• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کوئی ایسا مُلک، جو معاشی اعتبار سے ہر معاملے میں خودکفیل ہو، اپنی ضرورت کی ہر چیز خود اپنے مُلک میں بناتا ہو، اور اسے ایکسپورٹ یا امپورٹ کی ضرورت نہ ہو، معاشیات کی اصطلاح میں ’’Autarky‘‘ کہلاتا ہے۔ تاہم، عملی طور پر دنیا میں کوئی ایسا مُلک موجود نہیں، جو اپنی ضرورت کا ہر سامان خود تیار کرتا ہو، یا اشیاء کی درآمد و برآمد کے لیے کسی بیرونی تجارت کا محتاج نہ ہو۔ 

اگرچہ شمالی کوریا کے متعلق دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے کسی بیرونی تجارت کا محتاج نہیں، لیکن اُس سے متعلق بھی یہ دعویٰ درست نہیں، کیوں کہ شمالی کوریا کا معاملہ یہ ہے کہ دنیا کے تقریباً سب ہی مُمالک اس کے ساتھ تجارت کرنا پسند نہیں کرتے، پھر امریکا اور دیگر مغربی مُمالک نے شمالی کوریا پر لاتعداد معاشی پابندیاں عائد کررکھی ہیں۔ صرف چین اور روس دو ایسے مُلک ہیں، جن سے شمالی کوریا کی تجارت ہوتی ہے۔

ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی مُلک بیرونی تجارت کے بغیر ترقی کرسکتا ہے؟ تو اس کا سیدھا سادہ جواب یہ ہے کہ بیرونی تجارت کے بغیر ایک مُلک قائم تو رہ سکتا ہے، لیکن ترقی نہیں کرسکتا، نتیجتاً وہاں کے عوام سخت معاشی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس ضمن میں چند اہم عوامل کا تذکرہ پیشِ خدمت ہے، جن سے واضح ہوگاکہ اِن عوامل کی موجودگی میں Autarkyکا حصول ممکن ہی نہیں ہے۔ 

یہ ایسے عوامل ہیں، جنھیں نظرانداز کرکے مکمل معاشی خود کفالت کا تمغا تو جیتا جاسکتا ہے، مگر معاشی ترقی کا حصول ناممکن ہے، کیوں کہ آج کے دَور میں بیرونی تجارت سے کٹ کر سو فی صد معاشی خود کفالت کا حصول ناممکن ہے۔ دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک میں ایک بات مشترک ہے کہ وہ سب بین الاقوامی تجارت سے باہم منسلک ہیں۔

بین الاقوامی باہمی تجارتی انحصار: آج دنیا کا ہر مُلک چاہے ترقی یافتہ ہو یا ترقی پذیر، بےشمار معاملات میں دیگر ممالک کا محتاج ہے۔ چین اور امریکا کا شمار دنیا میں معاشی اعتبار سے انتہائی ترقی یافتہ اور خوش حال ممالک میں ہوتا ہے، جو اپنی ضرورت کے مطابق مصنوعات اور دیگر بہت سی اشیاء اپنے مُلک میں نہ صرف تیار کرتے ہیں، بلکہ ایکسپورٹ بھی کرتے ہیں، مگر ان اشیاء کی تیاری کے لیے درکار خام مال ان ممالک میں دست یاب نہیں ہوتا، مثلاً امریکا، جدید اسلحے کی تیاری کے حوالے سے دنیا کی بہت بڑی صنعت کا درجہ رکھتا ہے۔ 

امریکی اسلحے کی تیاری میں نایاب دھاتیں استعمال ہوتی ہے، جو وہاں دستِ یاب نہیں، لہٰذا اُسے اپنی دفاعی صنعت چلانے کے لیے نایاب دھاتیں دوسرے ممالک سے امپورٹ کرنا پڑتی ہیں۔ اسی طرح چین، الیکٹرک کاروں کی تیاری میں بہت آگے ہے۔ الیکٹرک گاڑیوں میں لیتھیم بیٹری ایک لازمی جزو ہے۔

اگرچہ چین میں لیتھیم نامی دھات کے ذخائر تو موجود ہیں، مگر اس کی تیزی سے پھیلتی الیکٹرک گاڑیوں کی صنعت کے لیے لیتھیم کے یہ ذخائر ناکافی ثابت ہورہے ہیں، جس کی وجہ سے وہ دیگر ممالک سے لیتھیم امپورٹ کرنے پر مجبور ہے۔

