• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگرچہ مختار رانا کی موت کا چرچا تو نہیں ہوا۔ ایک آدھ اخبار نے ہی خبر دی ہے لیکن مختار رانا کون ہے۔ کیا تھے شاید ابھی یہ تعارف کرانے کی ضرورت نہیں۔ خبر صرف اتنی ہے کہ مختار رانا بدھ کو طویل علالت کے بعد وطن سے دور بہت دور لندن میں انتقال کر گئے جہاں ان جیسے اور بہت سے باغی خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کا شمار ان انقلابی رہنمائوں میں ہوتا تھا جنہوں نے پاکستان میں مزدور تحریک کی نہ صرف بنیاد رکھی بلکہ ضروری اور پسماندہ طبقوں کے حقوق جدوجہد میں صف اول میں شامل ہے۔ انہوں نے سیاسی جدوجہد کا آغاز کراچی میں ٹیکسٹائل ملز ورکرز کے حقوق کے لئے تنظیم قائم کر کے کیا تھا۔ یہ ایوب خان کے دور کی بات ہے جب کراچی میں بائیں بازو کی طلباء تنظیم کا بڑا چرچا تھا۔ ان دنوں معراج محمد خان، علامہ علی مختار رضوی، سید سعید حسن اور ان کے ساتھیوں کو صوبہ بدر کیا گیا اور سید حسن ناصر کو گرفتار کرکے لاہور قلعہ میں تشدد کر کے مار دیا گیا۔ سید حسن ناصر کا تعلق حیدر آباد، کے نواب خاندان سے تھاجب ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تو بہت سے ایسے نوجوان اس جماعت میں شامل ہو گئے جو اس وقت ایشیا سرخ ہے کے نعرے لگا رہے تھے اور خاصے محترک تھے ان میں شیخ رشید، امان اللہ خان، رئوف طاہر، معراج محمد خان، مختار رانا، سید سعید حسن بھی شامل تھے اس وقت معراج محمد خان اور طارق عزیز کی جوڑی بڑی مشہور ہوئی انہوں نے شہر شہر جا کر انتخابی تقاریر کیں اور جناب بھٹو نے معراج محمد خان کو اپنا سیاسی جانشین بھی قرار دیا۔ جناب مختار رانا کراچی سے فیصل آباد آ گئے جہاں انہیں لائلپور پیپلز پارٹی کا صدر بنایا گیا۔ 1970ء کے انتخاب میں وہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور معراج محمد خان کو تو وفاقی وزیر مملکت بھی بنایا گیا لیکن پیپلز پارٹی میں زمینداروں، جاگیرداروں کو یہ انقلابی کارکن پسند نہ تھے اور ان کی سوچ سے اتفاق نہ تھا پنجاب میں تو ابتداء سے ہی پارٹی میں صدر صوبہ شیخ رشید اور سیکرٹری جنرل مصطفیٰ کھر کے دو دھڑے بن گئے اور شیخ رشید اور مختار رانا تو پرانے کامریڈ ساتھی تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو مزدوروں اور غریبوں کے ساتھ ناانصافی قبول کرنے کو تیار نہ تھے۔ خصوصاً صوبہ پنجاب میں ملک غلام مصطفیٰ کھر ایسے تمام کارکنوں سے نجات حاصل کرنا چاہتے تھے اس وقت ملک میں سول مارشل لاء نافذ تھا جناب مختار رانا کو گرفتار کر کے انہیں ملٹری کورٹ کے ذریعہ سزا دے دی گئی۔ ان کی خالی نشست پر ان کی بہن زرینہ رانا نے آزاد رکن کی حیثیت سے انتخاب میں حصہ لیا۔ بھٹو دور کے خاتمہ کے بعد 1977ء میں مختار رانا پہلے سویڈن اور اس کے بعد سعودی عرب آ گئے لیکن ورکروں کی حمایت کے الزام میں انہیں نوکری سے نکال دیا گیا۔ لندن میں قیام کے دوران انہوں نے انسانی حقوق کی جدوجہد کے حوالے سے ایک تنظیم قائم کی جس میں پروفیسر امین فضل بھی شامل تھے جو اسلامیہ کالج سول لائنز میں انگریزی کے استاد تھے لیکن ضیاء الحق دور میں انہیں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں وہ بھی لندن چلے گئے۔ امان اللہ خان لندن میں مقیم ہیں۔ مختار رانا اس ’’جلا وطنی‘‘ کے دوران کئی بار پاکستان آئے اور اپنی تنظیم کے سیمینار بھی کرائے۔
