بسلسلۂ یومِ پیدائشِ
رواداری کی دولت، افتخارِ مُلک و ملّت ہے
اخوّت سے مرکب، قائدِ اعظم کی سیرت ہے
مقدّر کے سکندر تھے، جنابِ قائدِ اعظم
رواداری کا پیکر تھے، جنابِ قائدِ اعظم
یقین و عزم و استقلال تھا، قائد کے چہرے پر
وہ شانِ بےنیازی میں بھی رکھتے تھے عجب تیور
نظر آتا نہیں ہے رہنما ،کوئی بھی اُن جیسا
تھا نصب العین اُن کا، اتحادِ ملّتِ بیضا
وہ آئینہ صفت تھے، دل کو بھی شفّاف رکھتے تھے
ہمارے قائدِ اعظم ، بلند اوصاف رکھتے تھے
تھی کردار و عمل کی روشنی بھی، اُن کی آنکھوں میں
تھا نور افشاں، چراغِ زندگی بھی، اُن کی آنکھوں میں
یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتحِ عالَم
تھے اِن اوصاف کے سچّے مکلّف، قائدِ اعظم
تھی شخصیت، دلیلِ آفتابِ زندگی اُن کی
زمانے سے نرالی تھی، کتابِ زندگی اُن کی
ہوئی جہدِ مسلسل میں بسر، اُن کی جوانی بھی
خرد افروز تھی، اُن کی حیاتِ جاودانی بھی
تر وتازہ اُنہیں رکھتی تھی، جذبوں کی فراوانی
زمانے سے جدا تھا، اُن کا اندازِ جہاں بانی
وہ تنہا ہی نہ تھے، دنیا بھی ہم آواز تھی اُن کی
جوانوں سے زیادہ، قوتِ پرواز تھی اُن کی
حریفِ گردشِ دوراں رہی تھی، زندگی اُن کی
نقیبِ صبح گُل افشاں رہی تھی، زندگی اُن کی
یہ پاکستان، اُن کی آرزوؤں کا نشیمن ہے
حفاظت کیجیے اِس کی، یہ گلشن سب کا گلشن ہے
ہمیں اجداد کی قربانیوں کو یاد رکھنا ہے
وطن کے ذرّے ذرّے کو سدا آباد رکھنا ہے
فضا میں جب بھی لہراتا ہے، پاکستان کا پرچم
بڑا دل کش نظر آتا ہے، پاکستان کا پرچم
ڈاکٹر قمر عبّاس
بانیٔ مُلکِ خداداد کو ہے داد، مگر
دل پہ حالاتِ دگرگوں کا ہمارے ہے اثر
آپ کی کاوش و کوشش سے مِلی آزادی
اس میں کچھ شک نہیں، پر مل نہ سکا اس کا ثمر
پوچھ لیجیے، تو نظر آئے گا شاکی بےشک
ہو وہ عامی کہ مِرے دیس کا وہ دانش وَر
سچ تو یہ ہے کہ سفر جانبِ منزل نہ رہا
موجِ دریا تھی، سفینہ تھا، مسلسل تھا بھنور
اب ہے آئین سے بڑھ کر طلبِ آئینہ
کس نے کس طور سے پایا ہے یہاں زور یا زر
ہم نے کی آپ کے افکار سے رُو گردانی
ہیں اِسی واسطے سب اہلِ وطن تفتہ جگر
آپ کے یوم مناتے ہوئے آتا ہے خیال
اپنے اعمال کو درکار ہے اِک فکر و نظر
اپنی دھرتی کے لیے سَر تِرے آگے یارب
اے خدا تیرا کرم ہم پہ رہے شام و سحر