آئیں، آج بات کرتے ہیں امریکا کے موسموں اور تہواروں سے متعلق۔ اُن موسموں اور تہواروں کی بات، جو بحثیت امریکی باسی، ہم نے جیے اور محسوس کیے۔ یہاں سال کا آغاز سرد منجمد جنوری سے ہوتا ہے۔ سالِ نو پر درجۂ حرارت زیادہ تر freezing سے Below freezing میں رہتا ہے۔ برف باری کے دنوں میں لوگ گھروں سے کم ہی نکلتے ہیں۔ درجۂ حرارت اوپر، نیچے جانے کے باعث Snow رات بھر میں جم کے Ice بن جاتی ہے، جس پر چلنا پِھرنا اور گاڑی چلانا خطرناک ہوتا ہے۔
برف چوں کہ سفید ہوتی ہے اور سفید رنگ روشنی ری فلیکٹ کرتا ہے تو برف باری کے دِنوں میں آدھی رات کو بھی باہر اتنی روشنی ہوتی ہے کہ سب صاف دکھائی دیتا ہے۔ دن کے وقت برف سے ڈھکے روئی کے گالوں جیسے درختوں پر بیٹھے سُرخ انار سے گول مٹول پرندے، نظروں کو بہت ہی بھلے لگتے ہیں۔ صُبح کےوقت دھند) (Fog پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ ہر طرف سناٹےکا راج ہوتا ہے۔ لگتا ہے کہ ہجرت کرنے والے پرندوں کی طرح آدھا شہر بھی کہیں، ہجرت کرگیا ہے۔
پوری فضا میں ایک عجیب سی خامشی در آتی ہے۔ پتّوں سےعاری اجاڑ درخت دم سادھے کھڑے رہتے ہیں۔ سورج بھی کبھی کبھی ہی سرنکال کے دیکھتا ہے۔ ایسے میں کمرے کی بڑی سی کھڑکی کھولو، تو بستر پر سنہری دھوپ کی چادر سی بچھ جاتی ہے۔ (اِس رُت میں خشک میوہ جات کے ساتھ اپنی فیورٹ کتاب یا میگزین پڑھنے کا مزہ، دنیا کی ہرنعمت سے بڑھ کرہوتا ہے) فروری کے آخر میں موسم بدلنا شروع ہوجاتا ہے۔ گھاس کی ننّھی ننّھی کو نپلیں سر اُٹھانا شروع کرتی ہیں۔
درخت گلابی اور سفید پھولوں سے ڈھک جاتے ہیں۔ جا بجا سبز، ملائم گھاس کا قطعے، سڑک کنارے جنگلی پھولوں کی دبیز چادریں سی بچھی دکھائی دیتی ہے۔ تاحدِ نظر نیلے، اودے، پیلے، نارنجی، سفید اور گلابی گلابی پھول ہنستے مسکراتے سے معلوم ہوتے ہیں۔ کچھ دیوانے سڑک کنارے گاڑی پارک کرکے اِن پھولوں کی تصویریں اتارتے ہیں (جن میں ہم بھی شامل ہیں) کچھ لوگ، فیملیز کے ساتھ Flower field میں فوٹو شوٹس کے لیے بھی جاتے ہیں۔
ہر جگہ شہد کی مکھیاں بھنبھناتی، تتلیاں اُڑتی گاتی، گلہریاں اور خرگوش پُھدکتے پِھرتے ہیں۔ فضا مختلف النوع پرندوں کی چہچہاہٹ سے مترنم سی رہتی ہے۔ ریڈ کارڈینل (Red Cardinal)، بلیو جے (Blue jay)، بولتی میناؤں (Mocking birds)، لال چڑیوں (Robin hood)، گاتی چڑیوں(Finchers) اور قمرفوں، فاختاؤں کی تو جیسے بھرمار ہو جاتی ہے۔ ایک درخت سے دوسرے پر پُھدکتی، اُڑتی پھرتی ہیں۔ اپریل کے آخر میں Easter کا تہوار آتا ہے، جو ایک خالصتاً مذہبی تہوارہے۔ اس موقعے پر بیش ترلوگ اپنی فیملیز کے ساتھ چرچ جاتے اور دن بھر ساتھ گزارتے ہیں۔
