• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مسلم لیگ( ن) کی حکومت جس سیاسی گرداب میں ہے اسے دیکھ کر لگتا ہے نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن کی وہ کیفیت جلد آنے والی ہے،یہ حکومت ایک مسئلے سے نکلنے نہیں پاتی کہ دوسرا مسئلہ سر اٹھا لیتا ہے۔خدا جانے کس آسیب کا سایہ ہے حکومت کے ستارےمستقل گردش میں ہیں،میدان سیاست کے شہسوار سمجھے جانے والے میاں نوازشریف اب تک نازل ہونے والی سب بلائوںکو کامیابی سے ٹالتے تو چلے آئے ہیں مگر ایوان وزیراعظم میں بیٹھ کر وہ بھی اسٹیبلشمنٹ کے مسیحاؤں کوکہتے توہوں گے ۔
اک یہ بھی تو انداز علاج غم جاں ہے
اے چارہ گرو! درد بڑھا کیوں نہیں دیتے
دنیا بھر کے جمہوری ممالک سے سلطانی جمہور کے مسحورکن مناظر دھندلے مگر دکھائی دے رہے ہیں۔انہیں دیکھ کر دل میں ایک ہوک سی اٹھتی ہے کہ وطن عزیز میں جمہوریت کا ننھا منا پودا کب اور کیسے تناور درخت بنے گا ؟ یہ عاجز گزشتہ کچھ ماہ سے اس خوش فہمی میں تھا کہ پاکستان میں جمہوریت کا پودا اب تناور درخت بن چکا ہے،ملک میں سویلین بالادستی آچکی ہے،آئین و قانون سب پر مقدم ہے مگر میں غلط تھا۔جی ہاں ! میں بالکل غلط اندازے لگا کر کانوں میں خوداعتمادی کی روئی ٹھوس کر کچھ اور ہی سوچ رہا تھا۔جمہوریت اب بھی ویسی ہی لولی لنگڑی ہے، جیسی آج سے دو دہائیاں پہلے تھی۔ملک میں جمہوریت تو تب آئے گی جب ہم جمہوری اقدار و روایات اپنائیں گے۔ہمارے معاشرے میں جمہوری روئیے فروغ پائیں گے،ہماری سیاسی قیادت کے طرز عمل میں جمہوریت آئے گی اورسیاسی جماعتوں کی صفوں میں جمہوریت کا کلچر پروان چڑھے گا۔تاریخ کے جھروکوں میں جھانک کر دیکھیں تو عبر ت کے ان مٹ ہزاروں نشاں موجود ہیں ۔بے شمار تمثیلات اور انگنت مثالیں ماضی کے دریچوں سے جھانکتی نظر آتی ہیں۔ اگر اسے شاعرانہ مبالغہ نہ سمجھا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ اس بار بھی سیاستدانوں نے اپنی ناکامی خود تسلیم کی ہے۔ گزشتہ روز کیپٹن صفدر کے والد محترم جناب مرحوم اسحٰق کے جنازے میںملک بھر سے نامی گرامی شخصیات شریک تھیں۔ضلع مانسہرہ کے دور افتادہ گاؤں میں وزیراعظم میاں نوازشریف کی آمد کا پتہ چلا تو پورا ضلع ہی امڈ آیا۔جنازے کے بعد اس طالبعلم نے وزیراعظم سے حالیہ بیانات کا تذکرہ کیا تو میاں نوازشریف کہنے لگے کہ مناسب وقت پر ان سارے حالات کی حقیقت سامنے لائیں گے۔سردار مہتاب عباسی بھی تجسس سے پوچھ رہے تھے کہ اب کیا ہونے جارہا ہے؟مگر میں خاموش تھاْ۔ جناب وزیراعظم یہاں پہنچنے سے کچھ دیر قبل اسمبلی کے فلور پر جو تقریر کر کے آئے تھےاس پرمیرا اندازہ یہ تھا کہ اس پردوسرے فریق کی جانب سے زبردست وضاحت آئے گی۔مسلم لیگ (ن) کے تو سینکڑوں ارکان اسمبلی سے ملاقات ہوئی مگر ممبران کی اکثریت بظاہرخوش تھی کہ اگر آج میاں نوازشریف وضاحتی تقریر نہ کرتے تو آج ہماری جماعت نے بھی دفن ہوجانا تھا۔لیکن اگر ایسے حالات نہ بھی ہوں تو کیا جو کچھ گزشتہ دو دنوں میں یکے بعد دیگرے ہوا کیا وہ جمہوری رویہ تھا۔کیا سیاستدان واقعی اس قدر کمزور ہوچکے ہیں؟ملک کا منتخب وزیراعظم دس ہزار سے بھی کم افراد کے ہاتھوں یر غمال نہیں بنا ہو ا ہے۔
