب کے کہانی کار بھی تھے۔
چھوٹے، بڑے سب ان سے فرمائش کر کے قصّےکہانیاں سنتے۔ سامعین میں سے ایک سامع کا فرض تھا کہ وہ وقفے وقفے سے لمبی سی جی ی ی ی.... کرے۔ اورسامع کہتا جی.... تو کہانی کار جواباً کہتا، ’’تیرے منہ اِچ کھنڈ تے گھی (شکر، گھی)۔ ہماری منڈلی میں ’’جی‘‘ کی ذمّے داری میری پھوپھی زاد، زرینہ (مرحومہ) کی تھی، جسے وہ بخوبی نبھاتیں۔
بابا خوش قسمت تھے کہ وہ اُس زمانے میں زندگی گزار رہے تھے، جب وضع داریاں قائم تھیں۔ گائوں کی عزّت کو اپنی عزت سمجھا جاتا۔ حتیٰ کہ ان کے گائوں کے معروف جیب کترے نے کبھی وسیب والوں کی جیب نہیں کاٹی۔ جاڑے کی رات کے اندھیرے میں گائوں کے چھوٹے سے ریلوے اسٹیشن پر ملتان سے آنے والی ریل گاڑی کا وقت قریب تھا۔
بابا کھیت کو پانی دے کر، کَسّی کندھے پر رکھے پلیٹ فارم سے گزرے، تو پانی پینے کی کوٹھری کے ساتھ لگی ایک برقع پوش خاتون کو دیکھا۔ ہُو حق کرتے اسٹیشن پر اکیلی عورت..... اُن کا ماتھا ٹھنکا۔ پوچھا ’’بی بی کون ہو اور کہاں جانا ہے؟‘‘ وہ خاموش رہی۔ آگے بڑھ کر گرج دار آواز میں للکارا، تو رو پڑی۔
’’بھائی محمد حسین! میرے شوہر نے مجھے مارا ہے، میکے جا رہی ہوں۔‘‘ بابا نے اس کی دکھ بھری داستان سنی، تو سر پر ہاتھ رکھا دلاسا دیا، پردیسی امام مسجد کی بیوی کو ساتھ لے کراُن کے گھر چلے گئے۔ شوہر کو سمجھایا بجھایا اور فریقین میں صلح کروا دی۔ رکھ رکھاؤ میں خلوص اور سادگی ملاحظہ ہوکہ پولیس کی بھرتی کے لیے ٹیم گائوں میں نمبردار کے ڈیرے پر وارد ہوئی۔
بابا قد کاٹھ اور خواندگی کی بنیاد پر اے ایس آئی کے عہدے کے لیے چُن لیے گئے۔نمبردار کا بیٹا، جس کا قد پانچ فٹ تھا، وہ چنائو کے معیار پر پورا نہ اترا اور بھرتی نہ ہوسکا۔ بابا نے اس وجہ سے پولیس میں جانے سے انکار کردیا کہ جب نمبر دار کا فرزند بھرتی نہیں ہوسکا، تو میں کیوں جائوں۔؎پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ.....افسوس تم کو میرؔ سے صحبت نہیں رہی۔
محلے بھر میں جانور ذبح کرنے کا ذمہ بھی بابا نے خوشی خوشی خود لیا ہوا تھا۔ قربانی، صدقے اور بیمار ڈنگروں کے لیے انھیں بلایا جاتا۔ وہ،ہمیں چارپائی بُننے، غلہ بوریوں میں بھرنے، چارہ کاٹنے ، اونٹ پر لادنے ،باندھنے کے علاوہ مرغی اور بکرا ذبح کرنے کا فن بھی سکھانے کے متمنی تھے۔ اُن کی زندگی کا ناقابلِ فراموش واقعہ کرائے کے قاتل کو پکڑنا تھا۔ اس حوالے سےوہ خود راوی ہیں ’’قریبی مسجد میں مغرب کی نماز کے بعد گھر لوٹا، کھانا سامنے رکھا ہی تھا کہ فائر کی آواز آئی۔ مَیں چونک کر اٹھا ، سرکنڈوں کی عارضی دیوار پھلانگی۔
ایک شخص ہاتھ میں بندوق لیے گلی میں مغرب کی جانب دوڑرہا تھا، بھاگم بھاگ اس کا پیچھا شروع کیا۔ مسلّح شخص کو پکڑنے کے لیے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا، جو اس نے جھٹک دیا، تو مَیں نے اس کی گردن پر زوردار مُکا جڑدیا ،یوں وہ توازن برقرار نہ رکھ سکااور منہ کے بل زمین پر گرپڑا۔ مَیں اس کے اوپر ڈھے گیا، جس کے بعد اپنے مشن کی ناکامی اور ذلت آمیز گرفتاری پر علاقہ غیر سے آیا وہ شخص اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکا کہ’’یہ بھوری مونچھوں والا آدمی نہ ہوتا تو مجھے کوئی پکڑ نہیں سکتا تھا۔‘‘
بظاہر جتنے سخت تھے، قدرت نے دل اتنا ہی نرم عطا کیا تھا۔ایک کہاوت ہے کہ گھر حدود اربعہ سے نہیں، مہمان نوازی سے بڑا ہوتا ہے۔کچّے مکانات اور کچّی چار دیواری پر مشتمل اُن کا چھوٹا سا گھر مہمانوں کے لیے ہمیشہ کھلا رہتا، اسی لیے ’’اللہ ہُو غنی‘‘ اُن کا وظیفہ تھا۔ جب کہ بابا کی بڑی بہن سخاوت میں اُن سے بھی بڑھ کر تھیں۔بابا خدمت کو عبادت سمجھتے، کوئی مسافر ، راہ گیر راستہ پوچھتا، تو میلوں چل کر اُسے منزلِ مقصود تک پہنچا کر دَم لیتے۔
