• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بے نظیر بھٹو کا دوسرا دور حکومت تھا، آصف علی زرداری حسب سابق بے نظیر کے شوہر اور مردِ اول کے منصب پر فائز تھے۔ اب وہ سیاست کے کاروبار میں بڑے مشاق اور طرار ہوچکے تھے۔ دوسری طرف پنجاب جو سیاست کے کاروبار میں زیادہ نفع بخش میدان ہے وہاں پر پنجاب کی حالیہ تاریخ کے تین ذہین ترین کردار اقتدار میں شریک تھے اور ایک دوسرے کے حریف بھی۔ چوہدری الطاف حسین گورنر تھے، جناب منظور وٹو وزیراعلیٰ اور خوش اطوار حنیف رامے صوبائی اسمبلی کے سپیکر، صوبے میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (چٹھہ) کی اتحادی حکومت تھی، اگرچہ واحد اکثریتی پارٹی مسلم لیگ نواز تھی لیکن چٹھہ کے صرف اٹھارہ ووٹ فیصلہ کن ثابت ہوئے، یہی اٹھارہ ووٹ تھے جن کی مجبوری نے چٹھہ گروپ کے منظور وٹو کو وزیراعلیٰ بنا دیا۔ منظور وٹو ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ بڑے محنتی اور اچھے منتظم بھی تھے، وہ چھوٹی سی اقلیت کے سہارے وزیراعلیٰ بنے مگر صوبے میں پیپلزپارٹی کے وزراء اور مرکزی حکومت کی ایک نہ چلنے دیتے، صوبے میں پولیس اور اور شہری انتظامیہ پر پوری گرفت، ان کے تقرر و تبادلے میں مرکز کی مداخلت کو قبول نہیں کرتے تھے، ان حالات میں بے نظیر بھٹو نے اپنے ترکش میں موجود تیروں میں سب سے سیدھا اور تیزرفتار تیر پنجاب کی طرف چلا دیا اور یہ تھے جناب چوہدری الطاف حسین جنہیں پنجاب میں گورنر نامزد کیا گیا تھا،موجودہ دور میں ان کی ٹکر کا کوئی سیاستدان نہیں تھا۔
پنجاب اسمبلی کا بجٹ اجلاس جاری تھا، راقم اسمبلی کی گیلری میں کارروائی دیکھ رہا تھا، صوبائی اسمبلی کے اسپیکر محمد حنیف رامے اجلا س کی صدارت کر رہے تھے، اسمبلی کا ایک ملازم گیلری میں آیا اور بولا کہ گورنر صاحب آپ کو یاد کر رہے ہیں، ان کا پیغام ہے کہ ابھی چلے آئیے، چوہدری الطاف حسین بے تکلف تو تھے ہی مگر ان کے ساتھ دوستی میں گاڑھی چھنتی تھی، اس لئے فوراً ہی روانہ ہو گیا۔ وہ سامنے کے لان میں کسی مولوی نما شخص سے ہمکلام تھے، انہوں نے دیکھتے ہی مولوی صاحب کو رخصت کیا اور بغیر کسی تمہید اور رکھ رکھائو کے بولے ’’چوہدری یہ کام آپ ہی کر سکتے ہو، آج ہی زیادہ سے زیادہ کل صبح تک۔‘‘ فرمائیے کام کیا ہے؟ بس پندرہ ایم پی اے درکار ہیں ،چاہے مسلم لیگ (چٹھہ) کے ہوں یا مسلم لیگ(نواز) کے۔ کچھ سن گن تو تھی کہ پیپلزپارٹی وزارت اعلیٰ ہتھیانے کے چکر میں ہے مگر اتنی جلدی اس کا اندازہ نہ تھا، اس وقت تک وزیراعظم کے اصرار پر بھی حامد ناصر چٹھہ وزیراعلیٰ کو بدلنے کیلئے تیار نہیں تھے۔ حالانکہ بے نظیر چٹھہ صاحب کو وزارت اعلیٰ سنبھالنے کی پیشکش کر چکی تھیں مگر وہ نہیں مانے۔ عرض کیا، ایم پی اے چاہئیں مگر کس لئے؟ گورنر بولے، پرسوں بجٹ پاس کرنے کیلئے ووٹنگ ہوگی، اگر بجٹ پاس نہ ہو سکے تو وزیراعلیٰ کو استعفیٰ دینا پڑے گا، عرض کیا سارے ووٹ تو پی پی کے ہیں ان کی مرضی کے بغیر صرف اٹھارہ ممبران تو بجٹ منظور نہیں کر سکتے؟ کہنے لگے اگر مسلم لیگ(ن) نے وٹو کی تائید کرتے ہوئے ان کے حق میں ووٹ دیا تو بجٹ پاس ہو جائے گا اور اس کے ساتھ وزارت اعلیٰ اور منظور وٹو دونوں نواز شریف کو پیارے ہو جائیں گے۔ صرف پندرہ ووٹ ہمارے ہاتھ آ جائیں تو وہ یقیناً اکثریت سے محروم ہو جائیں گے، عرض کیا دیکھتا ہوں مگر وزیراعلیٰ کون ہوگا؟ بولے، رحیم یار خان کے مخدوم الطاف، کہا حنیف رامے ہوں تو آسانی رہے گی، کہنے لگے میرا وعدہ ہے صرف دو مہینے، پھر حنیف رامے ہی وزیراعلیٰ ہوں گے۔ گورنر ہائوس سے اسمبلی واپس آیا، جہاں اجلاس ابھی جاری تھا، کچھ قریبی دوستوں کو اجلا س سے باہر بلوایا، ساری صورتحال ان کے سامنے رکھی، وہ ساتھ دینے پر آمادہ تھے مگر شرط وہی تھی کہ حنیف رامے وزیراعلیٰ ہوں تو وہ تیار ہیں اور ہر طرح ساتھ نبھائیں گے، ان میں زیادہ تعداد آرائیں برادری کے ممبران کی تھی، انہیں بتایا کہ گورنر کہتے ہیں کہ صرف دو مہینے کیلئے مخدوم الطاف کو قبول کر لیں، میرا یہ وعدہ ہے کہ اس کے بعد حنیف رامے کو وزیراعلیٰ بنا دیا جائے گا۔ ممبران نے کہا چوہدری الطاف حسین کی بات مان بھی لیں تو بے نظیر اور زرداری کی ضمانت کون دے گا؟ رات کے پہلے پہر گورنر سے دوبارہ ملاقات ہوئی، اس رات گورنر ہائوس میں ممبران اسمبلی کے اعزاز میں عشائیہ بھی تھا، چوہدری الطاف صاحب سے کہا کہ ممبران ساتھ دینے کو تیار ہیں لیکن ان کا اصرار ہے کہ وزیراعلیٰ اسپیکر کو بنایا جائے، اب آپ رامے پر صاد کیجئے، رات کی رات میں بازی پلٹ جائے گی، ویسے بھی رامے خوش اطوار، خوش وضع، معزز، شریف اور ممبران میں مقبول ہیں۔ بولے یہی تو مشکل ہے، مگر اس میں مشکل کیا؟ سمجھو ناں بھائی، خود کہتے ہو وہ معزز اور شریف ہے، پہلے بھی وزیراعلیٰ رہ چکا، آج اسپیکر ہے، پھر بھی اپنا گھر نہیں چلا پایا، ایماندار آدمی مرکز برسراقتدار طبقے کے مطالبات پورے نہیں کر سکتا، عرض کیا پھر وٹو بھی تو مطالبات پورے کرتےہوں گے؟ ہٹانے کی ضرورت کیا ہے؟ یہ طبقہ خود کتنا کماتا ہے۔ تم کیا جانو، مگر ادھر دینے میں ہاتھ نہیں کھولتے۔ ابھی یہ بات جاری تھی کہ اسپیکر اور اسمبلی ممبران کی ایک بڑی تعداد گورنر ہائوس پہنچ گئی، گورنر بولے، اچھا آپ حنیف رامے سے کہئے کہ وہ کسی نہ کسی طرح بجٹ پر ووٹنگ ایک دن کیلئے ملتوی کر دیں تاکہ میں اسلام آباد والوں کو سمجھا سکوں۔ لان میں کھڑے کھڑے رامے صاحب کو علیحدہ لے جا کر ساری بات سنائی، وہ تھوڑے پرجوش ہوئے لیکن ایک دن کیلئے ووٹ مؤخر کرنے پر آمادہ نہ تھے، یوں بیل منڈھے نہ چڑھی۔ بعد میں منظور وٹو صاحب کو ہٹانے کیلئے چٹھہ صاحب کو ہموار کرلینے کے باوجود کافی پاپڑبیلنے پڑے تھے۔
