• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میری گل مکئی ،ملالہ اور بٹیا!
تم نے بہت تکلیف سہی کہ جب نابکار لوگوں نے تم پر بے تحاشہ گولیاں چلا دی تھیں، تم سے محبت کرتے ہوئے پاکستانی افواج نے خاص تمہارا علاج کرانے کی کوشش کی اور جب اندازہ ہوا کہ زخم تو اندازے سے زیادہ اور دماغ کو اپنی گرفت میں لئے ہوئے ہے تو پھر تم کو علاج کے لئے برمنگھم بھجوایا گیا جہاں کئی آپریشن کے بعد تم اپنے پیروں پر کھڑی ہو سکیں مگر اللہ کے گھر دیر ہے،اندھیر نہیں، وہ نوبل انعام جس کی تمنا کرتے ہمارے ادیب کئی تو اللہ کو پیارے ہوئے اور کئی آخری دنوں میں ہیں۔ وہ سب حیران اور پریشان ہوں گے جب17سال کم عمر کی لڑکی تو نوبل انعام لے چکی مگر وہ اسی سال کے ہوکےبھی یہ حسرت دل میں ہی رکھے ہیں۔
یہ دن بہت خوشی کا ہے، میں اس دن بھی اتنی خوش نہیں ہوئی تھی جب میرا نام ان ہزار خواتین میں عالمی سطح پر آیا تھا یہ واقعہ 2005ء کا ہے۔ جس دن تم پر حملہ ہوا، اس دن جو نظم میں نے لکھی تھی اس نظم کا دنیا کی45زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ وہی نظم تمہیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے دوبارہ تحریر کر رہی ہوں ۔
وہ جو بچیوں سے بھی ڈر گئے
وہ جو علم سے بھی گریز پا
کریں ذکر رب کریم کا
وہ جو حکم دیتا ہے علم کا
کریں اس کے حکم سے ماوراء
یہ منادیاں ۔
نہ کتاب ہو، کسی ہاتھ میں
نہ ہی انگلیوں میں قلم رہے
کوئی نام لکھنے کی جان نہ ہو
نہ ہو رسم، رسم زناں کوئی
وہ جو بچیوں سے بھی ڈر گئے
کریں شہر شہر منادیاں
کہ پھر ایک قد حیانما کو نقاب دو
کہ ہر ایک دل کے سوال کو یہ جواب دو
نہیں چاہئے کہ یہ بچیاں
اڑیں طائروں کی طرح بلند
نہیں چاہئے کہ یہ بچیاں
کہیں دفتروں۔،کہیں مدرسوں کا بھی
رخ کریں
کوئی شعلہ رو، کوئی باصفا
ہے کوئی تو صحن حرم ہی
اس کا مقام ہے، یہی حکم ہے
یہ کلام ہے
O
وہ جو بچیوںسے بھی ڈر گئے
وہ یہیں کہیں ہیں قریب میں
انہیں دیکھ لو، انہیں جان لو
نہیں ان سے کچھ بھی بعید شہر زوال میں
رکھو حوصلہ ، رکھو یہ یقین
کہ جو بچیوں سے بھی ڈر گئے
وہ ہیں کتنے چھوٹے وجود میں !
آج بھی چاہے میں ہندوستان میں ہوں یا پاکستان کے کسی دور دراز شہر میں، مجھے دیکھتے ہی نعرے بلند ہوتے ہیں، نظم ملالہ، ملالہ میری بچی ! اللہ تمہیں حوصلہ دے کہ تم ہندوستانی دوست کو جو نوبل انعام میں تمہارا شریک ہے، اس کے ساتھ مل کر، ان دونوں ممالک میں،نفرتوں کے زخم دھو ڈالو،۔ تمہیں اندازہ نہیں کہ ہم اور ہماری نسل نےپڑھنے کی اجازت لینے کے لئے کیسے کیسے پاپڑ بیلے ہیں۔
ہم نے پڑھائی کی خاطر ،کیسے کیسے طعنے سنے ہیں، تم تو اچھے وقت میں پیدا ہوئیں، تمہیں حوصلہ دینے کے لئے ساری دنیا کے ملک اور لوگ یک زبان رہے ہیں۔مگر میری جان اس وقت بھی اس اٹھارہ کروڑ آبادی میں گیارہ کروڑ بچے ایسے ہیں جو تعلیم سے محروم ہیں۔ یہی حال ہندوستان کاہے۔ وہاں وزیر اعظم نے ایک اچھا فیصلہ کیا ہے کہ ہر ممبر پارلیمینٹ کو کہا ہے کہ تم لوگ تین گائوں کو ترقی دے کر نئی منزلوں تک پہنچائو گے۔ ایسے فیصلے توہم نے بھی بہت کئے مگر ہر دیہات میں نا صاف پانی درختوں کے نیچے بیٹھے بچےدیہات میں پڑھتے ہوئے،شہروں میں بھی ہر بچہ اپنی اینٹ لاتا ہے، جس پر بیٹھ کر وہ اپنا سبق یاد کرتا ہے۔ آج بھی 80%اسکولوں میں غسل خانے نہیں ہیں۔ دیہات کے اسکولوں میں ایک کمرے میں پانچوں کلاسیں پڑھانے کا حکم اس استاد کو ہے جو کبھی کبھی اسکول آتا ہے۔
میری پیاری ملالہ!
تم کو منصوبہ بندی کرنی ہے کہ ہمارے بچے جو چائے خانوں، ورکشاپوں اور چھوٹی چھوٹی دکانوں پر کام کرتے ہیں انکے ہاتھ میں اب تمہارے باعث کتابیں آجائیں۔ وہ تمام نوجوان جو عمران خان کے جلسے میں آ کر تالیاں بجاتے ہیں۔ وہ دیہاتوں میں جا کر پڑھانے کے عزم کا اعلان ہی نہ کریں بلکہ باقاعدہ عمران خان سے وعدہ کریں وہ بلاول بھٹو کے پیغام کوسمجھیں۔ یہ سب جوان مل کر ملک کو پڑھا لکھا بنائیں کہ تب ہی جاگیر داروں کے حوصلے پست ہوں گے، اور تم اور تمہاری عمر کے تمام بچے ہماری خوش بختی کی دلیل بنیں گے۔
تازہ ترین