• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جنرل راحیل شریف انتہائی مقبول آرمی چیف ہیں۔ جی ٹی روڈ پر چلنے والے جدید ٹرک اس حقیقت کے گواہ ہیں۔ اس سے پہلے 80 کی دہائی میں آپ بیڈ فورڈ ٹرکوںکو بھی رواں دواں دیکھ چکے ہیں۔ ان کے پیچھے ایوب خان کی نہایت وجیہہ تصویر ہوتی تھی۔ جنرل ضیا اورپرویز مشرف طاقتور آمر ہونے کے باوجودیہ ’’شرف ‘‘ حاصل نہ کرسکے ۔ موجودہ دور میں جنرل راحیل شریف کوئی ابہام رکھے بغیر دو ٹوک کارروائی کرنے والے کمانڈر کی شہرت رکھتے ہیں۔ انھوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت اچھی کارکردگی دکھائی ۔ اور ہم اُن کی پروفیشنل اپروچ اور اخلاقیات کی داد دیتے ہیں۔ جنرل صاحب ایک ایسے کمانڈر کے طور پر سامنے آئے ہیں جو ہمہ وقت کام کرتے اور سامنے آکر اس مشکل جنگ میں لڑاکا فورس کی قیادت کررہے ہیں۔ جہاں ضرورت پڑے، دشمن سے آہنی لہجے میں بات بھی کرتے ہیں، لیکن شہیدوں کے خاندانوں کے ساتھ بات کرتے ، یا شکایت سنتے ہوئے نرم گفتار ہیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ اُنھوں نے کوئی عوامی عہدہ قبول کرنے میں دلچسپی ظاہر نہیں کی ہے ، اور نہ ہی ہائوسنگ اسکیمیں یا کارنر کے پلاٹس پر اُن کی نگاہ ہے ۔
اب اس بات سے قطع نظر کہ ہم اس نہج تک کیسے پہنچے، اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ایک طاقتور، منظم اور متحرک فوج کے بغیر ہم گزشتہ ایک عشرے سےاپنے پنجے پھیلانے والے دہشت گردی کے نیٹ ورک کےخلاف اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتے تھے ۔ یہ بھی ناقابل ِ تردید حقیقت ہے کہ ریاستی اداروں میں ان کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے جو اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران جان قربان کردیں۔ وردی پہننے اور وطن کی خاطر موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے والوں سے تمام ممالک میں محبت کی جاتی ہے، لیکن بات یہ ہے کہ اخلاقی بیانیہ اور حب الوطنی ’’نظام ‘‘ کے کلیاتی مسائل کو حل نہیں کرسکتے ۔
جنرل راحیل شریف کی ڈیفنس ڈے پر کی گئی تقریر سے کسی سربراہ ِ مملکت کے ’اسٹیٹ آف دی یونین خطاب‘کا تاثر ملتا ہے ۔وہ افراد جو سویلین کی بالادستی کے تصور پر یقین رکھتے ہوئے سمجھتے ہیں کہ آئین کے مطابق فوج پر سویلینز کا کنٹرول ہوتا ہے ، یا وہ جو اپنی تاریخ کا ناقدانہ جائزہ لیتے ہوئے اس سے سبق سیکھنے اور ماضی کی غلطیوں سے اجتناب کرنے کی کوشش کریں، ان کے لئے یہ تقریر بہت سے سوالات کھڑے کردیتی ہے ۔ کیا ایک آرمی چیف کی طرف سے اپنی تقریر میں خارجہ پالیسی، گورننس کو بہتر بنانے اور کریمنل جسٹس کے مسائل کو حل کرنے کا ذکر کرنے سے اس بات کا تاثر نہیں جاتا کہ یہ معاملات بھی فوج کے دائرے میں آتے ہیں؟ ڈسپلن، پروٹوکول اور احکامات کی تعمیل کو انتہائی مقدم گرداننے والے ایک ادارے کے سربراہ کے طور پر کیا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ’’قومی مفاد وغیرہ‘‘ کا معاملہ ہو تو آرمی چیف ان اصولوں یا پروٹوکول کو نظر انداز کرسکتا ہے ؟یا کیا وہ عوام کو یہ باتیں صرف اس لئے سنانا چاہتے تھے کیونکہ وہ اُنہیں ایک نجات دہندہ سمجھتے ہیں اور اُن سے ہر معاملے میں بہتری کی امیدلگائے ہوئے ہیں؟
