تحریر: شائستہ اظہر صدیقی، سیال کوٹ
ماڈل: اقراء
ملبوسات: مظہر علی کلیکشن
آرائش: دیوا بیوٹی سیلون
عکاسی: عرفان نجمی
لے آؤٹ: نوید رشید
سردیوں کے موسم میں جب کھیت کھلیان ٹھٹھر کر اپنی زرخیزی کے کم ترین درجے پر پہنچ جاتے ہیں، ایسے میں یاد کی زمینوں کی زرخیزی اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ اِن زمینوں پر ایسی دھول اُڑنے لگتی ہے کہ آنکھوں کے کناروں کے خوش نُما منظر بھی دھندلا جاتے ہیں۔ خزاں میں آس، اُمید کی بیلوں سے شروع ہوئی پَت جَھڑ، جاڑے کی آمد تک مکمل ہوچُکی ہوتی ہے۔
تب ہی تو آشاؤں کی عمارت کے دریچوں سے نامُرادیوں کی ٹنڈ منڈ بیل کچھ یوں لپٹ جاتی ہے کہ کوئی صُبح کا بُھولا، کبھی شام واپسی کا قصد کربھی لے تو اِس کھنڈرکی وحشت کی تاب نہ لاکراُلٹے قدموں لوٹ جائے۔ آنکھوں میں بےسبب رچی نمی، خُوب گنگنانے، کُھل کر مُسکرا لینے کے باوجود کم ہونے میں نہیں آتی۔ زندگی ہر لحاظ سے مکمل بھی ہو تو، ذات میں کہیں کوئی کمی، کچھ خلا ہی سامحسوس ہوتا ہے۔ ویسے تو اُداسیاں موسموں کی محتاج نہیں، یہ تو حالات و واقعات کے سبب کبھی بھی، کسی بھی موسم میں چھاجاتی ہیں۔
ہاں، مگر سرد موسم میں سرد لہجے، بےرُخی، برف تاثرات کچھ زیادہ ہی محسوس ہوتےہیں۔ سرد مزاجی بھی شاید سرد موسم ہی کی فطرت پر ہے، جو جذبات کے پُرحدّت سورج کو برفیلی رضائی ڈھانپ سونے پر مجبور کردیتی ہے۔ دسمبرکی سرد شامیں اداسی کی سیاہی میں لپٹا لباس زیبِ تن کیے، جب دِلوں پر اُترتی ہیں تو کئی قسمیں، وعدے، وفاؤں کے عہد، کچھ باتیں، لہجے، بہت سے بھولے قصّے یاد محل کے دریچوں پر بدلتی رُت میں لوٹ آنے والے پرندوں کی مانند اُبھرتے چلے آتے ہیں۔ ادھوری رہ جانے والی باتیں، نامکمل ادا ہوئےجملے، ذرا کی ذرا گنگنائے مصرعے، جو مکمل نظم کی صُورت کبھی ڈھل ہی نہ پائے، اِس رُت میں یوں سرد خنجر بن کر سینے میں پیوست ہونے لگتے ہیں، گویا گزشتہ سنہری رُت کا کوئی ادھارباقی تھا،جو اب لازمی چُکایا جائے گا۔
وقت شاید کوئی سوداگر ہے، جو ہر سرد رات میں اپناباسی حساب ساتھ لیے چلا آتا ہے کہ ہم وہ سب قسطیں چُکائیں، جو گرم دِنوں میں کبھی جذبات نے ادھار لی تھیں۔ وہ کیا ہے کہ ؎ ’’اِک خاموشی چھا رہی ہے…خشک پتّے ہر طرف بکھرتے جارہے ہیں…اور آنے والے سرد موسم کا…پیغام سُنارہے ہیں…ساتھ ہی اِک عجیب بےیقینی…اداسی بن کر…چھا رہی ہے…آسمان کانیلاپن اور…اُڑتےپرندے بھی… شام کی گہری چُپ پر…خاموش ہیں…سرد موسم کی خبریں گرم ہیں۔‘‘ دسمبر کی شاموں کا بھی اپنا ہی دستور ہے، نہ پورا دن، نہ ہی مکمل رات بلکہ دونوں وقتوں کے بیچ سرد آہ کی مانند ویران گھڑیاں، جو اُداسی کابرفیلا لمس لیے ذرّہ ذرّہ بن کر دل پر اُترتی آئیں۔ سیاہی کاگھونگھٹ اوڑھے، اداسی کو بازوؤں کےحلقے میں لیے مَن آنگن میں بلا اجازت بسیرا کرلیں۔ یہ جو سرما میں شور کچھ مدھم پڑجاتا ہے کہ الفاظ اپنے آپ کو لپیٹ کر رکھ لیتے ہیں۔
