• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم ایک عجیب قوم ہیں۔ ساٹھ ہزار سے زائد عام شہری، جنھوں نے کوئی جنگ لڑنے کا عہد نہیں کیا تھا، دہشت گردی کی نذر ہوچکے۔ جس دوران ہلاک ہونے والوں کے پسماندگان اپنے دائمی نقصان پر اشک بار رہتے ہیں اور دیگر شہریوں کے سر بھی اسی خطرے کی تلوار لٹکتی رہتی ہے، ریاست ہمیں اپنے ’’عظیم تزویراتی منصوبے میں ہونے والا اجتماعی نقصان‘‘ سمجھتی ہے ۔ اور اس کے بعد بڑی دیدہ دلیری سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ہم ایک سخت جان قوم ہیں۔
گزشتہ ہفتے کوئٹہ بم دھماکے میں وکلا اور انسانی حقوق کے لئے لڑنے والوں کی پوری ایک نسل ختم ہوگئی۔ دھرتی کے یہ تعلیم یافتہ اور ذی فہم بیٹے اپنی جان دینے گھر سے نہیں نکلے تھے ،اُن سے زندگی چھین لی گئی۔ باز محمد کاکڑ کا سات سالہ بیٹااب اپنے باپ کوکبھی نہیں دیکھ سکے گا، ہوسکتا ہے کہ وہ دوسروں سے کہانیا ں سنے کہ اُس کے والد صاحب کس قدر دلیر اور سچے انسان تھے، لیکن کیا ہم نے اس معصوم بچے کے سامنے سخت جان بننے کے سواکوئی اور آپشن بھی چھوڑا ہے؟دراصل سخت جانی، قوت ِ برداشت اور دلیر قوم جیسے القاب ٹکسال کرکے ریاست چلانے والوں نے نہایت چالاکی سے اپنی نااہلی پر پردہ ڈال رکھا ہے ۔ یہ چالاکی کچھ قابل ِ شناخت خدوخال رکھتی بھی ہے ۔ پہلا یہ کہ اپنی ناکامی کو اتنے اعتماد سے کامیابی بناکر پیش کروکہ سانحے کا شکار ہونے والے افراد بھی ابہام کا شکار ہو جائیں کہ کہیں وہ اپنے ذاتی نقصان میں الجھ کر وسیع تر منظر کو فراموش تو نہیں کر رہے؟
اس حوالے سے کوئٹہ سانحے کے بعد ہمارے سول اور ملٹری قائدین ایک صفحے پر دکھائی دیئے۔ آئی ایس پی آر نے ہلاکتوں کی وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد خیبر پختونخوا میں شکست کھانے کے بعد بلوچستان پر توجہ مرکوز کررہے ہیں۔ سویلین حکمران نے ابہام کی مزید حدیں پھلانگتے ہوئے کہا کہ دہشت گردوں کی طرف سے نرم اہداف کا چنائو ظاہر کرتا ہے کہ اُن کے خلاف لڑی جانے والی جنگ کامیابی سے ہمکنار ہوئی ہے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بلوچستان اور خیبرپختونخوا کسی روایتی جنگ کے دو’’محاذ ‘‘ ہیں؟کیا غیر روایتی جنگ لڑنے والے گروہ ، جن کی چوتھی نسل سے ہم حالت ِ جنگ میں ہیں، نرم اہداف کو ہی منتخب نہیں کرتے ؟ کیا شہری علاقوں میں دہشت گردوں کی طرف سے وسیع پیمانے پر قتل ِعام اس بات کا ثبوت ہے کہ خیبرپختونخوا میں جنگ کامیابی سے جیتی جاچکی ؟کیا کسی اورملک میں اس بات کا تصور بھی کیا جاسکتا ہے کہ دہشت گردی کی کارروائی میں71شہریوں کی ہلاکت کے بعد سول ملٹری قیادت مل کر یہ پیغام دے کہ جو لوگ نیشنل سیکورٹی پالیسی کی اسٹرٹیجی پر سوال اٹھا رہے ہیں وہ دشمن کے ایجنٹ ہیں؟کیا دنیا کاکوئی اور ملک بھی ایسا ہوسکتا ہے جہاں ایک ہفتہ پہلے دہشت گردی میں ہلاک ہونے والے درجنوں افراد کو سپرد ِخاک کیا گیا ہو ، وہاںکے آرمی چیف کو جنگ جیتنے اور دھرتی کو دہشت گردی کے عفریت سے پاک کرنے پر فیلڈ مارشل کے عہدے پر سرفراز کرنے کی افواہیں پھیل رہی ہوں؟
