تاریخ کا طالب علم ہوں ۔آزادی کی تحریک اور اس میں حصہ لینے والی محترم شخصیات سے بھی تعلق خاطر ہے۔ جن پر گاہے گاہے لکھنے کا سوچ رکھا ہے ۔ دوایک مضامین نکل بھی چکے۔اب کی بار مولانا حسرت موہانی پر لکھنے کی تمنا تھی ۔ حسب توفیق مواد اکٹھا کیا اور اپنی دانست میں ایک مناسب سا مضمون لکھ بھی دیا ۔ اشاعت کیلئے بھیجنے ہی والا تھا کہ اتفاق سے اپنی اسٹڈی میں موجودسید اشتیاق اظہر کی مرتب کردہ کتاب’’ گلہائے عقیدت ‘‘ ہاتھ لگ گئی ۔جس میں مولانا حسرت موہانی پر لکھا ہوا شوکت تھانوی کا کالم (وغیرہ وغیرہ)بھی شامل ہے۔جو 16مئی کو1958 روزنامہ جنگ میں چھپا تھا ۔ کالم میں شامل ایک واقعہ اس قدر دلچسپ انداز میں مولانا حسرت موہانی کی شخصیت کا احاطہ کئے ہوئےہے،کہ اس کے سامنے میری تحریر بے معنی ہوکر رہ گئی اور میں نے مناسب جانا کہ ہفتہ بھر کی محنت سے سیاہ کئے ہوئے کاغذوں کو ضائع کردوں ۔ نیچے درج قصہ شوکت تھانوی کے اپنے الفاظ میں ہے ۔ پڑھئے اور سردھنیے کہ اگلے وقتوں میں کیسے کیسے لکھنے والے ہوا کرتے تھے ۔ رہے اکابرین اوراہل سیاست توان کے کیا کہنے قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی یاد تازہ ہوتی ہے ۔
’’ میں آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ تھا اور لکھنو اسٹیشن پر تعینات تھا۔ اس زمانہ میں آل انڈیا ریڈیو لکھنو کے اسٹیشن ڈائرکٹر مسٹر سوم ناتھ چب تھے ۔ معلوم نہیں یہ شوق خود چب صاحب کو ہوا یا آل انڈیا ریڈیو کے ہیڈ کوارٹرکی ہدایت تھی کہ جس طرح بھی ممکن ہو مولانا حسرت موہانی کو ریڈیو میں لاکر خود ان ہی سے ان کی ایک آدھ غزل پڑھواکر ریکارڈ کرلی جائے ۔ چب صاحب نے یہ خدمت میرے سپرد کی کہ میں کانپور جاکر مولانا حسرت کو جس طرح بھی ہو لکھنو لے آوں ۔ کانپور پہنچ کر میں سیدھا اس سڑک پر پہنچا جو حسرت روڈ کہلاتی تھی ۔ خیال تھا کہ اپنے نام کی اسی سڑک پر کہیں نہ کہیں مولانا رہتے ہوں گے۔مگر وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ سڑک تو بیشک ان کے نام کی ہےمگر اس سڑک پر اس نام کا کوئی شخص نہیں رہتا ۔پتہ چلا کہ ایک اور محلے میں ایک مسجد کے پاس مولانا حسرت کا مکان ہے ۔ پوچھتا ہوا اسی پتے پر پہنچا اوراسی مسجد سے ایک شخص کو پانی کا بھرا ہوا گھڑا لے کر نکلتے ہوئے دیکھا اور غور سے دیکھ کر پہچان لیا کہ مسجد کے نل سے پانی بھرنے والا یہی وہ شخص ہے جس کو سیاسی دنیا رئیس الاحرار کہتی ہے اور دنیائے شعر میں یہی شخص رئیس المتغزلین کہلاتا ہے ۔