• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بینظیر بھٹو کا اکتوبر 2007 میں پاکستان واپس آنا ایک شعوری، باوقار اور جرات مندانہ سیاسی فیصلہ تھا، جو جمہوریت پر غیر متزلزل یقین سے جڑا ہوا تھا۔کراچی آمد کے وقت پاکستان پہلے ہی خودکش حملوں، بڑھتی ہوئی انتہاپسندی اور ایک ایسے سیاسی نظام کی گرفت میں تھا جو عوامی مینڈیٹ کے بجائے انتظامی بندوبست پر انحصار کرنے لگا تھا۔ اسی رات ان کے استقبالی جلوس پر حملہ ہوا جس میں درجنوں کارکن شہید ہوئے۔ یہ ایک واضح پیغام تھا کہ جمہوری سیاست بذاتِ خود ایک خطرناک عمل بن چکی ہے۔ اس کے باوجود بینظیر بھٹو پیچھے نہیں ہٹیں۔انہوں نے یہ حق محض علامت بن کر حاصل نہیں کیا تھا۔ 1988 اور 1993 میں دو مرتبہ عوام کے ووٹ سے منتخب وزیرِ اعظم بننے والی بینظیر بھٹو ایک فعال، نظریاتی اور عوامی رہنما تھیں۔ گیارہ سالہ آمریت کے بعد اقتدار سنبھال کر انہوں نے سیاسی فضا کو بحال کیا، آزاد صحافت کو فروغ دیا، سیاسی قیدیوں کو رہا کیا، طلبہ اور مزدور تنظیموں کو بحال کیا اور پاکستان کو دوبارہ جمہوری دنیا سے جوڑا۔

انکے دوسرے دورِ حکومت میں ادارہ جاتی اصلاحات اور سماجی پالیسی کو مرکزی حیثیت حاصل رہی۔ لیڈی ہیلتھ ورکر پروگرام، جو انہی کے دور میں شروع ہوا، آج بھی پاکستان کی سب سے مؤثر سماجی اسکیموں میں شمار ہوتا ہے۔ اس پروگرام کے ذریعے لاکھوں خواتین اور بچوں کو بنیادی صحت کی سہولیات فراہم کی گئیں اور ہزاروں خواتین کو روزگار ملا۔ یہ محض فلاحی اقدامات نہیں تھے بلکہ ریاست اور عوام کے تعلق کو نئی بنیاد دینے کی سنجیدہ کوششیں تھیں۔یہی سماجی انصاف کا تصور ان کی شہادت کے بعد بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی صورت میں آگے بڑھایا گیا۔

