• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عیدے آزادی کی آمد ہے۔اسلام آباد نے ہلکی پھوارمیں سبزے کی چادر اوڑھ لی ہے۔مارگلہ کی چھت پر چھائے مانوس سے سرمئی بادل جن سے مجھے اپنائیت کی خوشبو آرہی ہے،ہوسکتا ہے کہ گوتم بدھ نے اپنی یاترا میں یہیں کہیں بیٹھ کر نروان کی جستجو میں تپسیاء کی ہو۔مگر کیا کروں میرے اندر کا موسم مجھ سے کچھ اور ہی تقاضا کررہا ہے۔میرے وطن میں جہاں دشمنوں نے ناعاقبت اندیش لوگوں کے ساتھ مل کر بارود سے آتش و آہن کا کھیل کھیلنے کی کوشش کی تو وطن عزیز کے کڑیل جوان بہادرمردوزن ایک عزم صمیم کے ساتھ ان کے سامنے ڈٹ گئے۔ضرب عضب رب ذوالجلال کے غضب کی شکل میں دہشت گردوں کو نیست و نابود کرنے پر معین ہے۔ایسے میں مارچ کی صدا بلند ہورہی ہے۔ایک طرف ہم یوم آزادی او ر عید سعید کی طلب میں ہیں تو دوسری طرف نہ جانے کیوں انجانے خطرات کے بادل سر پر منڈلاتے دکھائی دیتے ہیں۔سیدنا حضرت عمرفاروق ؓنے کیا خوبصورت بات کی کہ ’’آدمی کو کبھی بدفطرت اور بدنیت انسان کو اپنا مشیر نہیں بنانا چائیے‘‘مہذب زبان میںاسےخوشامدی اور چاپلوس کہتے ہیں۔آج اگر حکومت محض ایک سال گزرنے کے بعد تنقید کی شدید زد میں ہے اور اپوزیشن اسے ناکام حکومت تصور کررہی ہے تو اس میں خرابی صرف ان چاپلوس مشیروں کی ہے جو دن رات حکمر ا نوںکے گرد منڈلاتے رہتے ہیں اور ان کو کبھی درست مشورہ نہیں دیتے۔جب بھی کوئی خوش قسمت کسی اچھے منصب پر متمکن ہوتا ہے تو یہ فصلی بٹیرے اس کے گرد آپہنچتے ہیں۔تاریخ بتاتی ہے کہ سارےشہنشاہ درجہ بدرجہ اچھے لوگوں کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔ کہیں یہ درباری تو کہیں علمائے سوُ کہلائے۔جو حکمرانوں سے صرف وہی بات کرتے ہیں جو وہ سننا چاہتے ہیں۔ظاہر ہے خوشامدانسان کی فطری پسند ہے۔ خود تعریفی، خودپسندی انسان کی کمزوری ہے۔مگر خوش بخت ہیں وہ لوگ جو ایسے خوشامد ی لوگوں کے شر سے بروقت خبردار ہوجاتے ہیں۔حضرت مجددالف ثانی جب بادشاہ کے روبرو تھے تو سجدہ کا حکم ہوا ،آپ نے فرمایا سجدہ غیر اللہ کے لئے نہیں۔تو قاضی نے جواب دیا کہ سجدہ تعظیمی بادشاہ کے لئے جائز ہے۔میں کوئی مفتی یا قاضی تو نہیں کہ اس کے شرعی احکام پر بات کروں لیکن حق حق ہے۔حق آتا ہے تو باطل مٹ جاتا ہے،فنا ہوجاتا ہے۔نہ جانے کیوں رات کے پچھلے پہر نشریاتی ادارے ڈاکٹر قادری کا یہ ارادہ سب پر منکشف کررہے تھے کہ یوم شہدا یوم انقلاب بن سکتا ہے ۔اس تازہ مزاح کی وجہ شاید وہ لنگڑالولا مقدمہ ہے جو ان کے خلاف تھانہ داتا دربار میں محرر نے حسب حکم حاکم وقت اپنے قلمی و دستخطی درج کیا! جناب آئی جی صاحب ! ایک صوبے کی قلم رو کے بعد آپ اسی نشست پر رونق افروز ہیں ۔جہاں کبھی مسٹر بینیٹ اور خان قربان علی خان جیسے جابر انسپکٹر جنرل کر و فر کے ساتھ رونق افروز ہوتے تھے اوراہالیان پنجاب پر ظلم و قہر بن کر ٹوٹ پڑتے تھے۔کیا آپ بطور صوبے کے پولیس چیف حکومت کو مشورہ نہیں دے سکتے تھے کہ ایسے نازک موقع پر کینیڈین پلٹ علامہ کے خلاف مقدمہ قائم کرکے انہیں مظلوم بننے کا موقع مل جائے گا۔کیا یہی ایف آئی آر 14اگست کے بعد درج نہیں ہوسکتی تھی؟آپ کی سادگی پر قربان جانے کو جی چاہتا ہے۔بھول گئے نہ میرے قاری محترم! ابھی پچھلے ہفتے تو میں نے انگریز ایس ایس پی کی ناک کٹنے کا واقعہ آپ کو سنایا تھا۔اسی بینیٹ کی ٹوپی پاکستان کی عظیم مجاہدہ تحریک پاکستان کی معزز کارکن نے سول سیکریٹریٹ کے احاطے میں اچک لی تھی۔آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ پولیس فور س کا مورال بلند کرنے کے لئے اقدامات کریں ۔بطور آئی جی صوبے کے چیف ایگزیکٹیو کو وہ مشورہ دیں جس سے ماڈل ٹاؤن جیسا واقعہ دوبارہ نہ ہو۔ وگرنہ علامہ قادری تو انتشار پھیلانے پر مستعدہیں۔گزشتہ شام جس انداز میں پولیس فورس کے خلاف علامہ کے ڈنڈابرداربرسر پیکار نظر آرہے تھے ۔اس کی پوری دنیا میں کہیں نظیر نہیں ملتی۔باوردی اہلکاروں کو اغوا کرکے ہراساں کرنا....سبحان اللہ ...ایسا تو کبھی تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں نے بھی نہیں کیا۔ایک شخص نے جس طرح پورے صوبائی دارالحکومت کو مفلوج کیااس پر معافی کی کوئی گنجائش نہیں ۔مگر حالات کو فہم وفراست کے ساتھ وقت کی مناسبت سے حل کرنا بہتر ہوتا ہے۔