مولانا حسرت موہانی نے گھڑا گھر میں پہنچانے کے بعد ایک ٹوٹی ہوئی چارپائی پر مجھے بھی بٹھایا اور خود بھی بیٹھ گئے ۔مگر جب میں نے حاضری کا مقصد بیان کیا تو ریڈیو کا نام سن کر چونکے ۔مگر اس سے پہلے کہ وہ انکار کرنے کے بعد اپنے انکار پر آڑ جائیں میں نے ریڈیو پر جاکر اپنی آواز محفوظ کرادینے کو ان کی اتنی بڑی ادبی خدمت ثابت کیا کہ میری خوش گفتاری نہ سہی مگر خوش نصیبی تھی کہ وہ آمادہ ہوگئے اورآمادہ بھی ایسے ہوئے کہ مجھ سے فرمایا کہ بہتر ہے ابھی چلتا ہوںآپ کے ساتھ رات کی ٹرین سے واپس بھیج دیجئےگا مجھے ۔ کچھ نہ پوچھئے میری خوشی کا عالم ۔ معلوم ہوتا تھا کہ نہر شیریں لے جارہا ہوں باغ خسرو میں ۔ کانپور کے اسٹیشن پر پہنچ کر میں تو تانگہ والے کو کرایہ دیتا رہ گیا۔مولانا نہ جانے کہاں غائب ہوگئے ۔ ادھر ادھر ڈھونڈھا توآپ تھرڈ کلاس کی بکنگ کی کھڑکی سے واپس آتے نظر آئے ۔ میں نے لپک کر کہا کہ یہ آپ نے کیا کیا ؟ ٹکٹ تو میں لینے جارہا تھا۔آپ نے نہایت بے پروائی سے فرمایا ’’ جی ہاں اپنا ٹکٹ آپ لے لیجئے میں تواپنا ٹکٹ لے آیا ہوں ‘‘ مجبوراً مجھے بھی تھرڈ کلاس کا ٹکٹ لینا پڑا ۔میں مولانا کو لکھنو ریلوے اسٹیشن سے لے کر سیدھا سوم ناتھ چب صاحب کے بنگلے پر پہنچا اور چب صاحب سے باقاعدہ تعارف کرایا یعنی مولانا کو بتادیا کہ ان کا نام سوم ناتھ چب ہے ظاہر ہے کہ یہ نام کسی مسلمان کا نہیں ہوسکتا ۔مگر یہ نام سننے کے باوجود مولانا نے چب صاحب سےکہا کہ مغرب کی نماز پڑھ لوں ، ذرا جانماز منگائیے ۔ میں ہنسی کو ضبط کرکےرہ گیا کہ چب صاحب کے ہاں بھلا جانماز کا کیا کام ؟ اور دوڑ کر میں ایک دھلی ہوئی تولیہ اٹھا لایا جس پر مولانا نے نماز پڑھ لی اس کے بعد چب صاحب سے بولے ’’ شوکت صاحب کہتے ہیں کہ میرا اپنے کلام کو ریکارڈ کرانا اردو کی خدمت ہے۔آپ کے خیال میں میرے لئے ریڈیو پر جانا مناسب ہے یانہیں ۔ ‘ چب صاحب نے بھی اسی قسم کی باتیںکیں کہ ریڈیو سے آپ کی آواز یہ اعلان کرتی رہے گی کہ جس ملک کا یہ ریڈیو ہے ،اس ملک کی زبان وہی ہے جس میں آپ شعر کہتے ہیں ۔ مولانا یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ ’’ یہ تو بڑی اچھی بات ہے تو پھر کہاں ہے وہ ریڈیو ؟ ‘‘
