• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے 18؍ اکتوبر 2014ء کو اپنے سیاسی کیریئر کا باضابطہ آغاز کیا۔ کراچی میں مزار قائداعظمؒ کے سامنے بہت بڑے جلسہ عام سے خطاب میں اس آغاز کی بنیاد رکھی گئی۔ 18؍اکتوبر وہی تاریخ ہے جب بے نظیر بھٹو شہید نے جلاوطنی سے واپسی کے بعد کراچی میں ایک بڑے جلوس کی قیادت کی، جلوس کے دوران میں انہیں شہید کرنے کی کوشش ناکام ہوئی مگر بی بی شہید کے 150جاں نثار ان پر قربان ہو گئے۔ بلاول کے اس بڑے جلسہ عام میں 10لاکھ افراد تھے، 1½لاکھ حاضری تھی یا ایک لاکھ، اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں نہ ہی فیتہ لے کر گرائونڈ کی آزمائش کرنے کی ایکٹیویٹی میں وقت ضائع کرنے کی شغل بازی کرنی چاہئے، بس یہ ایک موثر جلسہ عام تھا جس میں بلاول سے پہلے ان کے والد’’ صدر‘‘ آصف علی زرداری نے بھی خطاب کیا۔ اعتزاز احسن کی تقریر کا یہ جملہ ’’پارٹی میں نئی زندگی پیدا کرنا ہے تو 50سے زیادہ عمر کے لوگوں کو پچھلی صفوں میں بٹھانا ہو گا‘‘ اس جلسہ عام کی مرکزی علامت کی حیثیت اختیار کر گیا، ساتھ ہی اسے بھی ایک لذیز اتفاق قرار دیا جا سکتا ہے کہ ’’صدر‘‘ آصف علی زرداری خود 50برس سے زائد عمر کے حامل ہیں!
بلاول کی تقریر ریموٹ جوش کا اظہار یہ تھی یا اس میں پاکستانی عوام سے دلی وابستگی کی بولتی دھڑکنوں کی صدا گونج رہی تھی، بلاول کا بی بی شہید سمیت پیپلز پارٹی کے شہیدوں کا تذکرہ کرتے ہوئے لہجہ تاریخ کے المناک ادراک میں ڈھلا ہوا تھا یا یہ تذکرہ حاضرین جلسہ کو بے ساختہ یادوں کے ریلے میں لے جا سکا، بہت سے سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں، بہتر ہو گا ہم ان سوالات پر فیصلہ دینے کے بجائے بلاول بھٹو زرداری کے عوامی فطری بندھن کی تصدیق کے لئے مزید چند ماہ انتظار کریں، اسے مزید کچھ وقت دیں، اس کے اتالیقوں اور تقریر نویسوں کی صلاحیتوں اور شعور پر قابل اعتراض نشانات لگانے کی مشق بے انصافی ہو گی، انتظار ہی منصفانہ طرز عمل کی کسوٹی پر پورا اترتا ہے کہ وقت کا دھارا ہی ایسا ہے جس کے سبب اس فیصلے کے لمحات سر پر کھڑے ہیں۔ فی الوقت جو کچھ کہا گیا اس پہ گفتگو حالات کا ہی تقاضا ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے قومی سیاسی سفر کے تجزیئے کی گنجائش بھی نکل سکتی ہے!
بلاول بھٹو زرداری کی تقریر کا جامع مواد یہ تھا: ’’پاکستان میں بھٹو ازم ہے یا ضیاء مشرف آمریت کی باقیات، کچھ لوگ فوج کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے میں لگے ہیں، ایم کیو ایم 20سال سے کراچی پر حکمرانی کر رہی ہے 2018ء میں شفاف انتخابات ہوں تو کراچی کو اصل آزادی ملے گی اور ہر طرف ’بو کاٹا‘بو کاٹا ہو گا، تخت شریف سے لاہور نہیں چل رہا پاکستان کیا چلائیں گے، آپ کی حکومت میں ضیاء کی روح گھس گئی ہے، ہم کبھی امپائر کی انگلی پر نہیں ناچے، بزدلو! دھرنے کے ہیلمٹ سے باہر نکلو، دہشت گردوں کی بائولنگ کا سامنا کرو، اسکرپٹ کا مقصد یہ تھا کہ نواز شریف کو جعلی مینڈیٹ دیا جائے اور کٹھ پتلی خان کو اپوزیشن لیڈر بنا دیا جائے، اسکرپٹ اس وقت تک ختم نہیں ہو گا جب تک کٹھ پتلی وزیراعظم بنتا رہے گا۔ ایک طرف ہم پیپلز پارٹی والے ہیں جو مرہم رکھنے کے لئے اپنی حکومت بھی ختم کر لیتے ہیں اور دوسری طرف وزیر اعلیٰ پنجاب ہیں جو ضیاء کی پیداوار ہیں۔ ماڈل ٹائون میں انہوں نے کیا کیا؟ آپ جو ظلم کا کوئی احتساب نہیں کرتے، مارتے بھی ہو رونے بھی نہیں دیتے، تمہارا شہر، تم ہی مدعی تم ہی منصف، جمہوریت دشمن قوتیں بھٹو کے دیئے ہوئے آئین اور جمہوریت کی طرف میلی آنکھ سے نہ دیکھیں ورنہ پیپلز پارٹی کے کارکن اور قائدین آنکھیں نکال دیں گے۔ اسلام آباد میں دھرنے کا ڈرامہ رچانے والی کٹھ پتلیاں، وہ بھٹو ازم کی وجہ سے آزاد گھوم رہے ہیں، اگر آمریت کا دور ہوتا تو انہیں اکبر بگٹی کی طرح ایف 16سے اڑا دیا جاتا، وفاقی حکومت اپنا قبلہ درست کر لے۔ ہم میمو گیٹ سے آصف زرداری کی جیل تک کے معاملات بھولے نہیں، ہم نے شہادتیں حاصل کیں۔ 1973ء کا آئین بھٹو نے دیا۔ بھٹو کے دشمن بھی آج آئین کو مانتے ہیں۔ ضیاء کا بیٹا بھی بھٹو کے دستور کے تحت حلف اٹھاتا ہے، اس لئے ہم کہتے ہیں کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے، آصف علی زرداری اور بیٹے نے چھ سالہ جمہوریت کو بچایا ہے۔ آج اسکرپٹ کا شور مچا ہوا ہے، حکومت بے بس ہے، ملک خانہ جنگی کی طرف جا رہی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اصل اسکرپٹ کل بھی وہی تھا آج بھی وہی ہے۔ جس طرح بھٹو صاحب نے کہا تھا، ’’مجھے معلوم ہے کہ میرے عوام اور میرے خلاف سازشوں کی کیا کھچڑی پک رہی ہے‘‘، مشرف اور ان کی لابی مل کر ہماری بی بی کو ہم سے چھین لیتے ہیں۔ بی بی کی شہادت سے پاکستان کی زنجیر ٹوٹ گئی تھی لیکن مرد آہن صدر زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر اور بی بی کے بیٹے نے جمہوریت بہترین انتقام کا نعرہ لگا کر اس کو پھر سے باندھ دیا۔ کبھی یہ سیاسی دجال کے روپ میں سوموٹو سے جمہوریت کو سبوتاژ کرتے ہیں، اسکرپٹ کا مقصد یہ تھا کہ کوئی بہانہ بنا کر بھٹو کا نظام توڑ کر ہمیشہ کے لئے جمہوریت کو پٹری سے اتار دیا جائے۔ آپ نے دہشت گردی، سیاسی دجال اور دھاندلی کے باوجود اپنا اپوزیشن لیڈر بنایا، یہ اسکرپٹ اس وقت تک ختم نہیں ہو گا جب تک کوئی کٹھ پتلی وزیراعظم نہ بن جائے تاکہ نظام درہم برہم ہو جائے اور پھر پاکستان میں سول وار شروع ہو جائے۔ اس اسکرپٹ میں ملکی و غیر ملکی طاقتیں شامل ہیں۔ وہ پاکستان کو بھی عراق اور شام کی طرح بنانا چاہتے ہیں تاکہ یہاں بھی دنیا بھر کے دہشت گرد اپنے خود کش بمبار تیار کر سکیں، جب میں کشمیر کی بات کرتا ہوں تو مودی سرکار مجھ پر سوال اٹھاتی ہے۔ میں نے کشمیر پر بات کی تو پورا ہندوستان مجھ پر غصے میں آ گیا۔ ہماری تصویریں جلائی گئیں اور ہماری ویب سائٹ ہیک کر لی گئی۔ جب میں کشمیر کی بات کرتا ہوں تو مجھے غلط نہ سمجھا جائے، یہ میری ماں کا وعدہ تھا کہ کشمیر بنے گا پاکستان!‘‘
بلاول بھٹو زرداری کی تقریر کے اس ملخص پر مکالمے کو تھوڑی دیر کے لئے ایک طرف رکھتے ہیں، اس سے پہلے چند استفسارات بے حد لازم ہیں مثلاً بلاول نے اپنے خطاب میں بلوچستان سے معافی مانگنے اور قادر بخش بلوچ کی قیادت میں گم شدہ افراد کے جلوس کی یاد دہانی کرائی، اس یاد دہانی کے ساتھ بلوچستان کے کرب و ابتلا کی داستانوں، ہجرتوں اور قتل و غارت کی بہتی ندیوں کو کیوں فراموش کر دیا گیا؟ خیبر پختونخوا میں اے این پی کی مظلومیت اور دہشت گردی کے خلاف قربانیوں کی لازوال تاریخ پر چند جملے تقریر کا حصہ کیوں نہ بنائے گئے؟
