• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عصر حاضر میں نسل انسانی کی ہوشربا مادی ترقی اور حیرت انگیز سائنسی ایجادات و کمالات کے باوجود اسلام کی مذہبی طاقت ختم نہیں ہو سکی۔ جزیرہ نما ئے عرب میں پیش کردہ پیغمبر آخر الزماںﷺ کی تعلیمات آج بھی دنیا کے ایک ارب سے زائد انسانوں کی شیرازہ بندی کر سکتی ہیں ۔ اسلام میں آج بھی اس قدر توانائی ہے کہ وہ تہذیب حاضر کی دلوں اور دماغوں کو خیرہ کر دینے والی چکا چوندے کے بالمقابل سب سے بڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔ اوراسلام کے معتقدین چودہ سو برس قبل روشن کئے گئے دئیے کی لو کے بالمقابل عصری تہذیبی و واقعاتی جگمگاہٹوں کو بھی ہیچ خیال کرتے ہیں۔ جدید عالمگیر تہذیبی اقدار کے سامنے دیگر تمام مذاہب عالم سرنگوں ہو چکے ہیں ان کی بچی کھچی مزاحمتی قوتیں بھی دم توڑ رہی ہیں لیکن ایک اسلام ہے جو حالت نشیب میں بھی برسر پیکار ہے اورکسی صورت ہتھیار ڈالنے پر آمادہ و تیار نہیں۔ اگر ہم پوری باریک بینی سے اس اندرونی قوت کا راز ڈھونڈھیں تو ہمیں پیغمبر اسلام ﷺکی فکری عظمت کے سامنے سرجھکانا پڑتا ہے جنھوں نے کمال تفکر و تدبر سے انسانی ترجیحات کا ایک سائنٹفک سسٹم قائم کر ڈالا۔انسانی فطرت و جبلت کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئےاس میں ماضی و حال کی تمام تر اچھائیوں اور سچائیوں کو کمال حکمت سے یکجا کر دیا بلکہ شعور انسانی میں ایسی لچک رکھ دی جو اسے بدلتے زمانی تقاضوں میں بلا رکاوٹ جاری و ساری رکھ سکتا ہے۔ ابدی و ہنگامی تعلیمات و ہدایات میں ترجیحات کا ایسا فکری و شعوری تعین فرما دیا کہ آنے والی نسلوں کےزرخیز ذہن تا دیران سےسیراب ہو سکیں۔ اس فکری نظام کی سب سے اہم و جاندار خصوصیت توازن و اعتدال ٹھہرا۔ عبادات و انسانی معاملات میں کچھ باتوں کو فرض قرار دیتے ہوئے دیگر کو مثبت انسانی میلانات کی صوابدید پر چھوڑ دیا۔ یوں اپنے پیروکاروں کو ایک منزل کی جانب رواں دواں کرتے ہوئے باہمی اتصال کی ایک لڑی میں پرو دیا۔’’خیر الامور اوسطھا‘‘ کی نصیحت و تلقین کرنے والے نے ’’صراط مستقیم‘‘ کو اس امہ کی راہ قرار دیا اور یہ ابدی ہدایت نامہ بھی جاری فرما دیا کہ بیچ کی راہ چلتے ہوئے تم لوگوں کو ’’جہاں کہیں حکمت دانائی دکھائی دے، فوراً اسے اپنا ہی گمشدہ مال سمجھ کر تھام لینا‘‘۔ انسانیت کے اس ہادیﷺنے اپنی تعلیمات میں جس طرح ماضی کے حوالے سے کسی تعصب کو قریب نہ پھٹکنے دیا اسی طرح مستقبل کے تقاضوں میں کسی نوع کی تنگی و تحفظات کا راستہ روک دینا چاہا۔عاجزی کے اس پیکر نے مذاہب و اقوام عالم کو ساتھ جوڑتے ہوئے انہی کی اولوالعزم ہستیوں کے گیت گائے اوران کی سچائیوں کے سب سے بڑے تصدیق کنندہ بن کر کھڑے ہو گئے اوراپنے ما ننے والوں کی نظر میں مستقبل کے انسانی شعور، آزادیوں اور حقوق کے سب سے بڑے علمبردار و پیامبر دکھائی دیئے۔ اپنے دین کو دین فطرت قرار دینے والے نے کبھی انسانی فطرت کےتحقیقی تقاضوں کی نفی نہ کی۔ ایسے ہادی کےدین کو شکست دینا آخر کیسے ممکن تھا؟ دنیا کی کون سی ایسی طاقت تھی جو ایسی انسان نواز تہذیبی تعلیمات کو انسانوں میں سرایت کر جانے سے روک سکتی؟ سو یہ دین اندر ہی اندر دنیا کے لاکھوں کروڑوں انسانوں کے دلوں اور دماغوں کو مسخر کرتا چلا گیا جو کام بادشاہوں کا اقتدار نہ کر سکا وہ بے نفس درویش صوفیوں کے دلوں کو موہ لینے والے اخلاق و کردار نے کر ڈالا، اس لئے کہ پیغمبر اسلامﷺ کے اپنے کریمانہ اخلاق و کردار سے ہی دنیا والوں کے سامنے اسلام کے معنی ہی امن و سلامتی قرار پائے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس قدر جاندار نظریۂ حیات ہونے کے باوجود وہ کیا اسباب ہیں جن کے کارن آج کا مسلمان حالت نشیب میں ہے اور تہذیبی جنگ جیتنے کی پوزیشن میں آتا دکھائی نہیں دیتا۔