حضرت علی ؑ کا فرمان ہے کہ ’’مجھے اس دنیا سے کیا لینا کہ جس کے حلال میں حساب ہو اور حرام میں عذاب ‘‘ اور خوشی کی بات یہ ہے کہ صدرالدین ہاشوانی کا’آج‘ اسی قول کے گرد گھوم رہا ہے۔کاش میں بھی ایسا ہوتا ’’سچ ہمیشہ غالب رہے گا‘‘ ان کی بائیوگرافی پڑھ کر (جو میرے سامنے لکھی گئی) پہلا خیال آیا ،جانتا ہوں کہ اس کتاب میں وہ اپنی زندگی کا صرف 30فیصد سچ ہی لکھ پائے ہیں ۔باقی 70فیصد اب بھی ان کے پاس ہی ہے اور ممکن ہے کہ یہ باقی 70فیصد لکھا ہی نہ جاسکے کیونکہ سچ لکھنا مشکل تو ہے ہی مگر ہمارے ہاں ،جہاں ہر کوئی اپنا اپنا سچ لئے گھوم رہا ہو وہاں کسی اور کا سچ سننا اور پھر اسے ہضم کرنا کسی معجزے سے کم نہیں ہوتا ۔ بھارتی بزنس ٹائیکون لکشمی متل سے کسی نے پوچھا کہ ’’آپ کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ؟’’میری حکومتوں کی مسلسل مدد اور تعاون ‘‘ متل نے جواب دیا۔ مگر ادھر 7قاتلانہ حملوں،11مرتبہ کی ای سی ایل، 2بار علاقہ غیر کی روپوشی ،40 دن مارشل لا کی قید تنہائی اور 5سالہ جلاوطنی کاٹنے والے ہاشوانی صاحب ہر حکومت میں زیر عتاب رہے اور ہر حکمراں کا ہدف ٹھہرے ۔ آج بھی عدالتوں میں دو سو سے زیادہ مقدمے لڑتے74سالہ صدر الدین ہاشوانی اکثر یہ کہہ کر دکھی ہو جاتے ہیں کہ ’’ان فضول لڑائیوں کی وجہ سے میں اپنے ملک کیلئے جو کچھ کرنا چاہتا تھا اس کا 5فیصد بھی نہ کر سکا‘‘ ۔ ان سے 17سالہ تعلق میں جہاں میں نے کافی کچھ ایسا دیکھا جو نہ لکھ سکتا ہوں، نہ بتاسکتا ہوں اورسنا سکتا ہوں وہاں بحیثیت وزیرداخلہ ان کا گھر تجاوزات قرار دے کر گرانے کے درپے فیصل صالح حیات کو وزارت جانے کے بعد اسی گھر میں کھاناکھاتے دیکھ کر، مشرف دور میں سب کچھ کرنے کے بعد ریٹائرمنٹ کی پہلی صبح ہی جنرل حامد جاوید کو ہاشوانی صاحب سے ان کے دفتر میں آکر اپنے کئے پر معذرت کرتے سن کر ،جونیجو دورمیں آدھی رات کو ہاشوانی صاحب کے گھر ریڈ کروانے (جس کے دوران 40لوگوں نے گھر میں گھس کر ان کی بیوی اور بیٹیوں سے بدتمیزی کی، جسے دیکھ کر ان کی بوڑھی ماں بے ہوش ہوگئی تھی) کے ماسٹر مائنڈ اقبال جونیجو کو ایک شام اپنے داماد کی نوکری کیلئے ہاشوانی صاحب کے دفتر میں مل کر اور پھر اقتدار میں آکر انتقامی کارروائیوں کی ہر حد پار کر جانے والے سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کو حکومت سے فارغ ہونے کے بعد ہاشوانی صاحب کی میزبانیوں سے لطف اندوز ہوتے پا کر میں کل کی طرح آج بھی یہ مناظربھلانا چاہوں بھی تو نہیں بھلا سکتا۔ ایک شام ہاشوانی صاحب موڈ میں تھے۔اپنی ایک پرانی فائل نکالی اور اُس میں سے ذوالفقار علی بھٹو کے دو خط دکھائے۔ وکالت سے سیاست کی طرف آتے بھٹو نے پہلا خط سکندر مرزا کو لکھا تھا اور اس میں نوجوان زلفی نے سکندر مرزا کو قائداعظم سے بڑا رہنما قرار دیاتھا ۔