مئی سے گرمی کا آغاز ہوجاتا ہے۔ درخت ہرے بھرے پتّوں سے ڈھک جاتے ہیں۔ چوں کہ گوروں کو گرمی بہت زیادہ محسوس ہوتی ہے، تو وہ زیادہ تر اُس کی شدّت و حدت کم کرنے کے لیے ساحلوں اور سوئمنگ پُولز کا رُخ کرتے ہیں۔ عموماً شام کو پارکس جا کر اپنے بچّوں کے ساتھ کھیلتے کودتے ہیں یا اپنے کُتوں کو گھماتے نطر آتے ہیں۔ ویک اینڈز پر کشتیاں کرائے پہ لےکے جھیلوں پہ جاتے، مچھلیاں پکڑتے یا پورا دن ساحلِ سمندر پہ گزاردیتے ہیں۔
دھوپ بَھری لمبی دوپہریں بہت خاموش ہوتی ہیں۔ نہ گلیوں میں بچّے کھیلتے ہیں، نہ کوئی پھیری والا آتا ہے۔ بس، کبھی کبھی کسی کتّے کے بھونکنے کی آواز آتی ہے یا آئس کریم والا، اپنی وین میں مخصوص میوزک بجاتا مدہم رفتار سےگلی سے گزرتا چلا جاتا ہے۔ لوگ زیادہ تر اپنے کام سے کام رکھتے ہیں اورگلی میں کبھی اتفاقاً نظر آنے پر ہاتھ ہلانے، ہائے ہیلو کرنے ہی پر اکتفا کرتے ہیں۔
گرمی کی لمبی دو پہریں تو دبے پاؤں یوں ہی گزرجاتی ہے، مگر شاموں میں شاپنگ مالز اور ریسٹورنٹس میں بڑی رونق ہوتی ہے۔ لوگ اپنی پسند کی چیزیں خریدتے، اپنے فیورٹ ریسٹورنٹس کےاوپن ائیر patio(آنگن)میں بیٹھے کھاتے پیتے، دوستوں یاروں سے گپ شپ لگاتے دکھائی دیتے ہیں۔ رات گئے تک نائٹ کلبز اور بارز کھُلے رہتے ہیں۔ نوجوان نسل ہر ویک اینڈز پر کلب جاتی ہے۔ پینا پلانا، ناچنا گانا گویا زندگی کا جزوِ لازم ہے۔ کوئی امیر ہو یا غریب، فرق نہیں پڑتا، زندگی کو ہر شخص بھرپور انداز سےانجوائے کرتا ہے۔
ماہِ جولائی کی4 تاریخ کو امریکا کا یومِ آزادی خاصے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ دن کے وقت لوگ خاندان کے ساتھ گھر میں گیٹ ٹوگیڈر اور شام میں باربی کیو پارٹیز کرتے ہیں۔ برگرز، ہاٹ ڈاگز کے ساتھ موسم کے پھل اور مختلف مشربات سےخُوب لطف اندوز ہوتے ہیں۔ بےشمار لوگ (ہر عُمر کے) امریکی پرچم کے پرنٹ سے آراستہ ملبوسات زیبِ تن کیے ہوتے ہیں۔
