• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جمہوری طرز حکومت میں جن چار بنیادی شعبوں کو غیر معمولی اہمیت کا حامل قرار دیاگیا ہے ان میں عدلیہ اور منتخب پارلیمانی ادارہ سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ امیر المومنین حضرت علی ؓ کا ارشاد ہے کہ حکومتیں اور ریاستیں کفر سے تو باقی رہ سکتی ہیں لیکن ظلم سے قائم نہیں رہ سکتیں ، معاشرے میں انصاف مہیا کرنا ریاست کی اولین ذمہ داری ہے کیونکہ ظلم کا نظام کسی صورت ملک و ریاست کے لئے بہتر اور مفید قرار نہیں دیا جاسکتا۔ تاریخ کے مشاہدے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جن ممالک میں انصاف کا نظام مکمل طور پر آزاد ہے ان ممالک نے تیزی سے ترقی کی منازل طے کی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج جمہوری دور میں آزاد، خود مختار عدلیہ پر نہ صرف زور دیا گیا ہے بلکہ ملکی آئین میں اس کی ضمانت دی گئی ہے کوئی بھی ادارہ چاہے وہ پارلیمنٹ ہی کیوں نہ ہو اسے عدلیہ میں مداخلت کرنے کی مجاز نہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ریاست کے تمام ادارے عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانے کے لئے بھرپور کردار ادا کریں جب عوام کو انصاف مہیا ہوگا تو دوسرے اداروں کو بھی مضبوط و مستحکم بنایا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں ماضی میں عدلیہ کی آزادی کا دعویٰ تو کیاگیا مگر عملاً ایسا نہیں تھا جس کی وجہ سے بعض خرابیوں نے جنم لیا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انور ظہیرجمالی نے گزشتہ روز کراچی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پوری سچائی اور دیانتداری سے کہہ سکتا ہوں کہ عدلیہ ہر سطح پر آزاد ہے، ان کا کہنا ہے کہ عدلیہ میں ہر سطح پر میرٹ کو بنیاد بنانےاور خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ عدالتیں لوگوں کو انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کے لئے پوری محنت کررہی ہیں ۔ چیف جسٹس آف پاکستان کا یہ کہنا انتہائی خوش آئند ہے اور یہ بھی درست ہے کہ ملک میں عوام کا عدلیہ پر اعتماد اور بڑھ رہا ہے اگر عدلیہ کو مکمل طور پر خود مختار اور آزاد بنادیا گیا تو ملک کو درپیش بہت سے مسائل از خود حل ہوجائیں گے۔

.
تازہ ترین