• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امن کے دنوں میں جنگ جیسے حالات ہوں تو عذاب ہوتا ہے، قوم کو اللہ پاک سے معافی کی دعائیں کرنا چاہئیں چونکہ رمضان المبارک اللہ کا اپنا مہینہ ہے اس میں دعائوں کی قبولیت کے امکانات بھی زیادہ ہوتے ہیں، مجھے فلسفیانہ گفتگو… نہیں آتی لگی لپٹی تو بالکل بھی نہیں آتی۔ درج بالا چند سطریں ویسے ہی روانی میں لکھ گیا، بہت سی کتابیں آئی ہوئی ہیں زیادہ تر Phd کے مقالوں پر مشتمل ہیں اللہ پاک کو چونکہ دو قسم کے لوگ بہت پسند ہیں ایک علم عطا کرنے والا اور دوسرا علم حاصل کرنے والا یعنی استاد اور طالب علم، پی ایچ ڈی کے مقالے چونکہ اساتذہ کرام نے بھیجے ہیں اس لئے میری ترجیح بھی مقالاتی کتابیں ہیں‘
’’ اردو نثر میں سیرت رسول ﷺ یہ فیصل آباد کے ڈاکٹر انور محمود خالد صاحب کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے جسے اقبال اکیڈمی نے شائع کیا ہے۔ ساڑھے آٹھ سو صفحات پر محیط یہ بہت ہی ایمان افروز مقالہ ہے۔ سیرت کی تعریف، سیرت کے ماخذ، اردو نثر میں سیرت کے ابتدائی نمونے، اردو سیرت نگاری کا باقاعدہ آغاز و ارتقاء، سیرت نگاری کا عہد زریں اور اردو سیرت نگاری کا عہد حاضر کے علاوہ پچاس صفحے کا شخصیات کا اشاریہ بھی ڈاکٹر انور محمود خالد صاحب کی لگن کا ثبوت ہے، کتابیات اس کے علاوہ ہے۔ سیرت رسول ﷺ ایک نہایت مبارک موضوع ہے جس پر دنیا بھر کی زبانوں میںلاتعداد کتب لکھی گئی ہیں مگر ذکر رسول ﷺ ایک ایسا مبارک سلسلہ ہے جو کبھی ختم نہ ہوگا۔ ڈاکٹر انور محمود خالد، ممتاز محقق اور رفیق نظر رکھنے والےا سکالر ہیں انہوں نے بڑی محنت اور جگر کاری سے سیرت رسولﷺ پر اردو نثر میں لکھی جانے والی کتب کا کھوج لگایا ہے اور ان کے بارے میں معلومات فراہم کرنے میں پوری تندہی سے کام لیا ہے، سیرت کے موضوع پر یہ ایک اہم اور مستند حوالہ جاتی کتاب ہے، ڈاکٹر انور محمود خالد، شاعر ہیں، ادیب، نقاد، خطیب اور محقق مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تدریس کے علاوہ گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں انہوں نے چونتیس سال پڑھایا۔ ایک عرصہ اس کالج کے پرنسپل رہے۔ خوش پوشاک ہیں خوش خوراک اور خوش مزاج بھی، ایم اے اردو کا چھٹا پرچہ، اقبال کا خصوصی مطالعہ۔ پروفیسر ڈاکٹر انور محمود خالد کا گراں قدر علمی اثاثہ ہے جو پروفیسر صاحب کے اقبال کے فکر و فن پر 29 مقالات کا مجموعہ ہے جس سے ایک عرصے سے طلبہ مستفید ہورہے ہیں، پروفیسر صاحب کا سب سے خوبصورت عمل جس نے مجھے ان کا گرویدہ کیا ہے وہ فیصل آباد کے مدینہ ٹائون میں ان کی ذاتی لائبریری ہے جس میں کتابیں کئی ہزاروں سے تجاوز کرگئیں۔ زاہدہ خاتون شروانیہ (زخ ش) یہ دوسرا مقالہ جواں مرگ شاعرہ اور نثر نگار زاہدہ خاتون شروانیہ پر ممتاز شاعرہ اور استاد پروفیسر ڈاکٹر فاطمہ حسن کا پی ایچ ڈی کا ہے جسے انجمن ترقی اردو پاکستان نے کراچی سے شائع کیا ہے، جس کے بارے میں جناب جمیل الدین عالی صاحب نے لکھا ہے کہ ’’اگر کوئی زخ ش‘ کے متعلق صرف زبانی وہ معلومات فراہم کرتا جو اس کتاب میں تحریر فاطمہ حسن نے کمال محنت و تحقیق سے جمع کردیں تو کم از کم مجھے ان کے درست ہونے پر یقین نہ آتا اس وجہ سے بھی ان کو تقریباً سو برس گزر گئے مگر ہمارے کسی ہندو پاک کے محقق نے ان کو ’’دریافت‘‘ نہ کیا۔ پروفیسر ڈاکٹر فاطمہ حسن کا گھریلو نام سیدہ انیس فاطمہ زیدی ہے کراچی یونیورسٹی میں پڑھاتی ہیں۔ 25جنوری 1953ء کو کراچی میں ہی پیدا ہوئی تھیں ان کے شعری اور تنقیدی مجموعے ہیں۔ بہتے ہوئے پھول، دستک سے دور کا فاصلہ، کہانیاں گم ہوجاتی ہیں، یادیں بھی اب خواب ہوئیں، خاموشی کی آواز، فیمینزم اور ہم، اور ’’بلوچستان کا ادب اور خواتین‘‘ انجمن ترقی اردو ادب پاکستان جس کے سرپرست جناب جمیل الدین عالی ہیں انہوں نے معتمد اعزازی کے طور محترمہ فاطمہ حسن صاحبہ کو ذمہ داریاں تفویض کردی ہیں، فاطمہ حسن صاحبہ کو صدارتی تمغہ امتیاز بھی 2010ء میںمل چکا ہے۔