شام کو لوگ Picnic Blancket اور کولرز لے کرعلاقے کے بڑے پارک میں جاتے، خُوب کھاتے پیتے اور میوزک انجوائے کرتے ہیں، جب کہ رات گئے فائرورک کے شوز سے بھی خوب لُطف اندوز ہوتے ہیں۔ امریکا میں یوں تو ساراسال ہی بارشیں ہوتی رہتی ہیں، لیکن اگست، ستمبر میں تو گویا تانتا بندھ جاتا ہے۔ ویسے یہاں کی بارشوں میں پاکستان جیسا کوئی مزہ نہیں کہ یہاں میگھ ملہار کی رُت میں نہ پکوڑے تلے جاتے ہیں، نہ باغوں میں جھولے پڑتے ہیں اور نہ ہی کوئی ساون کی جھڑی میں بھیگتا، نہاتا نظرآتا ہے۔
یہاں تو برسات کو خراب موسم، اداسی کا استعارہ مانا جاتاہے۔ امریکی باسیوں کو کُھلا آسمان، چمکتی دھوپ ہی بھاتی ہے۔ ویسے برسات دیس کی ہو یا پردیس کی، دُھلے دُھلائے درخت، گرتی بوندوں کی رِم جِھم اور مٹّی کی سوندھی سوندھی خوشبو ہمیں تو مدہوش ہی کیے دیتی ہے۔ چوں کہ یہاں نکاسیٔ آب کا نظام انتہائی شان دار ہے، تو چاہے گھنٹوں موسلا دھار بارش برسے، رُکنے کے دس پندرہ منٹ بعد ہی سڑکیں بالکل خشک ہوجاتی ہیں۔ بس فضا میں بسی مٹی کی سوندھی خوشبو ہی پتا دیتی ہے کہ ابرِباراں گزرا ہے۔ نیز، سال میں ایک دو بار بڑے بڑے اولے بھی پڑتے ہیں۔
یہاں سارا سال کوّے کہیں دکھائی نہیں دیتے، لیکن اکتوبر کا آغاز ہوتےہی نہ جانے کہاں سے بڑے بڑے، کالے کالےکوّے، خُوب کائیں کائیں کرتے نمودار ہو جاتے ہیں۔ تب لوگ اپنے گھروں اور دکانوں کو ڈراؤنی چیزوں سے سجاتے ہیں۔ اکتوبر کے آخر میں Halloween منایا جاتا ہے۔ لوگ کدو (Pampkin) کے اندرکا گُودا نکال کے اوپر کے حصّے کو چُھری سے تراش کر مختلف شکلیں بناتے ہیں اور پھر اندر لائٹس لگا کر ڈراؤنے لیمپس تیار کرکے گھروں کے باہر رکھ دیتے ہیں۔
پورے امریکا میں، اکتوبر کے آخری ہفتے میں جگہ جگہ Halloween کی پارٹیز ہوتی ہیں، جن میں لوگ طرح طرح کے کاسٹیومز پہن کےشرکت کرتے ہیں اور اپنے اِن کاسٹیومز اور میک اَپ پہ ہزاروں ڈالرز خرچ کر ڈالتے ہیں۔ کچھ لوگ کاسٹیومز کے مقابلوں میں بھی حصّہ لیتے ہیں۔ سال کا یہ واحد دن ہوتا ہے، جب آپ، آپ نہیں ہوتے، اپنے کسی پسندیدہ کریکٹر کے رُوپ میں ہوتے ہیں۔
چاہے وہ کوئی جانور ہو، کسی مُووی کا سُپر ہیرو، ڈزنی کی کوئی پرنسز یا کوئی ڈراؤنا کردار جیسے کوئی چڑیل، زومبی یا کوئی ایلین- ہیلووین کا اصل دن 31 اکتوبر ہے، اور اُس دن زیادہ تر بچّے سرِشام اپنے اپنے کاسٹیومز پہن کے ہاتھ میں تھیلے لیے محلے کے گھروں کے دروازوں پردستک دیتے نظر آتے ہیں۔