دوسرا خط سکندر مرزا کو جلاوطن کر کے اقتدار پر قبضہ کرنے والے فیلڈ مارشل ایوب خان کے نام تھا ۔جس میں بھٹو صاحب نے فیلڈ مارشل کو مسیحا قرار دیتے ہوئے اُنہیں پاکستان کا دوسرا روپ قرار دے رکھا تھا ۔دونوں خطوط دکھا کر ہاشوانی صاحب بولے ’’اقتدار میں آکر نہ صرف بھٹو نے جلاوطن سکندر مرزا کی پلٹ کرخبر تک نہ لی بلکہ موقع ملنے پر منہ بولے باپ ایوب خان کو گھر بھجوا کر دم لیا۔پھر کہنے لگے کہ بھٹو صاحب نے جب تعلیمی ادارے نیشنلائز کئے تو مشہور وکیل ڈنگو مل کے وکیل بیٹے پرسی مل (جو بھٹو کا پارٹنر تھا) نے بھٹو سے کہا ’’زلفی یہ تم نے تعلیم بھی نیشنلائز کردی ‘‘ جس پر بھٹو بولے ’’پرسی تم کیوں فکر کرتے ہو ،ہمارے بچوں نے تو باہر ہی پڑھنا ہے‘‘۔صدر ضیاء الحق سے دوسری ملاقات میں ہی اپنے تعلقات خراب کر لینے والے ہاشوانی صاحب یہ قصہ کچھ یوں سناتے ہیں کہ ضیاء الحق سے میری دوسری ملاقات اُس وقت کے وزیر تجارت شیخ رفیق اختر کے گھر پر ہوئی ۔’’مسٹر ہاشوانی ملکی حالات کیسے جار ہے ہیں ‘‘۔رسمی علیک سلیک کے بعد ضیاء الحق نے پوچھا ۔’’جناب صدر حالات بہت ہی خراب ہو گئے ہیں کیونکہ آپ اور آپ کی حکومت اپنا اصل کام کرنے کی بجائے قوم کو کلمہ پڑھانے پر لگی ہوئی ہے ۔دوبارہ سے مسلمان بنانے پر تلی ہوئی ہے‘‘۔ آئیے کھانا کھاتے ہیں۔ہاشوانی صاحب کی بات ختم ہونے سے پہلے ہی غصے سے لال ہوتے چہرے پر زبردستی مسکراہٹ لا کر ضیاء الحق بولے۔ ہاشوانی صاحب بتاتے ہیں کہ اگلے دن نورلغاری (ڈائریکٹر آئی بی ) کا فون آیا ۔ مسٹر ہاشوانی آپ کیلئے صدر صاحب کا پیغام ہے کہ آئندہ آپ انہیں کہیں مل بھی جائیں تو سلام بھی نہ کرنا۔میں نے کہا کہ میرا ایک پیغام بھی اپنے صدر صاحب کو پہنچا دینا کہ ’’تم جاؤ بھاڑ میں ‘‘ ۔ابیٹ آباد آپریشن کے بعد فوج کے حق میں دبئی سے لائیو پریس کانفرنس کرنے والے ہاشوانی صاحب اپنے سب سے گہرے دوست جنرل آصف نواز کی پر اسرار موت کو آج بھی قتل قرار دیتے ہیں۔کہتے ہیں کہ امریکہ میں اُس وقت کی پاکستانی سفیر عابدہ حسین کے دفتر میں جنرل آصف نواز کی امریکی حکام سے لڑائی اور پاکستانی حالات کو ٹھیک کرنے کیلئے بلا امتیازو تفریق ایک بے رحم احتساب کی باتیں ، دوبڑی وجوہات تھیں کہ جس کی وجہ سے سب طاقتیں جنرل کے خلاف ہو گئی تھیں اور صورتحال یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ ایک دن آرمی چیف جنر ل نواز نے انہیں بتایا کہ آئی بی ان کے ٹیلی فون ٹیپ کر رہی ہے اور ان کی نجی زندگی کو مانیٹر کیا جار ہا ہے ۔