اسی فیصد پاکستانی مہنگائی ،بجلی گیس کی شارٹیج کے مسائل، تھانے کچہری اور دیگر سرکاری اداروں میں سفارش رشوت، ہسپتالوں میں صحت کی سہولیات کی عدم دستیابی کے مسائل سے روزانہ کی بنیاد پر گزرتے ہیں لیکن اس کے باوجود خوشی کے موقعوں کو بھرپور طریقے سے منانے کا جذبہ ماند نہیں پڑتا جو یقیناً قابل قدر خوبی ہے۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ خوشی منانے کا یہ جذبہ ان پر کچھ زیادہ ہی حاوی ہو جاتا ہے کہ چادر سے باہر پاؤں پھیلانے کی عادت میں مزید قرض اٹھانا، اور مسائل کے کوہ گراں کے نیچے دبتے چلے جانے میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں۔ زندگی میں پلاننگ کرنا کس چڑیا کا نام ہے ہم پاکستانیوں کو معلوم نہیں۔پاکستانی سخت جان قوم ہیں جو نہ صرف مسائل میں مسکرانے کا ہنر جانتے ہیں بلکہ اپنے مسائل اور پریشانیوں پر لطیفے گھڑنے اور خود پر ہنسنے میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں۔ سوشل میڈیا پاکستانی قوم کے اسی مزاج کا عکاس ہے لیکن کبھی کبھی ہنسوڑ پن اور جگت بازی کے حد سے بڑھے ہوئے رویے غیر مناسب لگتے ہیں کبھی زندگی کو سنجیدہ زاویے سے دیکھنا بھی ضروری ہو تا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان سانحہ پہلگام کے بعد سے شدید قسم کا تناؤ موجود ہے۔ پاکستان کے وجود کے خلاف بھارت کی ازلی نفرت کھل کر سامنے آچکی ہے پاکستان کو جنگ کی کھلی دھمکیاں دی جا رہی ہیں جبکہ بھارت کا میڈیا پاکستان کے خلاف نفرت اور زہر اگل رہا ہے۔ پاکستان اور بھارت دونوں عام ملک نہیں بلکہ ایٹمی طاقت رکھتے ہیں۔ تقسیم کے وقت سے ہی مسئلہ کشمیر سمیت کچھ حل طلب ایشوز دونوں ملکوں کے درمیان موجود ہیں۔ پاکستان بھارت کے درمیان چار جنگیں ہو چکی ہیں، ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود دونوں ملک غربت اور بے شمار مسائل کا شکار ہیں۔ بہرحال اس وقت پہلگام واقعے کے بعد سے دونوں ایٹمی ملکوں کے درمیان شدید کشیدگی پائی جاتی ہے اس صورت حال کو پوری دنیا بڑی سنجیدگی سے لے رہی ہے۔ دوسری طرف پاکستانی ٹک ٹاکرز، یوٹیوبرز اور سوشل میڈیا کنٹینٹ کریٹرز دو ایٹمی طاقت کے حامل ملکوں کے درمیان جنگی کشیدگی کی صورتحال پر لطیفے اور میمز بنا کر وائرل کر رہے ہیں۔دنیا کے سامنے اپنا مورال بلند دکھانے کیلئے کسی حد تک یہ جذبہ ٹھیک ہے۔ لیکن اس کیفیت سے نہ نکلنا اور جنگ جیسی ہولناک چیز کو اتنا ہلکا لینا اس کا مذاق اور لطیفے بنانا اور بناتے چلے جاتا کسی باشعور قوم کو زیب نہیں دیتا۔ اس سے آپ کے شعور پر سوال ضرور اٹھتا ہے جنگ صرف وہی تو نہیں جو ہم پہ مسلط ہو کیا یہ بھی بتانے کی ضرورت ہے کہ اس وقت دنیا میں کتنے ملک ایسے ہیں جہاں زندگی جنگ کے ایندھن میں راکھ ہو رہی ہے۔ یوکرائن جنگ چوتھے سال میں داخل ہو چکی ہے، جبکہ 19 مہینوں سے غزہ میں وحشیانہ جنگ جاری ہے۔ جنگ انسانی زندگیوں کو، اور ہنستے بستے شہروں کو قبرستانوں میں بدل دیتی ہے۔ تیز ترین ذرائع ابلاغ کے اس دور میں اب ہم حقیقی جنگوں کے وحشتناک مناظر، ہالی وڈ کی فلموں کے وار سین کی طرح اپنے اپنے موبائل فونوں کی اسکرین پر دیکھ سکتے ہیں۔ اس کے باوجود جنگ پر لطیفے بنانا کسی حساس اور باشعور قوم کو زیب نہیں دیتا۔ آغاز میں جنگ پر بننے والی میمز اور لطیفوں پر لوگوں نے پاکستانیوں کی بہادری اور جی داری کی بھی تعریف کی لیکن اس کا بھی ایک معیار ہوتا ہے ایک حد ہوتی ہے۔ ٹک ٹاکرز اور یوٹیوبرز کو ڈالرز کمانے کیلئے وائرل ویڈیوز بنانا پڑتی ہیں وائرل ہونے کی اس دوڑ میں جو کچھ ٹک ٹاک پر بن رہا ہے ہمارے سامنے ہے۔ حالات کا رخ دیکھ کر ٹک ٹاکرز نے پاک بھارت جنگ پر لطیفے اور میمز بنانا شروع کر دیے پھر پوری قوم ہی ان لطیفوں اور میمز کو وائرل کرنے میں مصروف ہو گئی۔حالات کا یہ رخ دیکھ کر کبھی خیال آتا ہے کہ سنجیدہ پڑھے لکھے اور باشعور لوگوں کو بھی جدید ذرائع ابلاغ کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنی سوچ کو بھی لوگوں تک پہنچا سکیں۔ سنجیدہ لوگ سوشل میڈیا سے دور رہنا اسلئے پسند کرتے ہیں کہ سوشل میڈیا کی بے چہرہ دنیا میں کوئی کہیں سے بھی اٹھ کر آپ پر گھٹیا حملہ کر سکتا ہے۔ گالم گلوچ،رکیک حملے، تمسخر اڑانا، تبصروں کے گھونسے مار کر مخالف کو ڈھانا پاکستان میں سوشل میڈیا پر یہی کلچر نظر آتا ہے۔ ایسے میں سنجیدہ لوگ سوشل میڈیا کے اس تھڑے سے دور رہنا ہی پسند کرتے ہیں۔
پاکستان میں ٹک ٹاکرز زیادہ تر جس ذہنی اور شعوری سطح کے ہیں یہ ہم سب کے سامنے ہیں۔ لفظ ٹک ٹاکر ہمارے ہاں اچھے معنوں میں استعمال نہیں ہوتا۔ اسی ٹک ٹاک پلیٹ فارم کا استعمال ملائشیا میں بالکل مختلف انداز میں ہوا، ٹک ٹاک گرو کے نام سے ایک بہت بڑا تعلیمی پلیٹ فارم بنایا گیا جس پر لاکھوں طلبہ اور استاد موجود ہیں۔ ٹک ٹاک کی چھوٹی چھوٹی ویڈیوز کے ذریعے وہ مختلف موضوعات پر شعور پھیلاتے ہیں۔ برطانیہ میں بھی ٹک ٹاک پلیٹ فارم پر کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسروں نے لرننگ کا ایک بہت بڑا پلیٹ فارم بنایا جس سے صحت نفسیات سائنس اور دیگر موضوعات پر تعلیمی مواد کی ویڈیوز بنائی جاتی ہیں۔اس پلیٹ فارم پر ہمارے ہاں سنجیدہ کام بھی ہو سکتا تھا جو نہیں ہوا۔ ہمارے ہاں بھی باشعور اور سنجیدہ افراد کو، پروفیسروں، لکھاریوں اور دیگر سماجی رہنماؤں کو سوشل میڈیا کے ایسے پلیٹ فارم پر موجود ہونا چاہیے تاکہ غیر معیاری مواد اور نری پھکڑ بازی کے متوازی ایک باشعور سوچ بھی لوگوں میں پروان چڑھ سکے۔