اس چالاکی کا دوسرا پہلواختیار کو ذمہ داری سے الگ کرنا ہے ۔ زیادہ سے زیادہ اختیار سمیٹتے جائیں ،لیکن ذمہ داری سے پہلو تہی برتیں۔ یہ وہ مقام جہاں سول ملٹری عدم توازن دکھائی دیتا ہےلئے ۔ فوج داخلی سیکورٹی کی بھی اہم ترین ایجنسی ہے، بلوچستان شروع سے ہی اس کے کنٹرول میں ہے، اور یہ حقیقت اتنی واشگاف کہ نیشنل ایکشن پلان میں بھی کہنا پڑا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز بلوچستان حکومت کو سیاسی مفاہمت کے لئے مکمل اتھارٹی دیتے ہیں۔رینجرز نے حال ہی میں سندھ بھر میں پولیس کے اختیارات کا تقاضا کرتے ہوئے اپنے پولیس اسٹیشنز قائم کرنے کی اجازت چاہی ۔ جو افراد ان مطالبات کی مخالفت کرتے ہیں اُنہیں ریاست دشمن قراردیا جاتا ہے ۔ جہاں تک انٹیلی جنس ایجنسیوں کا تعلق ،توآئی ایس آئی اورایم آئی فوج کے زیر ِ اختیار، اور دہشت گردوں کے خلاف انٹیلی جنس کی بنیاد پر کئے جانے والے آپریشنز میں اہم ترین کردار ادا کررہی ہیں۔ یاد دلاتا چلوں،جب 1980 کی دہائی میں پاکستان نے امریکی تعاون سے افغان جہاد کی دلدل میں قدم رکھا تو یہی ایجنسیاں اُس جنگی کوشش کو مربوط کررہی تھیں۔ کیا ہماری تاریخ میںکسی مرحلے پر ان اثاثوںکو سویلین کنٹرول میں بھی دیا گیا ہے کہ وہ فیصلہ کریں کہ انہیں محفوظ رکھنا ہے ، ترقی دینی ہے ، یا ختم کرنا ہے ؟
اب ذرا نیشنل ایکشن پلان کے ان مقاصد پر غور کریںاور دیکھیں کہ اُن میں کتنوں پر سویلین اداروں کا کنٹرول تھا۔ ان مقاصد میں کالعدم تنظیموں پر ’’پابندی‘‘ لگانی، مدرسوںکو ریگولیٹ کرنا اور اُن میں اصلاحات لانا، دہشت گرد تنظیموں کا کیمونی کیشن سسٹم تباہ کرنا، پنجاب کے کسی حصے میں انتہا پسندی کوپھولنے پھلنے کا کوئی موقع نہ دینا، صوبائی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو دہشت گردوں کے کمیونی کیشن تک رسائی دینا ، وغیرہ شامل تھے ۔ کیا مقامی پولیس لشکر ِ طیبہ یا جیش ِ محمد کے دفاتر بند کرسکتی ہے؟کیا سویلین ایجنسیاں افغان طالبان اور ان کے ’’پاکستانی کزنز‘‘ کے بارے میں پالیسیاں بناتی ہیں؟تھیوری کے اعتبار سے وزیر ِ اعلیٰ پنجاب، شہباز شریف اور آئی جی پی پنجاب مریدکے یا بہاولپور میں موجودہ انتہا پسندتنظیموں کے دفاتر بند کرنے کے مجازہیں، لیکن حقائق کی دنیا مختلف ہے ۔ تھیوری کے اعتبار سے آئی ایس آئی نے وزیر ِ اعظم کو رپورٹس دینی ہوتی ہیں، لیکن 90 کی دہائی میں تھیورٹیکل رپورٹنگ کو سنجیدہ لینے کی کوشش ہر وزیر ِاعظم کو بہت مہنگی پڑی۔ تھیوری کے اعتبار سے نیشنل ایکشن پلان کے تحت ہونے والے اپیکس کمیٹیوں کے اجلاس کی صدارت وزرائے اعلیٰ نے کرنی ہوتی ہے مگر عملی طور پر سندھ میںصورت ِحال مختلف دکھائی دیتی ہے ۔
تاہم اس تجزیے کا مطلب ہمارے ’’بے دست وپا سویلین رہنمائوں‘‘ کو مکمل طور پر بری الذمہ قرار دینا ہر گز نہیں۔ بیس نکاتی نیشنل ایکشن پلان میں ایک لفظ بھی پولیس کی تنظیم نو یا داخلی چاہئےسیکورٹی ایجنسی کو بہتر طور پر فعال کرنے کے بارے میں نہیں۔ ایسا نہیں کہ ہمارے سویلین ادارے واقعی صوبوں میں موجودہ انتہا پسند تنظیموں کے نیٹ ورک کو تباہ کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ اپنے ہاتھ بندھے ہوئے پاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سول اورملٹری کے درمیان انتہا پسندی کے اس نظام کو جوں کا توں قائم رکھنے پر اتفاق موجود ہے ۔ ایک وسیع تر نکتہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں پائی جانے والی سول ملٹری تقسیم سول اور ملٹری قیادت کو ذمہ داری سے پہلو تہی کرنے کا موقع فراہم کردیتی ہے ۔ جب معاملات خراب ہوتے ہیںاور فوج کہتی ہے کہ سویلینز نااہل ہیں۔ یہ بھی یاد دلایا جاتا ہے کہ ملک کو آئین اور قانون کے مطابق چلانے کی ذمہ داری سویلینز کی ہے۔ دوسری طرف سویلین لاچارگی سے اپنے کندھے جھٹکتے ہوئے کہتے ہیں کہ حقیقی طاقت اور اختیار ’’کسی اور‘‘ کے پاس ہے ۔
اس چالاکی کا ایک اور پہلو ترجیحات کو ابہام میں رکھنا ہے۔ طاقتور ادارے کی ’’تزویراتی گہرائی‘‘ تلاش کرنے کی کوشش پاکستان کو بہت مہنگی پڑی ہے ، لیکن یہ خبط ہماری جان چھوڑتا دکھائی نہیں دیتا ۔ کوئٹہ دہشت گردی کے بعد خدشہ ہے کہ پاک چین معاشی راہداری ایک اور تزویراتی منصوبہ بن کر ریاست کے عظیم بننے کے خبط میں مجبور شہریوں سے قربانیاں طلب نہ کرنے لگے ۔ ان مبہم ترجیحات کا ایک ضمنی پہلو غیر منطقی نتائج شوئی ہے ۔ آرمی پبلک اسکول پشاور حملے سے پہلے دہشت گردی کے خلاف جنگ، تحریک ِطالبان پاکستان کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کو اسلامی دنیا کے خلاف مغرب کی سازش سے تعبیر کیا جاتا ۔ کہا گیا کہ افغانستان اور عراق کے بعد اگلی باری پاکستان کی ہے ۔ یقین دلایا گیاکہ نائن الیون سے پہلے تک تو ہمارے ہاں محبت کا زم زم بہہ رہا تھا، بس ہم ہی ’’اپنے لوگوں ‘‘ کے خلاف جنگ میں الجھا دئیے گئے ۔ چنانچہ جب بھی دہشت گردی کی کارروائی ہوتی ، ہم مغرب کو گالیاں دینے لگتے۔
اے پی ایس نے وہ منظر نامہ تبدیل کردیا، لیکن لگتا ہے کہ اب کوئٹہ دہشت گردی ہمیں واپس اُسی دور میں لے گئی ہے۔ فرق اتنا ہے کہ اس مرتبہ مغرب کی بجائے شیطانی حرکت کا ذمہ دار انڈیا قرار پایا ہے۔ سوال یہ نہیں کہ کیا انڈیا ہمارا دوست ہے یا دشمن، بات یہ ہے کہ ہم نے ملک میں ایسے حالات کیوں پیدا کررکھے ہیں جہاں دشمن ہمارے خلاف آسانی سے ساز ش کرلے یا کارروائی کر گزرے؟ فرض کرلیں کہ انڈیا ہمیں نقصان پہنچانے کی جتنی بھی کوشش کرسکے، کرے گا، تو کیا ہمیں ایسی کوشش نہیں کرنی چاہئے کہ انڈیا ہمارے شہریوں کو ہمارے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال نہ کرپائے؟
تاہم ہمارے ریاستی بیانئے کا ایک نامناسب پہلو یہ ہے کہ چونکہ فوجی قربانیاں دیتے ہیں اس لئے ان کے ادارے کی ناکام پالیسیوں کو ہدف ِ تنقید نہ بنایا جائے۔ کوئی بھی فوجیوں کی جرات، حوصلے اور دلیری سے اپنے ہم وطنوں کی خاطر جان کی قربانی دینے کی عظمت سے انکار نہیں کررہا، لیکن یہاں سوال ترجیحات طے کرنے اور ذمہ داری اٹھانے کا ہے کہ ملک کے مفادات اور شہریوں کی جانوں (جس میں فوجیوں کی جانیں بھی شامل ہیں) کا تحفظ کس طرح کرنا ہے۔ شہدا کی قربانیوں کو سلام، لیکن افسوس ہے اُن پر جو ذمہ داری اور احتساب سے بچنے کے لئے ان قربانیوں کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرتے ہیں۔

.
تازہ ترین