جنرل اس دن سخت غصے میں تھے ۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ چند ماہ قبل ہاشوانی صاحب سے ملاقات کے بعد اپنی گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے مجھ سے گلے ملتے ہوئے مولانا طارق جمیل نے کہا تھا کہ’ ’یہ وہ ہاشوانی نہیں کہ جس سے 7سال پہلے میں اور جنید جمشید ملے تھے ۔یہ تو فقیر ہو گیا ہے ۔مجھے آج اس پر رشک آرہا ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کیلئے آسانیاں پیدافرمائے ‘‘۔ پھر مجھے وہ منظر بھی نہیں بھولا کہ جب نامور ادار کار عمر شریف نے ہاشوانی صاحب کا ماتھا چومتے ہوئے کہا تھا کہ’ ’دنیا کیلئے عمر شریف آکسیجن ہے مگر عمر شریف کی آکسیجن ہاشوانی ہے‘‘۔ سردیوں کی ایک صبح ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ ہاشوانی صاحب کا موبائل بجا۔فون پر باتیں کرتے کرتے اچانک بولے اللہ تیرا شکر ۔کیا ہوا جونہی ان کی بات ختم ہوئی تو میں نے ویسے ہی پوچھ لیا۔ کہنے لگے تیل کا ایک کنواں خشک نکلا ہے۔ میرا آدمی مجھے بتا رہا تھا کہ 10لاکھ ڈالر کا نقصان ہواہے۔ تو میں نے اللہ کا شکر ادا کیا ہے کہ یہ سب اُسی نے تو دیا تھا ۔پھر بولے میں کونسا ماں کے پیٹ سے یہ سب کچھ ساتھ لایا تھا۔ وہی اللہ مجھ فقیر کی پھر سے جھولی بھر دے گا اور پھر ایسا ہی ہوا ،اللہ تعالیٰ نے دوسرے کنویں سے ان کو اتنا دیدیا کہ پچھلے خسارے بھی پورے ہوگئے۔ دو دن پہلے ہم ’’ہاشو ہاؤس ‘‘میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ اچانک رونے لگے ۔کیا ہوا سر ! میں گھبرا گیا ’’اب اللہ تعالیٰ سے ملنا چاہتا ہوں ۔اللہ سے ملاقات کی خواہش ہے۔ واپس جانا چاہتا ہوں ۔اب میرا اس دنیا میں دل نہیں لگتا‘‘۔ وہ ہچکیوں سے رو رہے تھے۔پھر بولے تمہیں نہیں لگتا کہ میں نے کچھ زیادہ ہی اکٹھا کر لیا ہے۔ مجھے قبر میں کون چھڑائے گا ،میں اس سب کا حساب کیسے دے پاؤں گا ‘‘۔ اپنے دوست قاضی حسین احمد مرحوم کے ساتھ مل کر اس ملک کی اگلی نسلوں تک کیلئے ایک بہت بڑا کام کر چکے،ہزاروں ضرورت مندوں کی خفیہ مدد کرتے اور ہمیشہ سر اٹھا کر اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والے ہاشوانی صاحب کو صرف اور صرف اللہ کی چاہت میں روتے دیکھا تو بے اختیار مجھے حضرت علی ؑ کا فرمان یاد آگیا کہ ’’مجھے اس دنیا سے کیا لینا کہ جس کے حلال میں حساب ہو اور حرام میں عذاب ‘‘ اور خوشی کی بات یہ ہے کہ صدرالدین ہاشوانی کا ’’آج‘‘ اسی قول کے گرد گھوم رہا ہے ۔