کوئی پانچ سال قبل میں اپنے دفتر کی سیڑھیاں چڑھ رہا تھا اور وہ مرحوم ارشاد حقانی سے ملاقات کر کے ان کے کمرے سے باہر نکل رہے تھے کہ سیڑھیوں پر ان سے اچانک ملاقات ہو گئی۔ مختار رانا صاحب اسی روز واپس جا رہے تھے۔ سیڑھیاں اتر کر ہم نے ایک دوسرے کی خیر خیریت دریافت کی جناب رانا نے مجھے اپنی تنظیم کی کارکردگی اور کامیابیوں سے آگاہ کیا۔ بعد میں انہوں نے لندن سے اپنا لٹریچر بھی بھیجا۔ یہ میری ان سے آخری ملاقات تھی ....اس جہان فانی میں موت کوئی عجوبہ نہیں جو آیا ہے اس نے واپس جانا ہے لیکن عظیم ہیں وہ لوگ جنہوں نے زندگی کو ایک مشن اور مقصد بنایا ہے اور اس کے لئے ساری عمر جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ اصولوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا اور کسی بھی آمر کے سامنے نہیں جھکے۔ کامریڈ مختار رانا کی زندگی بھی ایک جدوجہد سے منصوب ہے جس بات کو سچ اور درست جانا اس پر چٹان کی طرح کھڑے ہو گئے۔ ان کی فکر سے لاکھ اختلاف سہی لیکن ان کے کردار پر انگلی نہیں اٹھائی جا سکتی۔ ان کا دامن اجلا تھا اور اجلا کفن پہن کر ہی دنیا سے رخصت ہوئے۔ اگر وہ پیپلز پارٹی میں ’’قبضہ گروپ‘‘ سے سمجھوتہ کر لیتے، جاگیرداروں، زمینداروں کے ساتھی اور حامی بن جاتے تو وزیر سفیر مشیر بننا ان کے لئے کوئی مشکل نہ تھا لیکن ایسا نہ کیا بلکہ اپنوں کے ہی ہاتھوں قید ہو گئے۔ جب پیپلز پارٹی قائم ہوئی تھی تو اس وقت ایوب آمریت تو تھی ہی پنجاب میں نواب کالا باغ کی دہشت موجود تھی اور بڑے بڑے طرم خان ان کے خلاف پارٹی میں شامل ہونا تو دور کی بات زبان کھولنے کو بھی تیار نہ تھے۔ آج ہر کوئی پیپلز پارٹی کا بانی رکن ہونے کا دعویٰ کرتا ہے لیکن اس وقت تاسیس کنونشن میں صرف 55یا 56افراد شامل تھے اور وہی بانی رکن کہلاتے ہیں۔ پارٹی کے قیام کے بعد ہی ’’بہت سے لوگ‘‘ پارٹی چھوڑ گئے۔ صاحبزادہ احمد رضا قصور نے فارورڈ بلاک بنا لیا۔ ملک نوید ان کے سیکرٹری جنرل تھے اور ملک حامد سرفراز، خرم واسطی، سرور اقبال غازی، قدرت اللہ، لاء ڈسٹرکٹ بار کے صدر ملک اسلم حیات پارٹی چھوڑ گئے۔ کہتے ہیں کہ سازش یہ تھی کہ جناب بھٹو کو سیاسی طور پر تنہا کر دیا جائے لیکن جو لوگ بھٹو کے ساتھ کھڑے رہے ان میں مختار رانا صف اول میں شامل تھے۔ اگرچہ انہیں پارٹی سے خارج کر دیا گیا لیکن وہ بھٹو صاحب کی فکر و فلسفہ کے حامی رہے۔ دکھ تو اس بات کا ہے کہ ان کی موت کی خبر صرف ایک انگریزی اخبار کے علاوہ کسی اور اخبار نے شائع نہیں کی جبکہ ابھی ایسے بہت سے لوگ زندہ ہیں جنہوں نے ’’پاکستان ٹائمز‘‘ پر قبضہ کا واقعہ دیکھا ہے جس کی قیادت مختار رانا کر رہے تھے اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بھٹو بھی خود وہاں گئے وہ ایک عہد تھا جو خاموش ہو گیا۔ ان پر مولانا محمد علی جوہر کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
رکھ لی میرے خدا نے میری بے کسی کی لاج
مارا غیار دیار میں مجھ کو وطن سے دور
تازہ ترین