جہاں اقتدار سے خوفزدہ رہنے کی روایت اتنی پختہ ہو کہ 260کے ایوان میں صرف اٹھارہ ووٹ رکھنے والے وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد نہ کیا جا سکے باوجودیکہ مرکزی حکومت ہاتھ میں اور اٹھارہ ممبر رکھنے والی پارٹی کا مرکزی صدر بھی پیپلزپارٹی کی مدد پر آمادہ ہو، تب بھی اس کو ہٹانے کیلئے آئینی شق کا سہارا لینا پڑے۔ اسی طرح آج کے سیاسی حالات میں جن لوگوں کو خیال ہے کہ ایوان کے اندر سے تبدیلی آسکتی ہے یا پیپلزپارٹی، تحریک انصاف کے ساتھ مل کر کوئی احتجاجی تحریک چلائے گی، جس کا نتیجہ موجودہ حکومت کا خاتمہ یا نئے انتخابات کا انعقاد ہو، ایسا سوچنے والے دانشور پرلے درجے کے سادہ لوح اور پاکستانی سیاست کی حرکیات سے بالکل نابلد ہیں۔
جمعہ کے دن وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خاں نے اپنی پریس کانفرنس میں سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اپوزیشن رہنمائوں کو بے نقط سنائیں، پھر بھی ؎
کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا
چوہدری نثار کی پریس کانفرنس نے تحریک انصاف کے ساتھ پیپلزپارٹی کے عارضی یارانے کا عقدہ حل کر دیا کہ یہ ایک ایسی چال ہے جس کا سہارا لے کر حکومت پر دبائو ڈالا جائے کہ وہ ان کی دُکھتی رگوں سے ہاتھ اٹھا لے(جن کا ذکر وزیر داخلہ کافی وضاحت سے کر چکے ہیں) تو ’’پلڑا‘‘ فوراً ہی دوسری طرف جھک جائے گا اور ہمارے دیرینہ رفیق اعتزاز احسن تنہا شور مچاتے رہ جائیں کہ ؎
ساغر کو میرے ہاتھ لینا کہ چلا میں
بہرحال سابق اور موجودہ وزرا داخلہ کو بڑے اور اہم فیصلے کرنا ہیں، دیکھئے پہلا قدم کون اٹھاتا ہے۔ چوہدری نثار بجا طور پارٹی کے اندر اور باہر آنکھ دکھانے کے اہل ہیں اس لئے کہ سب کے ’’کرتوتوں ‘‘کی پوٹلی ان کے پاس دھری ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں آج اسمبلی میں موجود سیاستدانوں میں وہ سب سے زیرک سیاستدا ن ہیں، جو دبنگ ہونے کے ساتھ ساتھ اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کی اعلیٰ صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ سب کی فائلیں ان کے پاس ہیں اور ان کی؟ ہے ہی نہیں۔
چوہدری نثار کی طرف سے مناظرے کا چیلنج ایسا وار ہے، جوں کسی اناڑی باکسر کے منہ پر محمد علی نے پنچ دے مارا ہو۔


.
تازہ ترین