• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ تو طے ہے کہ اسلام آباد کی سڑکوں پر تنبو تان کر چھائونی ڈالنے والی سپاہ آسمان سے نہیں اتری اور دونوں لشکری محض جمہوریت کے استحکام اور آئین کی بالا دستی کے لئے اسلام آباد کی سڑکوں پر جلوہ آرا نہیں ہوئے۔ مولانا طاہر القادری تو یوں بھی انتخابی عمل کے بکھیڑوں سے دامن کشائی ہی میں خیریت جانتے ہیں۔1990ء کے انتخابات میں حصہ لیا تھا اور خدا کا کرنا ایساہوا کہ ہر امید وار کی ضمانت ضبط ہو گئی۔ بہت عرصہ کے لئے یہ سبق پلے باندھ لیا کہ ذاتی تقدس ، رویائے مبارکہ اور خوش عقیدہ تابعین کا سہ گونہ نسخہ باہم کھرل کرنے سے تیار ہونے والا معجون سلیمانی انتخابی جھنجھٹ سے کہیں زیادہ فرحت بخش ثابت ہوتا ہے۔ 2002ء میں ایک نہایت با صلاحیت ، دیانتداراور صالح آمر نے انتخابات کی بساط بچھائی تو مولانا بھی اپنی دراز پلکوں میں وزارت عظمی کی جھلک سجائے شریک ہوئے۔ ایک نشست آپ کے حصے میں بھی آئی۔ ملک میں سیاہ و سفید کا مالک بھلے فوجی حکمران ہی کیوں نہ ہو، ایک نشست کے بل پر وزارت عظمی ہاتھ نہیں آتی۔ چنانچہ حضرت قادری نومبر 2004ء میں ایک طویل استعفیٰ رقم کر کے کینیڈا تشریف لے گئے تھے۔ تقریر ہو یا تحریر، طوالت کلام میں مولانا کا ثانی نہرسویز کے اس طرف پیدا نہیں ہوا۔ مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا۔ ہمارے ملک میں جمہوری جدوجہد کی تاریخ طویل بھی ہے اور جان گسل بھی۔ مورخ لیکن ایسا بدطینت ہے کہ مولانا کا اسم گرامی اس تاریخ کے حاشیے پر بھی نہیں ملتا۔ سڑک کے دوسری طرف موجود جم غفیر کی رہنمائی عمران خان صاحب نے اپنے کندھوں پر اٹھا رکھی ہے پچھلے دنوں بیٹھے بٹھائے جانے کیا سوجھی کہ اپنے علمی درجات بیان کرتے ہوئے یہ بھی یاد لایا کہ انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے سیاسیات کی تعلیم پائی ہے نیز یہ کہ بے نظیر بھٹو نے بھی آکسفورڈ یونیورسٹی ہی سے اس مضمون میں تعلیم پائی تھی۔ ہمارے سیاسی رہنمائوں کو اپنی درس گاہیں گنوانے کا نیا شوق چرایا ہے۔ عمران خان نے تو ایچی سن کالج سے بھی تعلیم پائی تھی جس کے ایک طالب علم نواب امیر محمد کالا باغ بھی رہے۔ سیاست میں رہنمائی کادرجہ درس گاہوں سے متعین نہیں ہوتا۔ بے نظیر بھٹو سیاسیات کی طالب علم ہی نہیں، استاد بھی تھیں اور انہوں نے سیاست کا آخری لیکچر 27دسمبر 2007ء کی شام لیاقت باغ پنڈی سے ملحقہ سڑک پردیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے سیاسی نکات کو اشارے کنائے میں بیان کرنے میں خاص درک پایا تھا۔ اوریانا فلاچی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا، ’ہم نے سیاست اپنے دریائوں سے سیکھی ہے۔ ہماری تاریخ کے یہ دریا تنگ و تاریک عقوبت خانوں اور سنگین بندی خانوں سے ہو کر گزرتے رہے۔
جمہوری بندوبست کے دوحصے ہیں پہلا حصہ طریقہ کار سے تعلق رکھتا ہے اس میں انتخابی عمل،انتقال اقتداراور اختیارات کی تقسیم جیسے انتظامی پہلو شامل ہیں۔ جمہوری نظام کا دوسرا حصہ اقدار سے تعلق رکھتا ہے مثلاووٹ کاغذکا ایک ٹکڑا ہی تو ہے لیکن اس کے پس پشت یہ فلسفہ کار فرما ہے کہ ہر شہری رتبہ اور حقوق میں مساوی درجہ رکھتا ہے اور اسے اپنے ملک کی حکومت چلانے میں برابر کا حصہ دار تسلیم کیا جاتا ہے ۔ ووٹ کے لئے رائے دہی کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہر شہری کو اعلانیہ طور پر ووٹ دینے کا حق حاصل ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جمہوریت میں رائے کے اختلاف کو ایک حق کے طور پر تسلیم کیا جاتاہے۔ رائے کا اختلاف جرم نہیں ہے۔ ایک مربع فٹ کے چوبی بکس میں کاغذ کا ٹکڑا ڈال دینا ایک بے معنی مشق ہے اگر ووٹ دینے والے کو یہ علم نہ ہو کہ اس نے اپنے ووٹ کے ذریعے اپنے ملک کے لئے کونسا راستہ اختیار کیا ہے۔ اس ملک کی معیشت کیسی ہوگی یہاں کے رہنے والوں کے لئے روزگار کی کیا صورت ہوگی ۔ بچوں کے لئے تعلیم کی کیا ضمانت ہوگی۔ علاج معالجے کے لئے کتنے وسائل مختص کئے جائیں گے۔ سڑک کیسے چلے گی۔ ریل کیسے بنے گی۔ ہمارے ہاں تماشہ یہ ہوا کہ ہم جمہوریت کو محض انتخابی عمل تک محدود کر لیتے ہیں اور انتخابات کو بامعنی فیصلہ سازی اور قومی ترجیحات کے تعین سے الگ رکھنا چاہتے ہیں ۔ نرم لفظوں میں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے یہ فرض کر رکھا ہے کہ ہمارے ملک میں ووٹ لے کر حکومت بنانے والے اور پارلیمنٹ میں پہنچنے والے شہری تو محض پھسڈی لوگ ہوتے ہیں۔ عقل اور دانش کی برکھا تو کچھ ایسے دماغوں پر برستی ہے جو انتخابی گردوغبار سے اپنا دامن آلودہ کرناگوارہ نہیں کرتے۔ چنانچہ ہونا یہ چاہئے کہ ووٹ لے کر پارلیمنٹ میں پہنچنے والے گاہے گاہے غیر سیاسی دانش مندوں سے رہنمائی لیتے رہا کریں۔ مثلا یہی کہ معاشرے میں عورت کا کیا مقام ہونا چاہئے۔ ذرائع ابلاغ کو کتنی آزادی دینی چاہئے۔ تعلیم کا مقصد سائنس دان پیدا کرنا ہو یاصالح افراد ۔ بلوچستان اور سندھ کو پاکستان کے صوبے ماننے تو خیر ہماری مجبوری ہے یہاں پر بسنے والے تعلیم یافتہ سیاسی کارکنوں کو کیوں نہ غدار قرار دے دیا جائے۔ تجارت کے لئے کس ملک سے رابطہ کرنا چاہئے اسلحہ کہاں سے خریدا جائے کس کس ملک کے مجاہدین کو اپنے ہاں مدعو کرنا چاہئے تاکہ ملک میں برکتوں کانزول ہو سکے۔
ہوتا یہ ہے کہ ووٹ لے کر پارلیمنٹ میں پہنچنے والے رہنمائوں کا مستک کبھی کبھی گھوم جاتا ہے چنانچہ انہیں لانگ مارچ کاہوا دکھایا جاتا ہے ۔ بے نظیر بھٹو نومبر 1988ء میں وزیر اعظم بنیں۔ نومبر 1989ء میں ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر دی گئی۔ میاں نواز شریف نومبر 1990ء کو وزیر اعظم بنے ۔ بے نظیر بھٹو نے نومبر 1992ء میں لانگ مارچ نکالا۔ پھر جولائی 1993 ء کو لانگ مارچ کا اعلان کیا گیا مگر نواز شریف اس سے پہلے ہی رخصت ہوگئے۔ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بنیں تو میاں نواز شریف نے ستمبر 1994ء میں تحریک نجات چلائی۔ اکتوبر 1996ء میں قاضی حسین احمد نے اسلام آباد میں دھرنا دیا۔ مارچ 2009ء میں میاں نواز شریف نے یوسف رضا گیلانی کی حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا اعلان کیا۔ اس مشق کا نتیجہ ہر دفعہ یہ نکلتا تھا کہ منتخب حکومت کی اخلاقی قامت ختم ہوجاتی تھی، انتظامی صلاحیت مفلوج ہوجاتی تھی اور جاننے والوں کوخبرمل جاتی تھی کہ جمہوریت کے انتظامی اوراقداری پہلوئوں میں خلیج بدستورباقی ہے۔ ہمارے اصحاب اختیار کو جمہوریت کے رسمی نشانات قبول ہیں ۔ جمہوریت کی ثقافت قبول نہیں ہے ۔ 2014ء کے موسم خزاں میں بھی حقیقی صورت حال کچھ ایسی ہی ہے۔ بیان کچھ اور ہے اور مطالبہ کچھ اور۔ دو زاویے البتہ نئے سامنے آئے ہیں۔ ایک تو یہ کہ اہل سیاست کی بڑی تعداد نے قابل تعریف بالغ نظری کا ثبوت دیا ہے۔ بظاہر اختیار کے سیاسی پلڑے کو ہزیمت اٹھانا پڑرہی ہے لیکن پارلیمنٹ کی استقامت سے دوررس نتائج حاصل ہوں گے۔ دوسرازاویہ قابل غور ہے۔
گزشتہ بیس برس میں ہمارے جو نوجوان سیاسی عمل کا حصہ بنے تھے، انہیں اپنے خوابوں کی شکستگی کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ اگرچہ تلخ حقائق سے سامنا ہونا سیاست کا حصہ ہے لیکن کم عمری میں بالغوں کے بھنگڑ خانے کا احوالِ حقیقی نوجوان ذہنوں پر بہت ناخوشگوار اثرات چھوڑتا ہے۔ آدرش کی شکست اجتماعی امور سے بے گانگی کی طرف لے جاتی ہے۔ اصولی موقف کی بجائے ذاتی مفادات کی پرداخت میں زیادہ کشش محسوس ہونے لگتی ہے۔ سیاسی قیادت کے لئے مناسب ہو گا کہ عمران خان اور طاہر القادری پر چوٹیں کرتے ہوئے ان کے نوجوان ساتھیوں کے جذبات کا خیال رکھا جائے۔ یہ نوجوان اس قوم کا حقیقی سرمایہ ہیں۔
تازہ ترین