دروازہ کُھلنے پر کہتے ہیں۔ ’’Trick or Treat‘‘ اور جواباً گھر کے بڑے بوڑھے اُن کے تھیلوں میں چاکلیٹس یا کینڈیز ڈال دیتے ہیں۔ یہ سلسلہ شام سے رات تک چلتا ہے۔ اِس کے بعد نوجوان اپنی پارٹیز کے لیے مختلف کلبز اور پبز وغیرہ کا رُخ کرتے ہیں اور یہ پارٹیز رات گئے تک چلتی ہیں۔ نیز، لوگ کوئی مہینہ بھر ڈراؤنی موویز بھی دیکھتے ہیں۔
نومبر کا آغاز ہوتے ہی چہار سُو خزاں اُترنے لگتی ہے، تو ماحول اور مزاج یک دم بدل سے جاتے ہیں۔ ہواؤں کا شور کچھ بڑھ جاتا ہے، درختوں کے پتّوں کی رنگت تبدیل ہونے لگتی ہے۔ برِعظیم میں عموماً پت جَھڑ، خزاں کو اُداسی و فسردگی، حُزن و ملال کا موسم مانا جاتا ہے، جب کہ یہاں کی خزاں رُت بہت ہی حسین و رنگین و دل نشین ہوتی ہے۔ بیش تر درخت تو جیسے زرد، نارنجی، برگنڈی، مہاگنی، پِیچ، سبز اور ہلکے خاکی رنگوں کی چادر سی اوڑھ لیتے ہیں، یہاں تک کہ کچھ درخت توبیک وقت کئی رنگوں سے رنگے نظر آتے ہیں، جیسے کسی پینٹر نے ہر پتّے کو الگ الگ رنگ سے پینٹ کر دیا ہو۔
جب تیز ہوائیں، درختوں سے رنگ برنگے سوکھے پتّے گراتی ہیں، تو یوں لگتا ہے، جیسے فضا میں ہزاروں رنگ برنگی تتلیاں اُڑتی پِھر رہی ہیں۔ یہی تیز ہوائیں، راتوں کوشائیں شائیں کرتی کھڑکیوں کے شیشوں سے ٹکراتی ہیں، توساری فضا میں عجب پُراسراریت سی در آتی ہے، جیسے بہت سی چڑیلیں ایک ساتھ مِل کے چلّا رہی ہوں اور خزاں کی بارش تو عجب ہی سماں پیدا کرتی ہے۔ ننّھی ننّھی بوندیں ڈھیروں سوکھے پتّوں پر پڑتی بہت ہی بھلی معلوم ہوتی ہیں۔
ایسے میں لوگ پہاڑوں، جنگلوں میں ہائیکنگ کے لیے جاتے اور قدرتی، فطری حُسن کا جی بُھر لطف اُٹھاتے ہیں۔ جگہ جگہ لگی سوکھے پتّوں کے ڈھیریوں پر چلنے کا بھی اپنا ہی ایک لُطف ہوتا ہے۔ اِس رُت کا پسندیدہ ترین مشروب Pimpkin Spice Latte ہے، جو داصل کدّو اور دارچینی سے بنی ایک خاص طرح کی کافی ہے۔ نومبر کے آخر میں ’’Thanks giving‘‘ کا تہوار آتا ہے، جب خاندان بھر کے لوگ جمع ہو کر شان دار ڈنر کا اہتمام کرتے ہیں، ٹرکی روسٹ کی جاتی ہے۔
طرح طرح کی ڈشز سے دسترخوان سج جاتے ہیں۔ سب لوگ خوب سیر ہو کرکھاتے ہیں۔ میٹھے میں Pumpking Pie بنائی جاتی ہے۔ ایک دوسرے کو اچھے کلمات اور شکریے کے تحفوں سے نوازتے ہیں۔ یہاں کے لوگوں کا فیورٹ تہوار Thanks giving ہی ہے۔ اور…نومبرکےبعد آتا ہے، پُرفسوں، سحرانگیز دسمبر۔ سردی، تنہائی، اُداسی اور یادیں۔ بس، یہی سب ہیں، دسمبر کی سوغاتیں۔