تقریر کے خلاصے سے باہر اور باتیں تفصیل کے خوف سے ملتوی کرتے اور براہ راست خطاب کے حوالے سے براہ راست مکالمے پر آتے ہیں۔ نام لے کر کسی منفی جذبے کی چونکہ تسکین مقصود نہیں، اس لئے ایک فکری حوالہ متعلقہ شخصیت کی نشاندہی کے بغیر دے رہا ہوں۔ ڈیڑھ دو ماہ پیشتر پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب کے ایک لیڈر کسی ایک نجی ٹی وی چینل پر مصروف بحث تھے۔ کسی مرحلے پر انہوں نے یہ اصول بیان کیا ’’دیکھیں جناب! ایک عوام کے ساتھ Deal کرنا ہوتا ہے۔ عوامی پلیٹ فارم پر کسی اور انداز سے ڈائیلاگ کیا جاتا ہے، جب مذاکرات ہوتے ہیں وہاں وہ عوامی انداز موجود نہیں ہو سکتا، اس لئے زیر بحث موضوع میں ہمارا موقف تضاد پر مبنی نہیں۔ مذاکرات کے وقت ایسا ہی کیا جاتا ہے‘‘ اتفاقاً میں ٹی وی کے اس پروگرام میں ان کے جملے سن پایا، خاکسار کو قائداعظمؒ محمد علی جناح کی سیاست کے رویئے یاد آئے، چنانچہ خاموشی سے ان صاحب کی قلبی مذمت بلکہ ان کے بارے میں بے حد توہین آمیز تاثر کے بعد اپنے کام میں مصروف ہو گیا… وہ سب لوگ جو کسی جماعت کے میڈیا سیل سے وابستہ نہیں ہیں جنہوں نے مستقبل کے ’’جماعتی ٹارگٹس‘‘ نہیں رکھے ہوئے، انہیں کبھی نہ کبھی خود کو سچ کی آنچ کے قریب سے گزار لینا چاہئے، روح بیدار رہتی ہے۔ آخرت میں ہم سے انفرادی اور اجتماعی سچائیوں کے پس منظر میں تو جواب طلبی ہو سکتی ہے، بہرحال میرا ایمان ہے، مالک کائنات نےنعوذ باللہ کسی سے یہ نہیں پوچھنا ’’تم نے نواز شریف، آصف علی زرداری، شہباز شریف، بلاول بھٹو زرداری یا حمزہ شہباز سے ملاقات کی کوشش کیوں نہیں کی؟ وہاں سب کے گھٹنے آپس میں ٹکرا رہے ہوں گے، اس لئے اگر دنیا میں وہ گزارے جو گا روٹی رزق عطا کر رہا ہو تو مزید بھی اسی سے مانگنے میں سلامتی اور ساتھ ہی عزت بھی ہے!
اب چلتے ہیں بلاول بھٹو زرداری کی طرف!
جواں سال چیئرمین نے اتالیقوں اور تقریر نویسوں کے لکھے اور پڑھائے گئے خطاب میں جو کچھ کہا اس کا نوے فیصد برحق ہے، مثلاً ذوالفقار علی بھٹو، پاکستان کھپے کا نعرہ، بے نظیر پاکستان کی زنجیر،1973کا آئین، نواز شریف کا جعلی مینڈیٹ، شہدائے ماڈل ٹائون کا المیہ، میمو گیٹ سکینڈل کا ’’سکینڈل‘‘ صدر آصف علی زرداری کی قید و بند، ضیاء مشرف باقیات، ملکی و غیر ملکی طاقتوں کی سازشیں، سیاسی دجال، فوج کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے والے وطن دشمن، پاکستان میں جمہوری نظام کو پٹری سے اتار کر سول وار کے تباہ کن منصوبے، پاکستان کو عراق و شام بنانے کی تیاریاں، اکبر بگٹی کی شہادت، کوئی بھی بات ایسی نہیں جسے سچ کے ترازو میں نہ تولا جا سکے! لیکن کیا تقریر نویسوں نے بلاول کو طعنے بازی کی لائن دے کر کوئی قومی خدمت کی؟ کیا ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کا مقبول عام نعرہ دینے کے بعد بلاول کو اس متوقع ’’عہد شکن‘‘ کی صف میں کھڑا کرنے کی تیاری کرائی جا رہی ہے جب اس مسئلے پر سچائی کا کوئی دوسرا چہرہ ناقابل تردید اور ناقابل شکست حقیقت کے طور پر سامنے کھڑا ہو اور بلاول صاحب اسی زبان کے ساتھ پہلے دعوے کی تکذیب اور دوسرے کی تصدیق کر رہے ہوں کیا دوسری سیاسی جماعتوں کی شخصیتوں کو سوقیانہ اور غیر مہذب طریقے سے مخاطب کروانے میں بلاول کی سیاسی تہذیب کے چہرے پر سہرے کے پھول سجائے گئے۔ جب یہ سب کچھ کر رہے تھے تو اس شخص کے بارے میں تو پھر شدید ترین ردعمل ہونا چاہئے تھا جس نے صدر مملکت کے منصب جلیلہ کو بار بار ’’علی بابا چالیس چور‘‘ کہا، بار بار ’’صدر کو چوکوں میں گھسیٹنے‘‘ کی متکبر نعرے بازی کرتا رہا؟ کالم کی گنجائش ختم ہو گئی، نامکمل گفتگو انشاء اللہ اگلے کالم میں مکمل کریں گے۔
تازہ ترین