• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا طاہر القادری نے عمران کو پھر چھوڑ دیا؟

کراچی (تجزیہ، مظہر عباس) کیا 2014 کی طرح ڈاکٹرطاہر القادری نے عمران خان کو دوبارہ چھوڑ دیا؟ رائیونڈ مارچ میں شمولیت نہ کرنے کے ان کےفیصلے پر تحریک انصاف کو حیرانی ہوئی۔ مخصوص حلقوں سے مثبت اشارہ نہ ملنے کے بعد طاہر القادری نے پیچھے ہٹنے کی حکمت عملی اپنائی۔ پی ٹی آئی کے رہنما اب بھی عمران کی ʼرائے ونڈ مارچʼ کےلیے حوصلہ افزائی کررہے ہیں، مگر تحریک انصاف سے خود کو دور کرنے کے ڈاکٹر طاہر القا د ری کے فیصلے نے ایک بار پھر عمران کو مایوسی کا شکار کردیا ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما نعیم الحق نے بیان دیا کہ وہ حزب اختلاف کے رہنماؤں کو مدعو کریں گے، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اب بھی تنہا پرواز کرنا چاہتے ہیں، اور دیگر جماعتوں کی موجودگی صرف علامتی طور چاہتے ہیں. یہ تحریک انصاف کی ایک بہت ناقص حکمت عملی ہوگی۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کے فیصلے نے شیخ رشید احمد کو بھی پریشان کردیا ہے جن کی تمام حزب اختلاف کو اکٹھا کرنے کی کوششیں ناکام ہوگئی ہیں۔ رائے ونڈ مارچ سے پیچھے ہٹنے کے ڈاکٹر طاہرالقادری کے فیصلے نے شیخ شید کو حیران کردیا ہے۔ ڈاکٹر طاہر القا د ر ی کے اعلان کے وقت نے ان کے ʼایجنڈےʼ پر سوال اٹھا دیا ہے۔ پہلے دن سے انہوں نے پاناما پیپرز میں دلچسپی نہیں لی۔ اسی وجہ سے انہوں نے صرف متاثرین ماڈل ٹاؤن کی تحریک قصاص چلائی۔ چونکہ انہوں نے اسلام آباد مارچ سمیت کوئی متبادل منصوبہ نہیں دیا ہے ، اس لیے  ہفتے کے روز کی پریس کانفرنس میں پاکستان عوامی تحریک ایک بار پھر پیچھے ہٹ گئی۔ اس سے پہلے اس نے 3 ستمبر کی ریلی میں میڈیا میں بڑے پیمانے پر شور و غوغا کیا تھا۔ ڈاکٹر طاہر القادری اداروں کے سرد ردعمل پر مایوس تھے۔ وہ توقع کررہے تھے کہ وزیر اعظم کے بھارت کے ساتھ مبینہ تعلقات کے بارے میں ان کے سنگین الزامات کا نوٹس لیا جائے گا۔ 3 ستمبر کی ریلی میں انہوں نے رائیو نڈ یا اسلام آباد مارچ کا آپشن اوپن رکھا تھا۔  لیکن، ہفتہ کے روز، انہوں نے نہ تو کوئی نئے مارچ کی کال دی اور، رائیونڈ مارچ کا منصوبہ بھی ترک کردیا۔ عوامی تحریک کی سیاست کا جائزہ لینا اہم ہے. یہ بہت نظم و ضبط والی تنظیم ہے جس کا مبینہ طور پر ایک طاقت پر مبنی ونگ بھی ہے۔ جس کی جھلک دو سال پہلے دیکھی گئی تھی۔  ڈاکٹر طاہر القادری کے بہت سارے پیروکار ہیں۔ لیکن انتخابی سیاست میں وہ کمزور ہیں۔ اسی وجہ سے انتخابات میں انہیں کبھی نشست نہیں ملی، سوائے 2002 ء کے  جو ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کے سیاسی کھیل کی مہربانی تھی۔ انہوں نے قومی اسمبلی سے استعفی دے کر تاریخ رقم کی تھی اور چھوڑنے کی درجنوں وجوہات بتائیں تھی، ʼپارلیمانی سیاستʼ۔ انہوں نے ارکان پارلیمنٹ کے خلاف سنگین الزامات عائد کیے لیکن مشرف کے بارے میں خاموش رہے. اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ ایک بہت اچھت مقرر ہیں اور میڈیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرنے کا فن جانتے ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہے مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں یا قومی رہنماؤں نے ان کی سیاست کے انداز کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا ہے. لہذا، جب انہوں نے، وزیر اعظم پر سنگین الزامات عائد کیے اور بھارت کے ساتھ مبینہ روابط کا الزام لگایا، انہیں سیکورٹی رسک کہا، مگر نہ تو حکومت اور نہ ہی حزب مخالف نے اسے سنجیدگی سے لیا. انہوں نے پیچھے ہٹنے کی اسٹریٹجی اس وقت لی، جب یہ دیکھا کہ وزیر اعظم یا مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا تختہ الٹنے کا کوئی کوئی امکان نہیں ہے۔  انہیں اب خوف ہے کہ وزیراعظم کے خلاف ان کے الزامات کی وجہ سے ان پر مقدمات ہو سکتے ہیں کیونکہ شریف فیملی عدالت جانا چاہتی ہے۔ اس طرح انہوں نے ہفتہ کو مصالحتی انداز اپنایا اور حکومت اور شریف خاندان کو مثبت پیغام دیا۔ حالانکہ انہوں نے 3 ستمبر کی ریلی میں لوگوں کی رائے لی تھی جن میں سے اکثریت نے رائے ونڈ مارچ کی حمایت کی تھی۔ انہوں نے دوسرے آپشن یعنی اسلام آباد کی بھی کوئی تاریخ نہ دی۔ یہ 2014  دھرنے کا ایکشن ری پلے لگتا ہے جب پارلیمنٹ پر اور پی ٹی وی پر حملے کے بعد انہوں نے اپنا دھرنا ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور عمران کو تنہا چھوڑ دیا تھا۔ اس بار انہوں نے پیچھے ہٹنے کی اسٹریٹجی شروع میں ہی اپنا لی، اور وہ بھی کسی شور شرابے کے بغیر.  ناقدین کا کہنا ہے کہ اسکرپٹ کے بغیر نکلو تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ اب وہ مزید چند ہفتے پاکستان میں رکتے ہیں یا محرم سے پہلے کینیڈا واپس چلے جائیں گے۔ اس سب کے عرصے کے دوران شیخ رشید احمد بھی قادری اور عمران کو ایک میز پر لانے میں ناکام رہے، اگرچہ انہوں نے اعلان کیا تھا کہ جلد ہی وہ لال حویلی میں دونوں کو مدعو کریں گے۔ طاہر قادری کا اعلان عمران خان کے لیے ایک اور دھچکا ہے، جنہوں نے کچھ دن پہلے ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کی حمایت میں ایک سخت بیان دیا تھا۔ طاہر قادری میڈیا میں ہنگامہ پیدا کرنے کے فن کو جانتے ہیں اور بعض اوقات عمران خان سے زیادہ میڈیا کی توجہ لے لیتے ہیں۔ 2014 ء میں، حالانکہ عمران مبینہ انتخابی دھاندلی کے خلاف تحریک میں مرکزی شخصیت تھے اور ان کا طاہر قادری سے زیادہ اسٹیک تھا، مگر عوامی تحریک کے سربراہ اتنے جارحانہ ہوگئے کہ عمران کو پیچھے چھوڑ دیا۔ دو واقعات نے طاہر قادری کو حقیقی فروغ دیا اور عمران کو جونیئر پارٹنر بنادیا۔ (1) ماڈل ٹاؤن، اور (2) پارلیمنٹ اور پی ٹی وی پر حملے۔ مؤخر الذکر واقعے سے عمران بھی حیران ہوگئے کہ قادری کے حامی سڑکوں پر آگئے یہاں تک کہ وہ پارلیمنٹ اور وزیراعظم ہاؤس میں بھی داخل ہونے کے لئے تیار تھے. موجودہ صورت حال میں بھی پاناما پیپرز پر پہل کرنے والے عمران تھے جنہوں نے سڑکوں پر مہم شروع کی، مگر پھر  ڈاکٹر طاہر القادری نے اچانک منظر میں نرم انٹری ڈالی، اور ماڈل ٹاؤن انکوائری کا نعرہ لگا کر پانامہ کو دھندلا دیا۔ ان کی آمد کے بعد سے ماڈل ٹاؤن مسئلہ پاناما پیپرز کے مقابلے میں زیادہ اہمیت اختیار کرگیا۔ اس طرح عمران نے پاناما پر اپنی مہم کو برقرار رکھا جبکہ، قادری نے نواز شریف کے مبینہ بھارتی روابط کے الزامات لگا کر دھماکہ کردیا۔ اس کا مقصد بظاہر پانامہ سے توجہ ہٹانا اور تحریک میں برتری حاصل کرنا لگتا ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کے طریقہ نے ان کے اپنے کوچ شیخ رشید احمد کو بھی حیران کر دیا۔ فورا فورا ٹی وی ٹاک شوز نے بھی ماڈل ٹاؤن کو زیادہ توجہ دینا شروع کر دی۔ ٹی وی پر پاکستان عوامی تحریک کے انتہائی جارح رہنماؤں نے ماڈل ٹاؤن سانحہ پر زیادہ زور دیا. عمران اور پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو اب ڈاکٹر علامہ طاہر القادری کے پراسرار کردار کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ وہ کس کا آدمی ہے؟۔ کیا وہ عمران خان کی تحریک کو سبوتاژ کرنے کی منصوبہ بندی کے ساتھ آیا. انہوں نے عمران سے کیوں ملاقات نہیں کی؟۔ کیا یہ کینیڈا کے آدمی کو بے نقاب کرنے کا وقت نہیں ؟۔ عمران کو ڈاکٹر طاہرالقادری کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ انہیں 2014 دھرنے سے پیچھے ہٹنے کی اسٹریٹجی سے سیکھنا چاہئے۔ انہوں نے کیوں اچانک دھرنا چھوڑ دیا تھا۔ کن کی ہدایت اور کیوں؟۔ وہ اور ان کی پارٹی کبھی مرکزی دھارے کی سیاست میں نہیں رہیں ، اور نہ ہی 2018 کے انتخابات میں حصہ لینے کا ارادہ ہے. انہوں نے باہر نکلنے کے دروازے کے بار ے میں جانے بغیر کبھی انٹری نہیں دی۔ تحریک انصاف کے بعض رہنماؤں نے  خان صاحب کو درست مشورہ دیا ہے کہ انہیں ایک وقفے لینا چاہیے۔ اگلے انتخابات کے لئے طویل حکمت عملی وضع کی جائے اور انٹرا پارٹی انتخابات کرائے جائیں۔ مشترکہ حزب اختلاف کے ذریعے یا تنہا پرواز سے ہی سہی حکومت پر دباؤ رکھیں لیکن رائے ونڈ مارچ جیسے غیر معقول فیصلے نہیں کریں۔
تازہ ترین