محدود وسائل: دنیا میں کوئی ایسا مُلک نہیں، جو تمام ضروری قدرتی وسائل سے مالا مال ہو۔ خوش قسمتی سے ہمارے مُلک میں متعدد قدرتی وسائل موجود ہیں، مگر ہمیں بھی تیل و گیس کی ضرورت پوری کرنے لیے بیرونی مُمالک پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ یہی معاملہ سعودی عرب کے ساتھ بھی ہے۔

جہاں قدرتی تیل و گیس کی فراوانی ہے، مگر وہ خوراک کے معاملے میں مکمل خود کفیل نہیں ہے۔ اسے اپنی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے دیگر ممالک سے اجناس، پھل فروٹ اور کھانے پینے کی دیگر اشیاء امپورٹ کرنا پڑتی ہیں۔

قلّت و قحط سے بچاؤ: دو مُمالک کے درمیان باہمی تجارت، ان مُمالک کو مختلف اقسام کی قلّت و قحط سے محفوظ رکھتی ہے۔ دو طرفہ تجارت کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ وسائل سے محروم مُلک، باہمی تجارت کی بدولت دوسرے مُلک سے مطلوبہ شے خرید کر اپنی ضرورت پوری کرکے قلّت پر قابو پالیتا ہے۔ مثلاً ہمارا مُلک گندم کی پیداوار میں خودکفیل نہ ہونے کے سبب بیرونی مُمالک سے گندم خرید کر اپنی ضرورت پوری کرلیتا ہے۔

بعض اوقات کچھ اشیاء اپنے ہی مُلک میں پیدا کرنا یا تیار کرنا بہت منہگا پڑتا ہے، لہٰذا مُلکی ضرورت کے پیش نظر مطلوبہ اشیاء بیرونِ مُلک سے سستے داموں امپورٹ کرلی جاتی ہیں۔ایک زمانہ تھا، جب ہمارے یہاں بہت سی چھوٹی چھوٹی چیزیں مقامی طور پر تیار کی جاتی تھیں ، مگر اب بےشمار اشیاء چین سے امپورٹ کی جارہی ہیں، کیوں کہ چینی مصنوعات پاکستان میں تیار کردہ مصنوعات کی نسبت زیادہ سستی پڑتی ہیں۔

ٹیکنالوجی: دنیا کے بیش ترممالک ٹیکنالوجی کے معاملے میں خود کفیل نہیں، یہاں تک کہ جن ممالک کو معاشی اعتبارسے مضبوط تصور کیا جاتا ہے، وہ بھی کہیں نہ کہیں ٹیکنالوجی کے حوالے سے کسی ترقی یافتہ مُلک کے محتاج ہیں۔ مثلاً بھارت جدید اسلحے کی تیاری میں آج بھی روس، امریکا اور دیگر مغربی ممالک کا محتاج ہے۔

اس طرح اگر کوئی مُلک Autarkyکے فلسفے پر چلنے کی کوشش کرتا ہے، تو اس کے لیے سائنس اور ٹیکنالوجی کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں۔ تاہم، ترقی کے خواہش مند ممالک ان پابندیوں کو خاطر میں نہیں لاتے۔ یہ باہمی تجارت ہی کا کمال ہے کہ ترقی پزیر ممالک، ترقی یافتہ ممالک سے ٹیکنالوجی حاصل کررہے ہیں۔

معیارِ زندگی: بعض اوقات معاشی خود کفالت کا خواب مختلف ممالک کو مالی تنگ دستی میں بھی مبتلا کردیتا ہے، کیوں کہ جب ایک مُلک، بیرونی دنیا سے تجارت بند کردیتا ہے، تووہ تنگ دستی کا شکار ہوجاتا ہے۔

بالفرض، اگر ایک مُلک اپنے یہاں خام لوہے کے ذخائر ضرورت سے زیادہ ہونے کے باوجود اُنھیں ایکسپورٹ نہیں کرتا، تو درحقیقت وہ کثیر سرمائے سے محروم ہوجائے گا، جو کہ معاشی لحاظ سے ایک غلط اقدام ہوگا۔ اسی طرح اگر کسی مُلک کی فارما انڈسٹری کو بیرونی خام مال کی ضرورت ہو، لیکن وہ مطلوبہ خام مال امپورٹ نہ کرے، تو اس صُورت میں مُلک صحت کے سنگین مسائل کا شکار ہوسکتا ہے۔

سنڈے میگزین سے مزید
معیشت سے مزید