• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
غذائی اجناس کا ضیاع ایک ایسا عالمی مسئلہ ہے جس پر پوری دنیا کے ماہرین سر جوڑ کر غور کر رہے ہیںکیونکہ اگر ضائع ہونے والی خوراک کو ضرورت مند انسانوں تک پہنچانے کا میکانزم بن جائے تو بھوک و افلاس کا نام و نشان مٹ جائے۔غر بت سے متعلق اعداد و شمار جمع کرنے والے عالمی اداروں کے مطابق کرہ ارض کے 925ملین انسانوں کو دو وقت کا کھانا میسر نہیں اور ہر سال ایک کروڑ 60لاکھ افراد فاقوں سے مر جاتے ہیں۔پاکستان ہنگر انڈیکس کے لحاظ22ویں نمبر پر ہے جہاں 19.3فیصد افراد کو دو وقت کی روٹی دستیاب نہیں۔دوسری طرف انسانی وسائل کے ضیاع کا یہ عالم ہے کہ برٹش انسٹیٹیوٹ آف مکینکل انجینئرنگ کے مطابق ہر سال پیدا ہونے والی غذائی اجناس کا تخمینہ 4ارب ٹن ہے جس میں سے 2ارب ٹن خوراک کسی کے استعمال میں نہیں آتی اور تلف کر دی جاتی ہے۔اس سے پہلے سویڈش انسٹیٹیوٹ فار فوڈ اینڈ بائیو ٹیکنالوجی کی رپورٹ میں بتایاگیا تھا کہ سالانہ 1.3ارب ٹن خوراک ضائع ہوتی ہے۔یونیورسٹی آف ایری زونا کے اینتھروپالوجسٹ Timothi Joney جنہوں نے غذائی اجناس کے ضیائع پر برسہا برس تحقیق کی ہے ،ان کا خیال ہے کہ خوراک کا سب سے زیادہ ضیاع امریکہ میں ہوتا ہے جہاں حکومت کو سالانہ ایک بلین ڈالر تو ان غذائی اجناس کو تلف کرنے پر خرچ کرنا پڑتے ہیں جو زائد المیعاد ہو جاتی ہیں۔امریکہ کے بعد یورپ اور پھر خلیجی ممالک میں خوراک کے ضیاع سے متعلق اعداد و شمار تشویشناک ہیں۔ہر یورپی باشندہ اوسطاً سالانہ 95سے115کلو فی کس خوراک کے ضیاع کا سبب بنتا ہے۔براعظم افریقہ کی مجموعی غذائی پیداوار 230ملین ٹن ہے جبکہ پورپی ممالک میں ہر سال 232ملین ٹن خوراک تلف کر دی جاتی ہے۔سب سہارن افریقہ ،جنوبی ایشیاء یا جنوب مغربی ایشیاء کے باشندے بھی اپنی معاشی حیثیت کے مطابق خوراک کے عالمی ضیاع میں حصہ ملاتے ہیں اور یہاں فی کس سالانہ ضیاع کی شرح 6سے 11کلو ہے۔ خلیجی ممالک میں عام دنوں میں بھی بڑے پیمانے پر خوارک ضائع ہوتی ہے لیکن ماہ رمضان کا آغاز ہوتے ہی غذائی اجناس کے ضائع ہونے کی رفتار کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔مشرق وسطیٰ کے چھ ممالک سال بھرکے فوڈ ویسٹ میں 150ملین ٹن کے اضافہ کا سبب بنتے ہیں۔متحدہ عرب امارات کے ماحولیاتی ادارے کے مطابق عموماً 39فیصد خوراک استعمال کیے بغیر پھینک دی جاتی ہے مگر ماہ صیام میں اس کی شرح 55فیصد تک پہنچ جاتی ہے۔بحرین جیسی چھوٹی سی ریاست جس کی آبادی محض 13لاکھ ہے وہاں رمضان المبارک کے دوران روزانہ 400ٹن پکا پکایا کھانا کوڑا دان میں پھینک دیا جاتا ہے۔دبئی میونسپلیٹی کے مطابق 19ویں روزہ تک 1850ٹن فوڈ ویسٹ جمع کیا جا چکا ہے۔سعودی عرب جہاں شاہ سعود یونیورسٹی کے مطابق انواع و اقسام کے پکے پکائے کھانوں میں سے 40فیصد کھانے کسی انسان کے استعمال میں نہیں آتے اور پھینک دیئے جاتے ہیں۔رمضان المبار ک میں غذائی اجناس کی شرح کس قدر بڑھ جاتی ہے اس بات کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ مکہ سٹی کونسل نے ماہ صیام کی آمد پر خصوصی انتظامات کیے اور مکہ میں 45بڑے کوڑادان نصب کیے گئے، وافر کھانا جمع کرنے کے لئے 8000اضافی مزدوروں کی خدمات حاصل کی گئیں اور مصدقہ اعداد و شمار کے مطابق صرف مکہ شہرمیں یومیہ 2000ٹن کھانا اور دیگر غذائی اجناس پھینکی جا رہی ہیں یعنی صرف مکہ میں اس ایک ماہ کے دوران 60ہزار ٹن خوراک ضائع ہو جائے گی۔ ہمارے ہاں بھی افطار پارٹیوں کا موسم پورے جوبن پر ہے،صرف لاہور شہر میں یومیہ ایک ہزار سے زائد افطار عشائیوں کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔اس کے علاوہ گھروں میں بھی افطاری اور سحری کی مناسبت سے کھانے پینے کے خصوصی انتظامات کئے جاتے ہیں۔
