• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قائد اعظم محمد علی جناح قانون کے علم کی مہارت تو رکھتے ہی تھے ساتھ ساتھ وہ فن تقریر کے بھی ماہر تھے قانون ساز اسمبلی میں انکی تقریریں زبان و بیان اور دلائل میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں۔ قائداعظم نے یہ علم کن کتابوں سے حاصل کیا؟ اس بارے میں بہت زیادہ تحقیق تو نہیں ہوئی مگر شیلا ریڈی کی کتاب مسٹر اینڈ مسز جناح میں قائداعظم کے زیراستعمال انکے گھر ممبئی کی لائبریری میں موجود سیسرو کی کتابوں کا ذکر ملتا ہے۔ سیسرو روم کا مشہور وکیل، دانشور اور مقرر تھا۔ جناح صاحب سیسرو کے اقوال کا نہ صرف مطالعہ کرتے تھے بلکہ اسکے بہت سے اقوال انہوں نے نشان زد بھی کر رکھے تھے۔ ہمارے قومی باپ کے پسندیدہ دانش ور سیسرو کا یہ قول بہت مشہور ہے ’’اگر آپ کے پاس کتب خانہ اور باغیچہ ہے تو آپ کو دنیا میں کسی چیز کی کمی نہیں‘‘ بعض فلسفی اس قول سے ملتے جلتے الفاظ میں کہتے ہیں کہ کتب خانہ اور باغیچہ ہو تو آپ جنت کے باسی ہیں۔ ایک اور فلسفی کا کہنا ہے کہ جنت کتب خانے سے ملتی جلتی ہوگی۔ کتب خانوں میں موجود خزانوں کی وجہ سے انہیں جنت جیسا مقام دیا جاتا ہے، کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ’’ اگر کتب خانے نہ ہوں تو نہ ہمارا کوئی ماضی ہو اور نہ ہی مستقبل‘‘۔ کتب خانے میری پسندیدہ جائے اماں رہے ہیں ایف سی کالج لاہور میں طالبعلم تھا یا بعد میں ایک دہائی تک انگریزی کا استاد رہا اس تمام عرصے میں میرا ٹھکانہ ایونگ لائبریری ہوتا تھا، آتے جاتے کتب خانے کی خوشبو سے ذہن کو مہکانا مجھے بہت پسند تھا ۔کتب خانوں میں جانا، وقت گزارنا اور کتب سے استفادہ کرنا میرا شوق بھی ہے اور کمزوری بھی۔ شوق اسلئے کہ مجھے اپنی کم علمی اور کم نظری کا اچھی طرح علم ہےاس کمی یا پیاس کو دور کرنے کیلئے کتب کو شوق بنانا ضروری تھا اور یہ کمزوری اسلئے ہے کہ میں نئی کتابوں کو نہ پڑھوں تو مجھ سے لکھا نہیں جاتا ایسا لگتا ہے کہ دماغ بالکل خالی ہے۔ گزشتہ کئی ماہ سے میرے گجراتی فاضل دوست، کاشف منظور صاحب ڈائریکٹر جنرل لائبریریز بار بار مجھے احساس دلاتے ہیں کہ کتب خانوں کی طرف حکومت، عوام اور اہل دانش کی توجہ دلائی جائے پنجاب بھر میں بالعموم اور لاہور میں بالخصوص لائبریریاں قائم ہیں مگر ان کیلئے فنڈز دستیاب نہیں۔ قائداعظم لائبریری باغ جناح کے خوبصورت ہال میں ہے مگر اسکے مرکزی تاریخی ہال کی والڈسٹی جیسی تزئین کی ضرورت ہے تاکہ لاہور کے اس قدیم ترین اور خوبصورت ہال کو اہم تقریبات کیلئے ہمہ وقت تیار رکھا جائے۔ لائبریریز کو نئی کتابیں خریدنے اور اپنی جگہ بڑھانے کیلئے جس قدر فنڈنگ کی ضرورت ہے وہ انہیں فراہم نہیں کی جاتی۔ حکومت پنجاب علم و دانش اور ثقافت کے فروغ پر متوجہ ہے اس لئے اس شعبے کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ آج کی دنیا میں جتنا بھی علم ہے وہ کتب سے ہی آیا ہے اور اسے کتاب کے ذریعے ہی فروغ دیا جا سکتا ہے ۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا آنے کے بعد کتاب کے مستقبل کے بارے میں چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں میری ادنیٰ رائے میں میڈیا اور کتاب کی شکلیں تبدیل ہوتی رہی ہیں اور ہوتی رہیں گی مگر کتابیں علم کا خزانہ اور میڈیا اطلاعات کا ذریعہ رہیں گے۔ کتابوں کا آغاز،پتوںاور پتھروں پر لکھی گئی یا کندہ کی گئی تحریروں یا علامات سے نہیں ہوا اس سے پہلے علم اور اطلاعا ت خون جگرسے سمو کر ذہن میں محفوظ کی جاتی تھیں ،مذہبی کتابوں کو زبانی یاد کرناتو تقدیس اور فر یضہ کی بات ہے ہم میں سے کئی ایک دیوان غالب کے حافظوں اور ہیر رانجھا کے بند بند کو یاد رکھنے والوں سے بار بار ملے ہیں۔ حافظے کے بعد پتوں، پتھروں اور پھر کاغذوں کی باری آئی اب ڈیجیٹل اور آر کا ئیول حافظے، اسٹوریج کیلئے موجو دہیں اس لیے سوشل میڈیا پر دستیاب مفید معلومات بھی آج کی کتابیں اور کتابچے ہیں ۔مجھے یاد ہے کہ ایک زمانے میں جب گھمانے والے اور تار والے کالے فون ہوتے تھے ہمیں اکثرفون نمبر زبانی یاد ہوا کرتے تھے اب موبائل فون کے اندر فون ڈائریکٹری نے نمبر زبانی یاد کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہنے دی۔ گویا اب نئی ڈیجیٹل کتابیں ہمارے فون، کمپیوٹر یا آنیوالی نئی ایجادوں کے ذریعے ہم تک پہنچا کریں گی۔