بینظیر بھٹو کی پوری سیاسی زندگی کو اگر ایک لفظ میں سمیٹا جائے تو وہ نیت، جرات اور عزم ہے۔ وہ ایک ایسے ریاستی ڈھانچے کو آئینی اور جمہوری حدود میں لانا چاہتی تھیں جو طویل عرصے سے پارلیمان سے بالاتر طاقت کا عادی رہا تھا۔ یہی نیت اور یہی جرات انہیں ان قوتوں کیلئے خطرہ بنا دیتی تھی جو بندوق کے سائے میں اقتدار کو دوام دینا چاہتی تھیں۔2007 تک بینظیر بھٹو ایک غیر معمولی سیاسی چیلنج بن چکی تھیں۔ عوامی مقبولیت، عالمی ساکھ اور انتہاپسندی کے خلاف دوٹوک مؤقف ان کی پہچان تھا۔ وہ واضح طور پر کہہ چکی تھیں کہ شدت پسندی کو قابو میں نہیں رکھا جا سکتا، یہ پورے نظام کو نگل لیتی ہےاور یہ کہ جمہوریت سیاسی انجینئرنگ، منتخب احتساب اور آئین سے بالاتر قوتوں کے ساتھ پنپ نہیں سکتی۔27 دسمبر 2007 کو اسی مؤقف کو خاموش کرانے کی کوشش کی گئی۔اس دن ان کے وژن کو تشدد کے ذریعے جواب دیا گیا۔ راولپنڈی میں اپنے آخری خطاب میں بینظیر بھٹو نے پاکستان کے مستقبل کی بات کی۔ انہوں نے خوف سے آزاد ریاست، انتہاپسندی کے خاتمے اور دہشت گردی کے خلاف جمہوری بالادستی، سول اختیار اور قانون کی حکمرانی کے ذریعے مقابلے کا واضح خاکہ پیش کیا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ بندوق آئین کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہو سکتی اور یہ کہ ووٹ کو گولی پر برتری حاصل ہونی چاہیے۔ چند لمحوں بعد، جب وہ جلسہ گاہ سے نکلتے ہوئے اپنے کارکنوں کو دیکھ کر پلٹیں، انہیں شہید کر دیا گیا۔ وہ بے خوف تھیںاور اسی بے خوف نیت کی وجہ سے انہیں راستے سے ہٹایا گیا۔انکی شہادت اس قیمت کا نام ہے جو انہوں نے جمہوریت کو دہشت پر ترجیح دینے کیلئے ادا کی۔اسکے بعد ہونیوالے واقعات نے سانحے کی سنگینی کو مزید گہرا کر دیا۔ تحقیقات میں سنگین کوتاہیاں سامنے آئیں، سیکورٹی میں ناکامیاں ہوئیں اور شواہد ضائع کیے گئے۔ کوئی مؤثر احتساب نہ ہو سکا۔ پیغام واضح تھا کہ سیاسی تشدد بے سزا رہے گا اور جمہوری جدوجہد کی قیمت خون سے ادا کی جائے گی۔پاکستان ایک نازک موڑ پر کھڑا تھا۔اسی لمحے صدر آصف علی زرداری نے وہ الفاظ کہے جنہوں نے ملک کو ٹوٹنے سے بچایا ’’پاکستان کھپے‘‘ یہ محض نعرہ نہیں بلکہ ایک سیاسی فیصلہ تھا کہ غم کو انتشار میں بدلنے نہیں دیا جائے گا۔

یہ عزم حکمرانی میں بھی نظر آیا۔ 2008 سے 2013 کے دوران پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک منتخب سول حکومت نے اپنی مدت پوری کر کے اقتدار دوسری منتخب حکومت کو منتقل کیا۔ اٹھارویں آئینی ترمیم کے ذریعے پارلیمان کی بالادستی بحال ہوئی، صوبائی خودمختاری کو تقویت ملی اور آمریت کے ادوار کے آئینی بگاڑ کو درست کیا گیا۔بینظیر بھٹو کا ورثہ یہیں نہیں رکا بلکہ نسل در نسل منتقل ہوا۔ان کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری نے محض اٹھارہ برس کی عمر میں قومی صدمے کے عالم میں پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت سنبھالی۔ انہوں نے اسی جرات، سیاسی شعور اور استقامت کے ساتھ پارٹی کی رہنمائی کی جو انکی والدہ کی پہچان تھی، اور بعد ازاں پاکستان کے کم عمر ترین وزیرِ خارجہ کے طور پر عالمی سطح پر ملک کی نمائندگی وقار، اعتماد اور واضح مؤقف کے ساتھ کی۔آج یہی تسلسل بینظیر بھٹو کی سب سے چھوٹی صاحبزادی آصفہ بھٹو زرداری کے کردار میں بھی نظر آتا ہے، جو پاکستان کی فرسٹ لیڈی کے طور پر صحتِ عامہ، خواتین کے حقوق اور سماجی بہبود کیلئے سرگرم ہیں۔

یہ تسلسل اس تاثر کو رد کرتا ہے کہ بینظیر بھٹو پاکستان کی تاریخ میں محض ایک وقفہ تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے آئین، پارلیمانی بالادستی اور سول اقتدار پر مبنی جمہوری سفر کی بنیاد رکھی۔بینظیر بھٹو کی میراث تصادم نہیں بلکہ عزم ہے۔ یہ اس یقین کا نام ہے کہ پاکستان میں جمہوریت تسلسل، حوصلے اور آئینی عمل پر یقین کے ذریعے مضبوط ہوتی ہے۔ہر 27 دسمبر ہمیں ٹوٹ پھوٹ نہیں بلکہ جرات کی یاد دلاتا ہے۔

(کالم نویس، رکن قومی اسمبلی پاکستان ہیں)

تازہ ترین