عام آدمی کا تصور یہ ہے کہ چونکہ اس مہینے میں کئے گئے اخراجات کا اللہ کے ہاں حساب کتاب نہیں ہوتا لہٰذا دل کھول کر خرچ کیا جائے۔اسلام نے ماہ صیام میں فیاضی اور سخاوت کی ترغیب ضرور دی ہے خواہ اس کا تعلق اپنی ذات پر خرچ کرنے کے حوالے سے ہو یا اللہ کی راہ میں دینے سے متعلق۔لیکن اسراف اور ضیاع کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔آپ اپنے دسترخوان پر دنیا جہان کی نعمتیں جمع کرنا چاہتے ہیں اور پروردگار نے آپ کو وسائل عطاء کیے ہیں تو جی بسم اللہ ضرور کیجئے لیکن خالق کائنات کی نعمتیںضائع کرنے کا حق آپ کو کسی دینی یا سماجی قانون کے تحت حاصل نہیں۔غذائی اجناس کو ضائع کرتے وقت ہم ہرگز یہ نہیں سوچتے کہ انہیں اُگانے یا بنانے پر کس قدر انسانی وسائل صرف ہوئے ہونگے؟کتنے انسانوں نے محنت کی گئی ہو گی۔مثلاً اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے FAOکی رپورٹ کے مطابق وہ غذائی اجناس جو کسی انسان کی ضرورت پوری کرنے کے کام نہیں آتیں اور کوڑا کرکٹ بن جاتی ہیں ،انہیں اُگانے کے لئے دستیاب زرعی زمین کا 30فیصد حصہ استعمال ہوتا ہے۔اگر ان فصلوں کو اُگانے پر استعمال ہونے والے پانی کا ہی حساب کتاب کر لیا جائے تو آنکھیں نم ہو جاتی ہیں یہ سوچ کر کہ ہر سال 500بلین کیوبک میٹر پانی ان غذائی اجناس کے لئے استعمال ہوتا ہے جو ہم ڈسٹ بن میں پھینک دیتے ہیں۔
وافر کھانے اور دیگر غذائی اجناس کو کسی کوڑا دان کی نذر کرنے کے بجائے ضروتمند انسانوں تک پہنچانے کے لئے دنیا بھر میں فوڈ بینک کام کر رہے ہیں جو مختلف ہوٹلوں سے کھانے پینے کی اشیاء جمع کرتے ہیں اور انہیں ناداروں تک پہنچاتے ہیں۔دنیا کے پچاس سے زائد ممالک میں فوڈ بنک کا تصور موجود ہے۔ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں اس طرح کے کئی غیر منافع بخش ادارے کام کر رہے ہیں۔ پورے بھارت میں اگر آپ کے پاس وافر کھانا موجود ہے اور آپ فوڈ بنک نہیں پہنچا سکتے تو ہیلپ لائن کے ٹول فری نمبر پر کال کریں یا ایک ایس ایم ایس کریں اور فوڈ بینک کے رضاکار آ کر کھانا لے جائیں گے۔اسی طرح اگر آپ حاجت مند ہیں اور کھانا درکار ہے تو بھی اسی نمبر پر کال یا ایس ایم ایس کریں اور تھوڑی ہی دیر میں کھانا آپ تک پہنچ جائے گا۔ہمارے ہاں اس طرح کے فوڈ بنک بنانے کی کوششیں تو بہت ہوئیں لیکن کوئی موثر ادارہ وجود میں نہ آسکا۔کیونکہ اس ادارے کو چلانے اور موثر بنانے کے لیئے رضاکاروں کی تربیت بہت ضروری ہے۔ہمارے ہاں بہت سے مخیر حضرات بھوکوں کو کھانا کھلانے کا اہتمام کرتے ہیں، ناداروں اور حاجت مندوں کی ضروریات پوری کرتے ہیں لیکن صدقہ کے بجائے صدقہ جاریہ کی سوچ ہمارے معاشرے میں موجود نہیں۔فلاحی ادارے بنائے جاتے ہیں لیکن ان کو معاشی طور پر اپنے پیروں پر کھڑا نہیں کیاجاتا۔سر گنگا رام نے اسپتا ل بنایا تو مال روڈ پر دکانیں خرید کر اسپتال کے نام کر دیں تاکہ اسے چلانے کے لیئے بار بار ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہ پڑے۔مگر ہمارے ہاں اسپتال ،ڈسپنسریاں اور دیگر فلاحی ادارے چلانے کے لئے ہر سال مہم چلانا پڑتی ہے۔اگر بیرون ملک مقیم کوئی پاکستانی وہاں قائم فوڈ بنک کا تصور مستعار لیکر یہاں ویسے ہی معیاری فوڈ بنک کا ڈھانچہ کھڑا کرنے کا بیڑا اٹھا لے اور پھر اسے اپنے پیروں پر کھڑا کر دیا جائے تو کم از کم کوئی پاکستانی بھوکا نہ مرے۔
تازہ ترین