کئی لوگ سوال کرتے ہیں کہ کیا چیٹ جی پی ٹی اور گوگل جیسے سرچ انجنوں اور مصنوعی ذہانت کے نئے نئے پلیٹ فارموں کی موجودگی میں کتب خانوں، کتابوں اور مطالعے کی اسی طرح ضرورت ہے جیسے ماضی میں ہوا کرتی تھی یا اب نئی ٹیکنالوجی نے یہ ضرورت ختم کر دی ہے؟ پہلے تویہ یاد رکھنا چاہئے کہ جدید ٹیکنالوجی میں جو تبدیلیاں ہو رہی ہیں انکا ذریعہ بھی کتب اور کتاب گھر ہی ہیں۔ مصنوعی ذہانت کی اسٹوریج کیلئے اربوں ڈالر کے جو نئے ڈیٹا سینٹر بن رہے ہیں وہ دراصل کتابوں کی دنیا کیلئے انسائیکلوپیڈیا ہیں جو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعے ہر فرد کو میسر ہوں گے مگر یاد رکھنا چاہئے کہ جس طرح کتاب، ڈکشنری یا انسائیکلوپیڈیا کو پڑھنے یا سمجھنے کیلئے اس علم کی بنیادی معلومات کا ہوناضروری ہے اسی طرح مصنوعی ذہانت کے ذریعے علم کی کھوج سے پہلے کتابوں اور کتب گھروں کا بنیادی علم ضروری ہے اور یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اگر کتابوں کے سارے علم کو مصنوعی ذہانت میں منتقل کرنیکا کام ممکن بھی ہو تو کم از کم اس میں نصف صدی تو لگ جائیگی گویا اگلے پچاس سال تک روایتی کتابوں، کتب خانوں اور انسائیکلوپیڈیاز کی ضرورت رہے گی۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت ہوسکتا ہے کہ کتاب کی ظاہری شکل وصورت بدل کر اسے ایک نقطے یا ایک بٹن میں قید کر دیں مگر کتاب کے اندر موجود مواد اور اس میں موجود نئی اطلاعات کی تازگی اور اہمیت تو اسی طرح برقرار رہے گی۔مصنوعی ذہانت سے صحیح اور مستند معلومات لینے کیلئے سوال کا درست ہونا ضروری ہے جس طرح کسی کتاب کا عطر جاننے کیلئے اسکا پڑھنا ضروری ہے۔ ہمارے کاشف منظور اور انہی کی طرح کتابوں کے عشاق کاشف منظوروں کی خواہش ہے کہ ایک باشعور اور باعلم معاشرے کیلئے کتب خانوں کے فروغ کی ضرورت آج بھی ہے اور آئندہ بھی رہے گی۔ ہمیں پہلے سے موجود لائبریریوں کو دنیا کی جدید ضرورتوں کے مطابق سہولتیں فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ یوکے اور امریکہ کے بڑے بک اسٹورز کے اندر ہی اب کافی ہاؤس بن گئے ہیں اگر جگہ کھلی ہو تو دارالمطالعہ کی کھڑکیوں اور دروازوں سے پودے اور پھول بھی نظر آتے ہیں تاکہ ماحول بوجھل نہ ہونے پائے۔ اکثر لوگ کہتے ہیں کہ یہ کتابوں کی آخری صدی ہے مگر کیا علم کی بھی آخری صدی ہے؟ جب علم اور ٹیکنالوجی سے ہی دنیا نے آگے بڑھنا ہے تو کتاب کا نام، شکل اور ہیئت کچھ بھی ہو جائے یہ آواز کی شکل میں رہے، تصویر کا ہیولا اختیار کرلے یا لفظوں کے کسی رنگ میں آجائے، علم اور اطلاعات کی بنیاد تو وہی رہے گی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ مشین آئی تو انسان اور مشین کا تقابل شروع ہوگیا اور کہا جانے لگا کہ انسان تو گیا اب مشینیں حکومت کرینگی، اب مصنوعی ذہانت اور انسانی ذہانت کا مقابلہ درپیش ہے تو کہا جاتا ہے کہ مصنوعی ذہانت کا جن سارے روایتی علوم اور ٹیکنالوجی کو کھا جائیگا مگر تجربہ بتاتا ہے کہ نہ مشینیں انسان کو ہرا سکیں اور نہ مصنوعی ذہانت انسانی ذہانت کو زیر کرسکے گی۔ کتاب، علم اور ٹیکنالوجی ہر عذاب و ثواب سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس لیے بے خوف ہو کر کتابیں پڑھیں اور لکھیں، لائبریریاں بنائیں اور ان سے مستفید ہوں۔ مصنوعی ذہانت ہمیں کتابوں کے فروغ اور مطالعہ میں مدد ہی دے گی۔

تازہ ترین