• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آئیے حقائق کا سامنا کریں۔ پاناما لیکس کے باوجود عمران خان عوام کو بدعنوانی کے ایشو پر مشتعل کرتے ہوئے وزیر ِاعظم نواز شریف کواقتدار سے باہر کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے ، چنانچہ خاں صاحب مایوسی کا شکار ہیں۔ وہ اور ان کے دوہم نوا، ڈاکٹر طاہرالقادری اور شیخ رشید بہت سے ریاستی اداروں ، جیسا کہ نیب، ایف بی آر، ایف آئی اے ، الیکشن کمیشن اور پارلیمنٹ پر کھلے الفاظ میں، کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر تنقید کررہے ہیں۔ بدترین بات یہ کہ اب وہ آرمی چیف، جنرل راحیل شریف کوترغیب دے رہے ہیں کہ وہ مداخلت کرتے ہوئے آئین کو اٹھا کر ایک طرف پھینک دیں۔
عمران خان نے پی ایم ایل (ن) اور پی پی پی کی بدعنوانی کو اپنا انتخابی بیانیہ بنا کر جتنے بھی جنرل الیکشن لڑے ، اُن سب میں اُنہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ 2013 کے عام انتخابات کے بعد ، ایک سال تک تو اُنھوں نے نتائج کو چیلنج نہ کیا، لیکن پھر یکا یک احساس ہوا کہ اگر نواز شریف اپنی مدت پوری کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اُن کی سیاسی فصل اجڑ جائے گی۔ یہ خیال آتے ہی اُنھوں نے ایک روشن دن کمر باندھی اور انتخابی دھاندلی کی دہائی دینا شروع کردی ۔ وہ حکمران جماعت کا تختہ الٹنے پر تل گئے ۔ جب الیکشن کمیشن آف پاکستان اور سپریم کورٹ نے عمران خاں کے الزامات پر توجہ نہ دی تو اُنھوں نے 2014 کے طویل دھرنوں کے دوران کھلے عام ’’تھرڈ امپائر ‘‘ کی انگلی کھڑی ہونے کی دھمکی دینا شروع کردی۔ جب یہاں بھی دال نہ گلی تو اُنھوں نے شیخ رشید کے علاوہ پاناما لیکس سے اپنی امیدیں وابستہ کرلیں۔
پے درپے کیے جانے والے غلط فیصلوں نے عمران خان کی مقبولیت کو خاصی زک پہنچائی ہے ۔ پارٹی کی صفوں میں ہونے والی خانہ جنگی اور غلط فیصلہ سازی، جس پر خاں صاحب کی اجارہ داری ہے ، نے پارٹی کے تنظیمی ڈھانچے کو نقصان پہنچایا ہے ۔ عید سے پہلے چنگاری بھڑکانے کی اُن کی کوشش اپنا سا منہ لے کر رہ گئی ۔ اب وہ اور ان کے اکتائے ہوئے حامی کھلے الفاظ میں آرمی چیف سے مدد مانگ رہے ہیں کہ وہ مداخلت کرکے وزیر ِ اعظم کو چلتا کریں۔ شیخ رشید نے آرمی اور چیف جسٹس صاحب سے ’’مل بیٹھ کر‘‘ نواز شریف سے جان چھڑانے کا کوئی حل تلاش کرنے کی استدعا کی ہے ۔ جمہوریت پسند شیخ صاحب کی خواہش ہے کہ شب خون کی بجائے کو ئی مستحسن راستہ تلاش کرلیا جائے ۔ آفرین ہے کہ ان کی جمہوریت پسندی پر !