محلّے کی مسجد (سیالوی) میں اُن کے چھوٹے بھائی، نور محمد موذن و خادم کی ذمّے داریاں نبھاتے تھے۔ کبھی کبھی بابا بھی ہاتھ بٹاتے، خصوصاً رمضان المبارک میں سحری کے وقت جگانے کے لیے۔ ایک مرتبہ رمضان میں دوسرے محلے کی مسجد سے ایک بزرگ نے غلطی سے ساڑھے تین کی بجائے اسپیکر پر ڈھائی بجے جگانے کا اعلان کردیا (اٹھو اٹھو، روزے دارو.... اللہ کے پیارو۔ سحری کا وقت ہوگیا ہے)۔ بابا جاگ رہے تھے۔ گھڑی دیکھی تو ڈھائی بج رہے تھے۔ فوراً اٹھے، مسجد کا مائیک آن کیا اور تصحیح کرتے ہوئے گویا ہوئے، ’’بھائی جان! آپ نے لوگوں کو ایک گھنٹہ قبل جگا دیا ہے۔‘‘ اس پر گاؤں کے ایک مَن چلے نے ہم سے کہا ’’یار! آدھی آبادی کو اُس بزرگ نے جگایا، باقیوں کو تمھارے نانا نے بیدار کردیا۔‘‘
علی الصباح بیدار ہونا ان کا معمول تھا۔دوسروں کو بھی دیر تک سونے نہ دیتے ۔ہم سب لڑکوں کو باجماعت حجام کے پاس لے جاتے اور امریکن کٹ کا حکم دیتے۔ محمود و ایاز کی تمیز کیے بغیر پُھلو نائی(پھول محمد نائی) موٹی مشین ہمارے سر پر اور آرے دل پر چلاتا جاتا۔
بابا کی ایک انفرادیت چُک نکالنا، مسلز پُل کا علاج بذریعہ مالش کرنا، سر درد کا دَم اور یرقان کے لیے ہار پرونا تھا۔ موخر الذکر مرض کے تدارک کے لیے ہر اتوار کو سورج طلوع ہونے کے بعد(بوقتِ چاشت) وہ ایک جڑی بوٹی کی (جسے سرائیکی میں اِٹ سِٹ کہتے ہیں ) جڑکو ٹکڑوں میں کر کے ڈیڑھ گز تہہ دار دھاگے کی سات تہوں میں باندھتے اور سورئہ رحمٰن تلاوت کرتے وقت ’’فبایّ آلاء ربّکما تکذبٰن‘‘ پر گرہ لگاتے جاتے۔ متاثرہ شخص اس ہار کو گلو بند کی طرح گردن میں باندھ لیتا ۔
جوں جوں بوٹی خشک ہوتی جاتی، دھاگہ ڈھیل پکڑتا اور ہار لمبا ہوتا جاتا، حتیٰ کہ پندرہویں دن وہ ناف تک طویل ہوجاتا۔ تیسرے اتوار اُسے اتار کر پانی میں بہا دیا جاتا۔ اس ہار کے لیے نہ صرف ان کے گاؤں دوآبہ اور اس کے مضافات سے مریض آتے بلکہ قریبی دیہات علو والی، جال شمالی و جنوبی اور پپلاں تک سے یر قان سے متاثرہ لوگ آتے۔ ان کے اسی وصفِ خاص کی وجہ سے ان کی پہچان علاقے بھر میں تھی۔وفات کے بعد انہیں مقامی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔
ان کی قبر اینٹوں سے پُختہ ہے، مگر اوپر سے ایک فٹ کے قریب کچّی رکھی گئی ہے۔ وہاں وہی جڑی بوٹی (اِٹ سِٹ)اُگی ہوئی ہے، جسے سورئہ رحمٰن کے آہنگ پر وہ ہار میں پروتے تھے۔ فاتحہ کے لیے ہم جائیں یا نہ جائیں، جڑی بوٹی نے ان کی رفاقت ترک نہیں کی اور میری والدہ کا گمان ہے کہ بابا قبر میں بھی سورئہ رحمٰن تلاوت کرتے ہوں گے، جس کا ہمیں بھی یقین ہے۔
بابا ضبط و صبر کا پہاڑ تھے۔ چھوٹے، بڑے عزیزوں کی فوتیدگی پر میں نے اُنھیں کبھی روتے نہیں دیکھا۔ وہ ہر ایک کو تسلّی اورصبر کی تلقین کرتے، مگر آخری بار جب ہم سے ملنے اٹک آئے، تو جاتے ہوئے رو پڑے۔ گلے لگا کر ہمیشہ ڈھارس بندھانے والے کوہِ گراں کے ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے۔ کہا ،’’میرا بچّہ! بس یہ میرا آخری پھیرا ہے۔‘‘ اور تین ماہ بعد انہیں لحد میں اتارتے ہوئے یوں محسوس ہو رہا تھا، جیسے ہم اپنی ذات کا حصّہ منوں مٹی میں اتار رہے ہیں۔ بابا کو جینے کی آرزو تھی، مگر موت نے ایسا نہ ہونے دیا۔ خوابوں میں آکر آج بھی ہمیں وہ وظیفہ بتاتے ہیں، جو بچپن و لڑکپن میں از بر کرواتے رہے، ’’ربِ زدنی علماً۔‘‘
اللہ تعالیٰ اُن کی کامل مغفرت فرمائے۔ بلاشبہ، وہ ان لوگوں میں سے تھے، جنہیں کبھی بُھلایا نہیں جاسکتا۔ اُن کی یادیں اور باتیں آج بھی میرا قیمتی سرمایہ ہیں۔ (ڈاکٹر فرید حسینی، اسلام آباد)