دل کےاندراپنی ہی زبان بولنے والی اِک خاموشی محض یہ یاد دلانے کو اُترتی ہے کہ ہلچل ہمیشہ باہرہوتی ہے اوراندر دَرآتی ہےتو صرف تنہائی۔ یہ عام اداسی نہیں کہ خواہش پوری ہوجانے پر دُور ہوجائے۔ دسمبر کی اداسیاں بڑی بھاری ہوتی ہیں کہ یہ اُن خوابوں کی راکھ پرآبیٹھتی ہیں، جو کبھی پورےنہ ہونے کےلیے دیکھےگئےتھے۔ ؎ بیٹھے بیٹھے پھینک دیا ہے، آتش دان میں کیا کیا کچھ… موسم اتنا سرد نہیں تھا، جتنی آگ جلالی ہے۔ ویسے سردی کا مزاج بڑاہی متضاد ہے۔
یہ بظاہر جتنی بھی ٹھٹھری، سہمی ہوئی ہو،اِس کا اکیلا دل ایک ساتھ کا طلب گار ہوتا ہے۔ اس کی تمنّا ہوتی ہے کہ کوئی لمس، لفظ یا جملہ اِس کی سرد پڑتی ساخت میں ہلکی سی گرمی بَھر دے تو الفاظ ہی کو مثلِ لحاف اوڑھ کر، آتش دان میں سلگتی لکڑیوں کی مانند رات بھرکی سردی سے نمٹنے کا کچھ سامان کرلیا جائے۔ کیا ہے کہ نگاہ کی ہلکی سی گرمی،وہ نام لے کر بُلائے جانے کی پُرلطف تپش اِس موسم میں کچھ اور ہی بھاتی ہے۔ ؎ سرد موسم کے بعد پگھلے گی… برف رشتوں پے جم سی آئی ہے۔‘‘
اور…اگربات پہناووں کی ہو، تو سردیوں میں یہ صرف ملبوسات نہیں رہتے، حرارت و حفاظت کا اظہار بن جاتے ہیں۔ یہی دیکھیے، ہماری بزم میں موجود سلیٹی رنگ چیک دار پہناوا بیک وقت پیشہ ورانہ وقار اور بہترین ڈریسنگ سینس کے معیار پر کیسے پورا اُترتا دکھائی دے رہا ہے۔ یہ پاورڈریسنگ کی بہترین مثال ہے۔ایک اور انداز میں، سیاہ ٹراؤزر اور ٹاپ کے ساتھ پرنٹڈ پیلے بلیزر کو جوڑ کر ایک مکمل لباس کی شکل دی گئی ہے۔ بلیزر پر سیاہ و سنہرے نقش و نگار پتلی پتلی بیلوں، جیومیٹریکل اشکال پر مشتمل ہیں، تو سیاہ رنگ کا استعمال ٹاپ اور ٹراؤزر کے ساتھ ایک مکمل متوازن لباس کا تاثر دے رہا ہے۔
سہولت کے ساتھ اسٹائل پر سمجھوتا نہ کرنے والی خواتین کے لیے سِلکی گرے کوآرڈ ڈریس بہترین انتخاب ہےکہ یہ جدید بھی ہے اور آرام دہ بھی۔ بلیزر اپنی بناوٹ میں قدرے ڈھلکاؤ والا ہے، توکالر اور کفس پر ماربل پرنٹ سے کنٹراسٹ کی کوشش کی گئی ہے۔ سیاہ کی سرحدوں میں مدغم ہوتے نیوی بلیو فیبرک پر گھنے، آتش فشانی جنگل ساپرنٹ لیے بلیزر اور ٹراؤزر کی تو کیا ہی بات ہے، ساتھ سُرخ رنگ کی شرٹ نے لباس شوخ، آتشی مزاج لوگوں کے معیار کےعین مطابق کر دیا ہے۔ یہ فنکی، پاپ پارٹیزمیں بھی پہنا جاسکتا ہے۔ اور سیاہ شرٹ، ٹراؤزر کے ساتھ تمام ترتوجّہ کامرکزچمک دار بلیزرہے۔ جیکوارڈ فیبرک سے بنابلیزر سبز اور جامنی پھول، پتّوں کاڈیزاین لیے ہوئے ہے، جو روشنی کو منعکس کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مطلب، میٹنگز، پارٹیز میں پہننے کے لیے یہ موزوں ترین انداز ہے۔