ہمارے مطالعہ و مشاہدہ کے مطابق اس کی سب سے بڑی وجہ مسلمانوں کا توازن و اعتدال کو چھوڑ دیناہے جس کی وجہ سے ان کی ترجیحات کا نظام بکھر کر رہ گیا ہے۔ توازن و اعتدال کی شاہراہ مستقیم کو چھوڑنے کا نقصان یہ ہوا کہ مسلمان مختلف النوع گروہوں میں بٹ گئے ۔ علمی و فکری اختلافات جس قدر باعث رحمت ہو سکتے تھے، فرقہ پرستانہ اور گروہی تعصبات اسی قدر ان کیلئے باعث زحمت ہیں۔جن میں مبتلا ہوکر انسانی فطرت کی باریکیوں کو سمجھنا اور دین کی فکری و نظری ترجیحات کا تعین کرنا تو دور کی بات ہے ہمیں تو ’’معروف‘‘ اور ’’منکر‘‘ کے بدلتے زمانی تصورات کا بھی شعور و ادراک نہیں رہا ۔اس کے باوجود ہم رونا روتے ہیں کہ مسلمان معاشروں میں جمہوریت کیوں پھل پھول نہیں رہی؟ اختیارات کی مستحسن انتظامی تقسیم کیوں نہیںہو رہی ہے؟ مضبوط عدلیہ اپنا وجود کیوں نہیں منوا رہی؟ ہم اکیسویں صدی میں بھی کیوں شخصیات کے محتاج اور مرہون منت ہیں؟ جب توازن و اعتدال کی راہ کو چھوڑ دیا جاتا ہے تو اس کا نقصان صرف یہی نہیں ہوتا کہ قومی ترجیحات کا تعین نہیں ہو پاتا، بلکہ ملی یکجہتی کا شیرازہ بھی بکھر جاتا ہے۔ پوری قوم نان ایشوز میں الجھ کر رہ جاتی ہے۔ ایسے ہی ماحول میں ہمارے اندر وہ شدت پسند تحریکیں اٹھ رہی ہیں جو بظاہر مذہبی اصلاح کا نعرہ لگاتی ہیں لیکن فی الحقیقت متشدد ہوتی ہیں ۔ یہ متشدد گروہ خود کو مثالی مسلمان کے روپ میں پیش کرتے ہیںاورظا ہر ی و نما ئشی علا متوں کی شدید پابندی سے وہ خود کو عامۃ المسلمین سے مختلف دکھانا چاہتے ہیں۔ مخصوص مذہبی فروعات کو وہ اصول دین سے بھی آگے لے جانا چاہتے ہیں۔وہ اپنے تئیں وہ دین کی نشاۃ ثانیہ کر رہے ہوتے ہیں لیکن درحقیقت ان کا سارا زور مخصوص اور نمائشی تراش خراش پر ہو تا ہے۔ اس طرح گروہ بالعموم مذہبی ذہن کے لوگوں کو ساتھ ملانے اور اپنا ہمدرد بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن عامۃ المسلمین ان سے ایک انجانا سا فاصلہ محسوس کرنے لگتے ہیں اور وقت کے ساتھ یہ فاصلہ بجائے کم ہونے کے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ تاوقتیکہ کوئی اندرونی یا بیرونی قوت اٹھتی اوراس شدت پسند تحریک یا گروہ کا خاتمہ کر دیتی ہے لیکن اس کی قیمت بہرحال مسلم امہ کو چکانا پڑتی ہے انہی کے وسائل کا ضیاع ہوتا ہے جو انسانی وسائل امہ کی قوت کا باعث بن سکتے تھے۔ وہ اس کے ضعف کی دلیل ثابت ہوتے ہیں۔ جن قوتوں کو راہ اعتدال پر لگا کر اسلام کی آبیاری کا باعث بنایا جا سکتا تھا شدت پسندگروہ انہی قوتوں کو غلط طور پر استعمال کرتے ہوئے اسلام کے خلاف منافرت اور اندرونی طور پر خود مسلمانوں میں تفرقہ جذباتیت اور مایوسی کا باعث بنتے ہیں۔ مسلم امہ میں شدت پسند نظریات پر مبنی ایسی تحریک کا پہلا ظہور خوارج کی صورت میں سامنے آیا تھاجن کے بعد چودہ پندرہ صدیوں پر محیط اسلامی تاریخ میں ایسے بہت سے گروہوں اور تحریکوں کا اس تناظر میں مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ہم نا م لئے بغیر عصر حاضر میں اٹھنے والی تمام شدت پسند مذہبی تحریکوں کو انہی کا نیا ظہور خیال کرتے ہو ئے یہ سمجھنے پر مجبور ہیں کہ یہ تحر یکیں در حقیقت مسلمانوں کے لئے تر قی نہیں بلکہ تنزل کا باعث ہیں۔
تازہ ترین