جب آرمی چیف نے کہاکہ پاکستان جانتاہے کہ دوستوں کا ساتھ کس طرح نبھانا اور دشمنوں کے ساتھ کیسا سلوک کرنا ہے تو اُنھوں نے اس بات پر غور کرنے کی زحمت کی کہ کیا بھارت سے اس وقت اس لہجے میں مخاطب ہونا اُن کا استحقاق ہے یا منتخب شدہ وفاقی حکومت کا؟کیا آرمی چیف کے ذہن میں یہ بات تھی کہ جب اپنی تقریرکے دوران وہ ایسی لکیر عبور کررہے ہیں جہاں دفتر ِخارجہ کا استحقاق شروع ہوتا ہے ، تو کیاایساکرتے ہوئے وہ اس ادارے کو تو کمزور نہیں کررہے جو ہماری سفارت کاری کا ذمہ دار ہے ؟ تو کیا اس سے دیگر ریاستوں کو یہ پیغام نہیںگیا ہوگا کہ پاک فوج ہی دراصل خارجہ پالیسی چلاتی ہے ؟جنرل راحیل شریف نے بجا طور پر اُن شہدا کی قربانیوں کو سراہا جنھوں نے 1965 ء میں اپنی جانیں دے کر بھارت کے حملے کو ناکام بنایا تھا، لیکن کیا بہتر نہ ہوتا کہ اب تک اپنائے گئے مظلومیت کے بیانیے سے گریز کیا جائے؟ فوجیوں اور شہداکی جانبازی کو سلام، لیکن ذرا رک کر یہ تسلیم کرنے میں کیا حرج ہے کہ ہمارے پالیسی سازوں کو بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا۔ کیا آپریشن جبرالٹر کوئی بہترین حکمت تھی ؟کیا ہم پاکستان کو 1971 ء کے سانحے سے بچانے کے لئے مختلف پالیسیاں نہیں بنا سکتے تھے ؟ کیا کارگل نے ہماری نیشنل سیکورٹی کو توانا کیا ؟
یقینا ہماری نیشنل سیکورٹی کی سوچ میں احتساب کی روایت ڈالنے کے لئے آرمی چیف کا کردار اہم ترین ہے ، تو پھر قوم سے لگے ہاتھوں فرما دیجیے کہ جب (جیسا کہ ہماری ٹیکسٹ بک ہمیں بتاتی ہے) 1965 ء میں آدھی رات کو بھارت ہم پر حملہ آور ہوگیا، اور پھر 1971 ء میں شیطانی طاقتوں کے گٹھ جوڑ نے پاکستان کو دولخت کردیا، کارگل کارروائی کے بعد مغربی دنیاکے اخبارات میں ہمارے اداروں کو بدنام کرنے کے لئے اشتہارات شائع کیے گئے ، اور اب وہی شیطانی طاقتیں تحریک طالبان پاکستان اور دیگر جہادی تنظیموں کو ہمارے خلاف، خاص طور پر بلوچستان میں، استعمال کررہی ہیں تو کیا ہم ناپاک دشمن کے رحم و کرم پر بیٹھے ہیں، یا ہم ان خطرات کا تدارک کرنے کے لئے کچھ کرنے کی پوزیشن میں بھی ہیں؟ کیا معاملات کو کسی بہتر طریقے سے سنبھالنے کا کوئی راستہ بچا ہے ؟