’’حلقہ ارباب ذوق‘‘ یہ ڈاکٹر یونس جاوید کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے 1072صفحات پر محیط یہ برعظیم کی ادبی تنظیمی تاریخ ہے جس کے بارے میں جناب انتظار حسین صاحب نے لکھا ہے کہ ’’حلقہ کے بانیوں اور معماروں نے ایک عقلمندی کی کہ حلقہ کو جدیدیت یا کسی ایسے ہی تصور کے کھونٹے سے باندھنے کی کوشش نہیں کی اس کے دروازے ہر قسم کے خیال اور ہر رنگ کے ادب کیلئے کھلے رکھے!‘‘
حلقہ ارباب ذوق کو قائم ہوئے 84برس ہوگئے۔ ابتدا میں اس کا نام ’’بزم داستان گوئیاں‘‘ تھا ’’حلقہ ارباب ذوق‘‘ کو ترقی پسندوں کا ردعمل بھی کہا گیا بس اوقات یہ متوازی چلتے بھی رہے اس تحریک کا آغاز چھوٹے پیمانے پر ہوا تھا مگر یہ کسی طور پر بے اثر اور چھوٹی تحریک ثابت نہیں ہوئی۔ ’’بزم داستان گویاں‘‘ کا پہلا اجلاس 1930ء میں ہوا تھا جس میں پہلا افسانہ جناب نسیم حجازی نے پڑھا تھا، حلقے کے بانیوں میں جناب تابش صدیقی اور اختر ہوشیار پوری بھی شامل تھے عمروں میں کم از کم چالیس پینتالیس برسوں کا فرق ہونے کے باوجود ان دونوں شخصیات سے میرے دوستانہ مراسم تھے بلکہ تابش صدیقی تو 1974ء میں میرے پشتو کے کلاس فیلو بھی تھے، جس پر ایک بار پروفیسر خاطر غزنوی نے کہا تھا کہ یار جبار تو تابش صدیقی کا کلاس فیلو واہ واہ ’’ڈاکٹر یونس جاوید جو کسی تعارف کے محتاج نہیں وہ افسانہ نگار بھی ہیں۔ ڈرامہ نویس، محقق اور کہانی کار بھی ان کی شخصیت کے کئی حوالے ہیں انہوں نے حلقہ ارباب ذوق کی تاریخ مرتب کرکے بہت بڑی ادب پروری کی ہے اسلام آباد کے دوست پبلی کیشنز نے اس مقالے کو شائع کیا ہے۔
’’یگانہ تحقیقی و تنقیدی مطالعہ‘‘ یہ مقالہ ڈاکٹر نجیب جمال صاحب کا ہے، ڈاکٹر صاحب گزشتہ دنوں تک اسلام آباد کی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں پڑھاتے رہے ہیں مگر آج کل ملتان میں علم کے فروغ میں مصروف ہیں، پروفیسر ڈاکٹر نجیب جمال جن کی 3مئی 1953ء کو ولادت ہوئی۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں فیکلٹی آف آرٹس کے ڈین بھی رہے، بہائو الدین ذکریا یونیورسٹی ملتان میں بھی تدریسی خدمات انجام دیں اور عین شمس یونیورسٹی قاہرہ اور الازہر یونیورسٹی قاہرہ مصر میں بھی پڑھاتے رہے ہیں ان کی کتابوں کی تعداد 15 کے قریب ہے، ڈاکٹر نجیب جمال صاحب نے ملتان سے پاکستان بھر کے شہروں کا سفر کرکے ’’یگانہ‘‘ کی سیرت، ادبی معرکے‘ شاعری اور یگانہ کے فن پر نہایت عمدہ مقالہ تکمیل فرمایا ہے۔
یگانہ کا اصل نام مرزا واجد حسین اور تاریخی نام مرزا افضل علی بیگ تھا ابتدا میں یاس تخلص کیا بعد میں عظیم آبادی کہلانے لگے لکھنو گئے تو یگانہ ہوگئے پھر مرزا یگانہ لکھنوی لکھنے لگ گئے اور آخر کار ’’یگانہ چنگیزی‘‘ ہوگئے تقریباً 500 صفحات پر محیط یہ مقالہ لاہور کے اظہار سنز نے شائع کیا ہے، یگانہ کی رباعی دیکھئے!
ساجن کو سکھی منالو پھر سو جانا
سوتی قسمت جگالو پھر سوجانا
سوتا سنسار، سننے والا بیدار
اپنی بیتی سنا لو پھر سو جانا
تازہ ترین