قارئین حیران ہونگے کہ کبھی کسی ادارے نے ایک دوسرے کے بیانات کی اس قدر آناً فاناً وضاحت و تردید نہیں کیں ۔جیسا گزشتہ روز دیکھنے میںآیا۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ حالات بند گلی کی طرف جاتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں ۔کسی تیسرے فریق کا موجودہ حالات میں کردار کا تو مجھے علم نہیں البتہ یہ ضرور معلوم ہے کہ ایک طرف جمعرات کی شام وزیراعظم اور آرمی چیف وزیر اعظم ہاؤس میں موجودہ حالات کو سلجھانے کے لئے محو گفتگو تھے تودوسری جانب وزیراعظم ہاؤس جو کہ شاہراہ دستور کے بائیں جانب پاک سیکریٹریٹ سے چند میٹر کے فاصلے پر ہے۔مگر شاہراہ دستور ہی پر پنجاب ہاؤس سے کچھ فاصلے پر تحریک انصاف او ر عوامی تحریک کے ایک رہنما ملک کے ایک اعلی افسر سے براہ راست ملاقات اور آنے والی منصوبہ بندی پر غور کررہے تھے۔ انتہائی ذمہ داری سے یہ سطور اس لئے تحریر کی ہیں کہ میں تمام چیزوں کا چشم دید گواہ ہوں ۔حالات کی جو بھی منصوبہ بندی جیسی بھی کی گئی ہومگر حالات یہی رہے تو وطن عزیز مزیدعدم استحکا م سے دوچار ہوسکتا ہے۔
موجودہ حالات میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا کردار قابل تحسین ہے،آپ نے جمہوریت پسند جرنیل ہونے میں تو سابق آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی کو بھی پیچھے چھوڑ دیا جو آج کل اپنی زندگی کی یادداشتوں پر ایک تہلکہ خیز کتاب لکھنے میں مصروف ہیں۔اسلام آباد پر لشکر کشی کرنے والے ایک صاحب عمران خان بھی ہیں جو شاید عقل پر پردہ ڈال کر بے ہنگم انداز میں دوڑے چلے جارہے ہیں ۔مگر خان صاحب کو معلوم ہونا چاہئے کہ سیاسی زندگی بے رحم ہے،بقول چرچل جب کوئی لیڈر اپنی عظمت کی بلندی سے پھسلتا ہے یا گرتا ہے تو لوگ بے رحمی سے اس کی تکا بوٹی کردیتے ہیں۔کہیں یہ غیور عوام آپ کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی نہ کریں۔اس لئے خدارا سنبھل جائیے۔کیونکہ طرفہ تماشا یہ ہے کہ ہمارے ہاں سیاست میں کوئی بات حرفِ آخر نہیں ہوتی۔ خدا جانے مارچ کے بعد سیاسی موم کی اٹھان کیا ہو اور ہوا کا رُخ کیا ہو۔
میاں نوازشریف اور ان کی کابینہ کے بہت سے ارکان سیاسی بساط پر شطرنج کے کامیاب کھلاڑی سمجھے جاتے ہیں۔اب تک تو ان کی سب چالیں کامیاب ہوئی ہیں ۔مگر اسٹیبلشمنٹ نے ڈاکٹر طاہر القادری کی صورت میں’’تُرپ‘‘کا جو پتہ پھینکا ہے اس کا توڑ کیسے ہوگا؟کیا پنجاب کو علامہ صاحب کے شر سے کوئی بچاپائے گا،اس کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا ۔
مگر موجودہ حالات کو دیکھتا ہوں توخیال آتا ہے کہ کیا بنے گا اس نظام کاکیا بنے گا ۔اس نظام میں توازن کا؟وہ ملک جس میں جمہوریت پسند اپنے مسائل حل کرنے کے لئے کسی دوسرے کو کردار ادا کرنے کا کہیں۔جہاں ہرمسئلے کے حل کے لئے کسی اور کو دعوت دینا پڑتی ہوں ۔پاکستان میں جمہوریت ابھی گھٹنوں کے بل چل رہی ہے۔ جمہوریت کا جہاز ہچکولے کھارہا ہے۔مگر کسی کو کچھ پروا نہیں ہے۔اورریاستی ادارے بھی آپس کی انا میں آپس میں نہ ختم ہونے غلط فہمیوں کی کو جنم دے رہے ہیں۔میری کیفیت کچھ ایسی ہے کہ میں ہچکولے کھاتے ہوئے جہاز کے عرشے پر کھڑے شکستہ بادبانوں کی اوٹ سے یہ سوچ رہا ہوں کہ میرے ملک کا کیا ہوگا؟پاکستان کا کیا بنے گا؟
تازہ ترین