سیاست کو سنجیدہ معاملہ سمجھنے والے البتہ شیخ رشید کے اس بیان کو غیر معمولی قرار دے رہے ہیں کیونکہ وہ چیف جسٹس آف پاکستان کو ایک غیر آئینی اقدام میں شریک ہونے یا اس کی معاونت کرنے کا کہہ رہے ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے اپنے ذاتی ایجنڈے میں مذہبی حوالے بھی شامل کررہے ہیں۔ اُنھوں نے آرمی چیف سے درخواست کی ہے کہ وہ اپنے وعدے کی پاسداری کرتے ہوئے (شاید 2014 کے دھرنوں کے دوران ذاتی طور پر کیا گیا ہو، واﷲ علم)ماڈل ٹائون کیس میں انصاف دلائیں۔ اس کا مطلب یقینی طور پر شہباز شریف کے گرد گھیرا تنگ کرنا ہے ۔ قادری صاحب نے آرمی چیف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔۔۔’’ اگر آپ وعدہ وفا کرنے سے پہلے ریٹائر ہوگئے تو دوسری دنیا میں اپنے مالک (خدا) کا سامنا کس طرح کروگے ؟‘‘
ان انتہائی احمقانہ اور بے سروپا بیانات کا انتخابی یا احتجاجی سیاست سے کوئی تعلق نہیں ۔ ایک برسر ِ اقتدار حکومت کو اقتدار سے باہر کرنے کے لئے اشتعال انگیز مہم عام انتخابات سے تین سال پہلے نہیں چلائی جاتی کیونکہ لوگوں کی یادداشت کمزور ہوتی ہے ۔ نہ ہی ہمارے ہاں بدعنوانی کا ایشو نیا یا ہیجان خیز ہے ۔ جب الیکشن والے دن لوگ نواز شریف یا عمران خان یا دیگر جماعتوں کو ووٹ ڈالنے گھر سے نکلتے ہیں تو ایک کا بدعنوان اور دوسرے کا مسٹر کلین ہونا بیلٹ باکس بھرنے کے لئے کافی نہیں ہوتا۔ دیہی علاقوں کے افراد اپنے رہنمائوں کی طرح عملیت پسند ہوتے ہیں۔ شہری علاقوں کا درمیانہ طبقہ مثالیت پسند ہوتا ہے اور اسے اخلاقی بیانیہ کسی حد تک متاثر کردیتا ہے ، لیکن وہ تنک مزاج ہونے کی وجہ سے طویل عرصے تک صبر نہیں کرسکتا ۔ اُن کا شیش محل راتوں رات تعمیر ہونا چاہئے، ورنہ وعدہ کرنے والا معتوب ٹھہرے گا۔ ’’ملک کا گند صاف کرنے کے لئے فوجی مداخلت کا نشہ‘‘ رکھنے والے احباب کو اگلے ہی دن جمہوریت کی یاد ستانے لگتی ہے ،اور وہ اُنہی ’’بدعنوان اور سیکورٹی رسک سیاست دانوں ‘‘کے ساتھ مل کر آمریت کے خلاف تحریک چلانے کے لئے کمر کس لیتے ہیں، اور یوں گھر کی رونق بحال رہتی ہے ، لیکن یہ طرفہ تماشا ملک کا نقصان کردیتا ہے ۔
اب جب کہ یہ کوتاہ بین سیاست دان اپنے اپنے ہوا کے گھوڑوں پر سوار ہیں، پاکستان ایک مرتبہ پھر ’’ناکام ریاست ‘‘ قرار دئیے جانے کے خطرے سے دوچار ہے۔ سیاسی عدم استحکام غیر ملکی سرمایہ کاری اور خارجہ پالیسی پر منفی اثر ات مرتب کررہا ہے ۔ چین ، جس نے معاشی راہداری کی تعمیر کے لئے بیالیس بلین ڈالر کی براہ ِراست سرمایہ کاری کاوعدہ کیا تھا، وہ بھی ہمارے نہ ختم ہونے والے سیاسی انتشار سے پریشان دکھائی دیتا ہے ۔ دوسری طرف انڈیا، امریکہ اور افغانستان پاکستان کے خلاف صف بستہ ہیں۔اس عالمی دبائو کے عالم پاکستان کسی طور پر داخلی خلفشار کا متحمل نہیںہوسکتا، اور فوجی مداخلت تو اس کے حق میں زہر ِقاتل ہوگی۔ ماضی کی فوجی مداخلتوں کے وقت خطے کے حالات ایسے تھے جب فوجی حکومت کے باوجود امریکہ کی طرف مالی امداد ملتی رہی۔ اس مرتبہ امریکہ پاکستان سے مکمل طور پر آنکھیں پھیر چکا ہے، چنانچہ کسی قسم کی مہم جوئی ملک کے معاشی عمل کو پٹری سے اتار دے گی۔
پی ایم ایل (ن) اور پی ٹی آئی نے ایک دوسرے کے خلاف بہت سے ریفرنس فائل کررکھے ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ مہم کے دوران اُس اہم ادارے کو متنازع بنانے کی کوشش کی جارہی ہے جس نے ان اپیلوں کی سماعت کرنی ہے ۔ عمران خان اُس وقت تک الیکشن کمیشن آف پاکستان کا احترام کرنے کے لئے تیار نہیں جب تک اُن کے حق میں تمام فیصلے نہیں آجاتے ۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ قومی ادارے مل کر منتخب شدہ وزیر ِاعظم کو گھر بھیج کر خان صاحب کو شکریے کا موقع دیں۔ممکن ہے جب جنرل صاحب ٹائم ٹیبل کے مطابق گھر چلے جائیں تو یہ احباب بھی چپ کرکے بیٹھ جائیں۔ لیکن فی الحال انھوں نے جو تماشا لگارکھا ہے ، اس کی ملک کو بھاری قیمت چکانی پڑرہی ہے ۔ شاید آئی ایس پی آر کو اس دھند کو صاف کرنے کے لئے دوٹوک الفاظ میں بیان دینے کی ضرورت ہے۔

.
تازہ ترین