دسمبر کے آغاز ہی سے سارے ماحول اور مُوڈ پہ ایک اداسی سی چھا جاتی ہے۔ ہر ایک پر جیسے ناسٹیلجیا کی سی کیفیت طاری ہوتی ہے، جو گاہےگاہے دل و دماغ گدگداتی رہتی ہے۔ کبھی سردی اتنی شدید پڑتی ہے کہ چاہے جتنے موٹے کپڑوں کی تہیں چڑھا لیں۔ ہاتھ، کان لپیٹ کے باہر نکلیں، تب بھی چہرے پرشدید ٹھنڈ لگتی ہے۔ چند لمحوں میں آنکھیں، ناک بہنا شروع ہوجاتی ہے، کٹیلی ہوائیں جسم میں چھید کیے دیتی ہیں۔ ایسے میں بس لحاف میں دُبکے سوتے رہویا کسی شاعری کی کتاب یا ناول میں گم ہوجاؤ۔
دسمبرکی دھوپ ہو یا بارشیں ہر رُت دل پر ہر موسم سےکہیں زیادہ گہرا اثر کرتی ہے۔ لیکن دسمبر کا آغاز جیسا ہوتا ہے، اختتام اُس سے یک سرمختلف ہوتا ہے۔کرسمس کےدن قریب آتے ہی لوگ گھروں، دکانوں سے لے کر ہر پبلک پلیس اورشہر کے ہر ہر درخت کو برقی قمقموں سے کسی دلہن کی طرح سجا دیتے ہیں۔ ہر گھر میں کرسمس ٹری لگایا اور اُسے دیدہ زیب Ornaments سے سجایا جاتا ہے۔ خاندان بھر کے لیے تحائف خریدنے کے بعد پیک کرکے کرسمس ٹری کے نیچے رکھ دیئے جاتے ہیں۔
دکانوں، ریسٹورنٹس میں کرسمس میوزک بجتا ہے۔ Jingle bell, It's the most wonderful time of the year کی دُھن ہرسُو سنائی دیتی ہے۔ کرسمس کی شام سے لے کر پورے کرسمس کے دن تک سارا کاروبارِ زندگی بند رہتا ہے، لوگ صرف اپنی فیملیز کے ساتھ وقت گزارتے، ایک دوسرے کو کرسمس کارڈز اور تحائف دیتے ہیں۔ اگر کرسمس والے دن برف باری ہوجائے تو پھر تو کرسمس کا مزہ دوبالا ہوجاتا ہے۔ Christmax White کو مبارک مانا جاتا ہے۔ اِس رات زیادہ تر لوگ کلاسیک موویز دیکھتے ہیں۔
ایک ایک دن کر کے سال کا آخری دن بھی آن ہی پہنچتا ہے اور New year's eve پر بچّوں، بوڑھوں کے سوا ہر شخص پارٹی کرتا ہے۔ کچھ لوگ گھروں پہ پارٹی کو ترجیح دیتے ہیں، زیادہ ترنائٹ کلبز جا تے ہیں۔ کلبز میں ریزرویشن مہینے بھر پہلے سے شروع ہو جاتی ہے اور پھر31 دسمبر کی رات چمکیلے بھڑکیلے کپڑوں میں ملبوس افراد کا ایک سیلاب سا امڈ آتا ہے۔
رات بھر بےانتہا رونق ہوتی ہے، لوگ خُوب پیتے پلاتے، ناچتےگاتے ہیں۔ ایک سال کے اختتام، نئے سال کی آمد کی خوشی میں گویا پاگل سے ہوجاتے ہیں اوراِن آپے سے باہر لوگوں کی حفاظت کے لیے شہر کی پولیس، سیکوریٹی جابجا موجود رہتی ہے۔11:50 کے بعد آخری 10 سیکنڈ، سب مل کے بآوازِ بلند گنتے ہیں۔ دس، نو، آٹھ، سات، چھے، پانچ، چار، تین، دو، ایک … کاؤنٹ ڈاؤن ختم ہوتے ہی آسمان فائر ورکس کی روشنی میں نہا جاتا ہے۔
اور پھر… بھیگی بھیگی جنوری، ایک بار پھر سے لوٹ آتی ہے۔