اس عرصہ میں ریڈیو اسٹیشن پر یہ خبر پہنچ چکی تھی کہ مولانا حسرت تشریف لارہے ہیں۔عشرت رحمانی ان کی غزلیں جمع کرتے پھر رہے تھے کہ نہ جانے مولانا کون سی غزل ریکارڈ کرنا چاہیں ۔ کوئی صاحب کنٹریکٹ فارم تیار کرتے پھر رہے تھے۔کوئی اسٹوڈیو ٹھیک کررہا تھا کہ چب صاحب میرے ہمراہ مولانا کو لے کر اسٹیشن پہنچ گئے ۔کنٹریکٹ ان کے سامنے پیش کیا گیا تو بولے ’’ یہ کیا ہے خیر کچھ ہوگا ‘‘ اور دستخط کردئیے۔ عشرت صاحب نے ان کی غزلیں ان کے سامنے پیش کیں تو کہنے لگے ’’ جی نہیں ۔ یہ واہیات ہیں اور یہ غزل تو شاید میری ہے ہی نہیں۔ میں ایک اور غزل پڑھتا ہوں اور یہ کہہ کر شروع ہوگئے ۔ بمشکل ان کو روکا کہا ابھی نہیں جس وقت اسٹوڈیو کی لال بتی آئے آپ شروع کر دیجئے گا اور جب لال بتی آئی تو مولانا نے جو غزل طے کی تھی اس کے علاوہ کوئی اور ہی غزل شروع کردی ۔
غزل ریکارڈ ہوگئی ۔ اپنی آواز خود سن کرپہلے تو حیران رہے، پھر خود ہی خوش ہوگئے کہ ٹھیک تو ہے مگر اب سب سے سخت مرحلہ یہ درپیش تھا کہ مولاناکو چیک کیسے دیا جائے؟آخراسٹیشن ڈائریکٹر نے ہمت کی اور سوروپے کا چیک پیش کیا تومولانا سوکا ہندسہ پڑھ کر بھڑک اٹھے ’’سوروپے ‘‘ یہ کس بات کے ہیں ؟ میں اسی لئے تو آتا نہیں تھا کہ مجھ کواسی قسم کے خدشے تھے ’’لاکھ کہا گیا کہ یہ خصوصیت صرف آپ کے ساتھ نہیں ہے ریڈیو پر جو بھی آتا ہے اس کو معاوضہ ملتا ہے اور آپ کے لئے تو یہ معاوضہ بھی نہیں بلکہ نذرانہ ہے۔مگر وہ کسی طرح اس چیک کو چھونے کو تیار نہ تھے بمشکل تمام اس بات پر راضی ہوئے کہ کانپور سے لکھنو تک تیرہ آنے لکھنو سے کانپور تک تیرہ آنے ایک روپیہ دس آنے تویہ ہوئے۔باقی رہا یکہ کا کرایہ لہٰذا دوروپے دے دیجیے ۔ اس کے علاوہ کچھ نہیں ہر کوشش جب ناکام ہوگئی تو مجبوراً کنٹریکٹ کو آنریری کرنا پڑا چیک کینسل کیا گیا اور دوروپے کسی نے اپنی جیب سے دے دئیے ۔ میں ٹرین میں بٹھانے لکھنو اسٹیشن تک گیا ، اور جب تک گاڑی روانہ نہیں ہوئی ، مولانا یہی کہتے رہے کہ خدا نے مجھ کو بچایا ، ورنہ آپ نے تو مجھ کو فروخت ہی کردیا تھا ۔ ‘‘
دوستو ! یاد رہے کہ یہ فقیرمنش مولانا حسرت موہانی کوئی معمولی شخص نہیں ، تحریک آزادی کے عظیم رہنما، پارلیمنیٹرین متحدہ ہند کی مرکزی اسمبلی کے منتخب مسلم لیگی رکن ، جلیل القدر صحافی، شعلہ بیاں مقرر اور شاعر اس پائے کے کہ رئیس المتغزلین کہلائے۔حق پرست وحق گو، بکنے والے نہ جھکنے والے ۔ سیاست میں خوب سرگرم رہے ، اور اسے عبادت کا مقام دیا ۔ بڑھاپے میں کسی نے پوچھا ، مولنا ! کیسی گزری ؟ فرمایا : آدھی ریل میں آدھی جیل میں ۔ آپ کا یہ شعر توآپ نے بھی سن رکھا ہوگا ۔
ہے مشق سخن جاری اور چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ شہ ہے حسرت کی طبیعت بھی