جناب خادم اعلیٰ میرے محترم وزیراعظم یہ کون لو گ آپ کو ان معاملات میں الجھارہے ہیں۔آپ کو اللہ کریم نے یہ مناصب بخشے تو آپ کو عقل و خرد سے بھی مزین فرمایا ۔جو گڑ کھانے سے مرجائے اس کے لئے زہر کیوں؟؟؟اسلام کے نام پر معصوم لوگوں کو سیاست میں گھسیٹنے والے قادری تو صرف کینیڈین حکومت کو لکھے جانے والے خط پر بلبلا اٹھے ۔یہ انقلاب کیا لائیں گے؟جو کچھ علامہ صاحب کررہے ہیں اس پر صرف ایک دہشت گردی کا مقدمہ کافی نہیں ۔لیکن مقدمے درج کرنے کا وقت درست نہیں۔
آپ حالات سنبھالیں۔یہ اس لئے کہ آپ اس ملت اور قوم کے معاملات کو سلجھانے پر مامور ہیں۔آپ کو یہ اقتدار سلطانی جمہور نے عطا کیا ہے۔آپ پر لازم ہے کہ آپ پورے پاکستان کے بارے میں مکلف ہیں۔آگے بڑھیے اور دلیل اور بڑے پن کے ساتھ روٹھے ہوئے لوگوں کو منالیجئے۔قومی سلامتی کانفرنس جیسی سرگرمی چند روز پہلے بھی کی جاسکتی تھی۔تمام سیاسی جماعتوں کے سینئر رہنماؤں کو چند ہفتے قبل بھی مدعو کیا جاسکتا تھا۔تاکہ جو دوریاں پیدا ہوگئیں ہیں انہیں ختم کیا جاسکے۔اگر عمران خان 10سیٹوں پر دوبارہ گنتی یا تصدیق کا کہتے ہیں تو آپ پورے ملک میں دوبارہ گنتی اور تصدیق کا حکم صادر فرمادیں ۔بلکہ حلقہ این اے 1سے آغاز کردیں۔ووٹوں کی گنتی اور تصدیق کے لئے الیکشن ٹربیونل کے اختیارات چیف ایگزیکٹیو کو منتقل کرنے لئے کسی آئینی ترمیم کی ضرورت ہے تو فوری اس پر حکمت عملی تیار کرلیں۔مگر وطن عزیز کو بے جا قسم کے بحرانوں سے باہر نکالیں۔پاکستان کے غیور عوام کی ترجیحات ووٹوں کی گنتی یا تصدیق نہیں بلکہ، مہنگائی، لوڈشیڈنگ اور بے روزگاری جیسے سنگین بحران ہیں۔میں کیا میری اوقات کیا،میں اپنے لیڈران ،علماء ،حکماء سب کا احسان مند ہوں گا وہ میری طرح شاید مجھ سے بڑھ کر اس ملک اور ملت سے پیار کرتے ہیں ۔آپ کی طرح ان کی تقلید میں بھی مر مٹنے والے بے انتہا ہیں۔مگر خون وہ بھی پاکستانی مسلمانوں کا بالکل جائز نہیں ۔آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ سیاسی معاملات کو انتظامی طور پر حل کریں۔دیکھئے نہ سر ونسٹن چرچل نے کیسے وقت میں انگلستان کی باگ ڈور سنبھالی،اتا ترک، چئیرمین ماؤ،ہوچی من اور میرے اور آپ کے انتہائی محترم و مکرم بابائے قوم نے کیا فرمایا۔اتحاد،تنظیم ،یقین محکم ۔مارچ در مارچ انقلاب چے معنی۔انقلاب تو 14اگست1947کو آچکا۔جب اس ارض مقدس نے ہمیں پاکستان کا بیٹا ہونے کا شرف عطا فرمایا۔میرے قائدین محترم آپ سب دردمند پاکستانی مسلمان ہیں ۔آپ مکلف ہیں براہ کرم پاکستانیوں کے ساتھ محبت ،لطف و کرم کا معاملہ کیجئے۔ وحدت ملی کو پارہ پارہ مت کریں ۔کہیں یہ نہ ہو کہ رب ذوالجلال۔ جس نے ہمیں بے پایاں نوازشوں سے نوازا اور وطن عظیم پاکستان عطا فرمایا کہیں ہماری گرفت نہ فرمائے۔رب کریم کو نعمت کی شکر گزاری اور اطاعت گزاری مرغوب ہے۔مانا کہ مسلمانوں میں کچھ کمی ہوگئی ہوگی،کوئی خامی رہ گئی ہوگی۔مگر یاد رہے یہ وہ امت ہے جو نبی آخر الزماں کی امت ہے۔جو اپنا سر رب ذوالجلال کے سامنے جھکاتی ہے۔جو کھلے ہونٹوں ،دل کی دھڑکنوں سے پاکستان کی سلامتی حفاظت کے لئے دن رات ہر وقت یہی دعا کرتے ہیںکہ
خدا کرے کہ میری عرض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
تازہ ترین