کیا آرمی چیف کو ایجنسیوں کی فعالیت کا ناقدانہ جائزہ لینے کی ضرورت نہیں ؟ ’’جبری طور پر گم ہونے والے افراد‘‘ کو غدار قرار دینا کس کی تخیلاتی پرواز کا کرشمہ ہے ؟کیا سلیم شہزاد قتل کیس کی تحقیقات کرنے والے جوڈیشل کمیشن نے یہ نتیجہ نہیں نکالا تھا کہ’’ ہماری ایجنسیوں کوکلین چٹ نہیں دی جاسکتی؟‘‘کیا اسامہ بن لادن کا ایبٹ آباد جیسے حساس شہر میں پایا جانا نیشنل سیکورٹی کے لئے شدید دھچکا نہیں تھا؟کیا ریاست نے اداروں میں چیک اینڈ بیلنس قائم کرنے اور اُنہیں آئین اور قانون کی حدود میں رکھنے کے لئے کچھ کیا ہے ؟کیا سینیٹ سے آنے والی کچھ معقول آوازیں ملک دشمنوں کی ہیں جو یہ کہہ رہی ہیں کہ ایجنسیوں اور دہشت گرد پیدا کرنے والے بعض مدرسوں کے درمیان تعاون موجود ہے ؟آرمی کی طرف سے یہ بیان بہت حوصلہ افز ا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ہر ممکنہ حد تک جایا جائے گا، لیکن یہ سن کر انسان سوچ میں بھی پڑ جاتا ہے کہ جب کچھ مدرسے انتہا پسندی، جو دہشت گردی کی جڑ ہے ، پھیلانے میں مصروف ہوں اور ان مدرسوں کے انتہا پسندوں تنظیموں سے روابط بھی ثابت شدہ ہوں توپھر بھی ایسے ادارے کراچی، لاہور، اسلام آباد اور بہاولپور میں کام کرتے رہیں؟ یہ کوئی قبائلی علاقے نہیں ، پاکستان کا دل ہے ۔
آرمی چیف یقینا غلط نہیں جب وہ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے کریمنل جسٹس کو خامیوں سے پاک کرنا ضروری ہے ، لیکن کیا ، جیسا کہ اے پی ایس حملے کے بعد کہا گیا، دہشت گردی کے پھیلائو کا باعث کریمنل جسٹس کی خامیاں ہیں ؟ یقینا دہشت گردوں کو قید کرنا یا اُنہیں پھانسی پر لٹکا کر کریمنل جسٹس ایک ڈیٹرنس کا کام دیتاہے لیکن یہ اُس وقت کس طرح موثر ثابت ہوسکتا ہے جب ان انتہا پسندوں کانظام نہیں توڑا جاتا؟ایک عشرہ قبل فوج چاہتی تھی کہ اُسے دہشت گردوں کو طویل عرصہ تک حراست میں رکھنے کے اختیارات حاصل ہوں اور ’’گم شدہ افراد ‘‘ پر بات نہ کی جائے ۔ اے پی ایس حملے کے بعد فوجی عدالتوں کی ضرورت محسوس کی گئی۔ اکیسویں ترمیم کے تحت فوجی عدالتیں قائم کردی گئیں۔ سپریم کورٹ نے ان عدالتوںسے دی جانے والی سزائے موت کی توثیق کردی۔ تو کیا اب یہ اقدامات انتہا پسندی اور دہشت گردی کا سدباب کرنے کے لئے کافی ہیں؟
ابھی ہمارے سامنے سی پیک بھی ہے ۔ ہر معقول پاکستانی اس بات سے اتفاق کرے گا کہ یہ راہداری نئے امکانات کا پیش خیمہ ہوسکتی ہے ،بشرطیکہ اسے نیشنل سیکورٹی کا اثاثہ قرلئےار نہ دیا جائے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم چین سے کتنے قریب ہیں، ہم جانتے ہیں کہ ریاستوں کے مفادات تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔اس دوران یہ تصور پروان چڑھانا درست نہیں کہ سویلین حکومت بدعنوانی کی وجہ سے اس منصوبے کو خراب کردے گی۔ یاد رہے کہ نیشنل سیکورٹی معاشی طاقت کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی۔ اگر پاکستان کو اپنی سیکورٹی عزیز ہے تواس کے لئے معاشی طاقت درکار ہے۔ تو پھر کیا چیز مقدم ہے ؟سیکورٹی یا معیشت ؟ایک ریاست ، جو تنقیدی آوازوں کو غدار ی کے مترادف قرار دے، وہ کمزوری کو دعوت دیتی ہے ۔ ہمیں باہمی مسائل کو حل کرنا ہوگا اور ایک دوسرے کو غدار قرار دئیے بغیر بات سننے اور کہنے کی روایت کو مضبوط کرنا ہوگا۔


.
تازہ ترین