قومیں جب زوال پذیر ہوتی ہیں تو وہ اپنی جگ ہنسائی اور بے توقیری کے بارے میں بے حس ہوجاتی ہیں۔ ان کی ناکامی غربت یا جنگ میں شکست سے نہیں ہوتی۔۔۔گری ہوئی، شکست خوردہ قومیں اپنے مضبوط ارادوں اور ولولوں کے زور پر تاریخ کے سینے پرپاؤں رکھ کر پھر کھڑی ہوجاتی ہیں۔ ناکامی تب ہوتی ہے جب کسی قوم اور کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہے۔۔۔
دکھ یہ ہے کہ دنیا کے سامنے،عالمی چوکوں اور چوراہوں میں ملک کی بدنامی اور بے عزتی ہواور ملک کے اندر کسی کو احساس تک نہ ہو کوئی اظہارِ افسوس نہ کرے کوئی، Reactنہ کرے ۔۔ نہ کوئی سیاستدان اور نہ کوئی چینل اور اخبار۔
چند روز پہلے لندن میں کشمیریوں کے حقوق کیلئے نکالی جانے والی ریلی میں پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کے ورکروں نے آپس میں جو تم پیزار کا مظاہرہ کرکے جو تماشا لگایا وہ پہلی بار نہیں ہوا اس سے پہلے بھی کئی بار بیرونی ممالک میں پاکستان کی مختلف پارٹیوں کے پرچم بردار آپس میں دست وگریبان ہوکر عالمی میڈیا کی زینت بن چکے ہیں۔
ہمارے غیر ملکی دوست ہمیں طعنے دیتے ہیں کہ’’آپ لوگوں کا طرزِ عمل نیچ ذات کے لوگوں جیسا ہے،آپ بلاجھجک دوسروں کو اپنا تماشا دکھاتے ہیں‘‘۔دیہاتوں میں نیچ ذات کے خواتین وحضرات آپس میں لڑتے ہیں ، ایک دوسرے کو ننگی گالیاں دیتے ہیں، چوہدری ان کا تماشا دیکھتے ہیں اور کبھی کبھی انہیں چھڑوابھی دیتے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی پارٹیوں سے وابستہ بیرون ملک رہنے والے پاکستانی بھی اسی طرح آپس میں لڑتے ہیں اور ملک کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔کیا انہیں یا ان کے لیڈروں کو اس کا احساس نہیںہے؟
ہم نے جمہوریت اور جمہوری سیاست جن ملکوں سے سیکھی ہے وہاں سیاست ملکی قوانین کے تابع ہوتی ہے اور سیاسی جھگڑے ضابطوں کی حدود پار نہیں کرتے۔ پاکستان میں بہت سے غیر ملکی رہتے ہیں کیا یہ ممکن ہے کہ اسلام آباد کے ڈی چوک میں یا لندن کے ٹریفالگر سکوائر پر امریکہ کی ڈیموکریٹک یا ریپبلکن پارٹی کے نمائندے اپنا علیحدہ علیحدہ جلوس نکالیں یا فرانسیسی اور جرمن باشندے ایک دوسرے کے خلاف نعرہ زن ہوں! مہذب اور محترم قومیں اس اصول پر متفق ہیں کہ سیاست اپنے ملک کے اندر رہ کر کی جائے گی، بیرون ملک جاکر نہیں۔ دوسرے ملکوں میں جائیں گے تو صرف امریکی بن کر، ڈیموکریٹ یا ریپبلکن بن کر نہیں۔ دوسرے ملکوں کی زمین پر قدم رکھتے ہی وہ صرف برطانوی شہری کہلانا پسند کرتے ہیں۔کنزرویٹویا لیبر پارٹی کے نمائندے نہیں!! ہم اس حقیقت سے کیوں آشنا نہیں ہوسکتے کہ باہر کے ملکوں میں ہماری پہچان ہماری سیاسی پارٹی نہیں ہمارا ملک ہے اور ہمیں اسی نسبت پر فخر کرنا چاہیے اور اسی کو اجاگر کرنا چاہیے۔
تُرکی اور ملائیشیا کے شہریوں میں سیاسی اختلافات کم نہیں ہیں! مگر کبھی کسی نے یہ نہیں سنا ہوگا کہ کسی دوسرے ملک میں ترکوں نے ایک دوسرے پر بوتلیں یا انڈے پھینکے ہوں یا ملائیشیا کے باشندے آپس میں دست و گریباں ہوئے ہوں۔ انہوں نے ایک دوسرے کو ٹکریں ماری ہوں یا جھنڈے چھین کر پھاڑ دئیے ہوں۔
نہ جانے ہمارا طرزِ عمل اتنا گھٹیا اور undignified کیوں ہوجاتاہے؟ سیاست بازی اپنے ملک میں کیا کم ہے کہ ہم نے دوسرے ملکوں میں بھی سیاسی پارٹیوں کی شاخیں کھول رکھی ہیں!اس کا انتہائی بھیانک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج امریکہ اور یورپ میں بسنے والے بھارت کے باشندے متحد ہیں۔ بنگلہ دیشی اکٹھے ہیں، ترک ایک ہیں مگر پاکستانی منتشراور منقسم ہیںوہ مختلف گروپوں میں بٹے ہوئے ہیں انہوں نے قومی پرچم کی بجائے مختلف رنگوں کے جھنڈے اٹھا رکھے ہیں۔ انہوں نے اپنی وفاداری کا رخ ملک کی بجائے پارٹی کی طرف موڑ لیا ہے۔
یہ دیکھ کر صدمہ ہوتا ہے کہ قومی تہواروں پر بھی بیرون ملک رہنے والے پاکستانی، پاکستان کے سبز ہلالی پرچم کی بجائے اپنی اپنی پارٹیوں اور گروہوں کے جھنڈے اٹھائے ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن ہوکر نعرے لگاتے ہیںاوراپنے مخالف سیاسی قائدین کو گالیاں دیتے ہیں۔ نہ جانے ہمیں اپنے گندے توبڑے لندن اور نیویارک کے چوکوں اور چوراہوں میں دھوتے ہوئے شرم کیوں نہیں آتی؟ ۔۔۔۔ دنیا بھر میں اپنا مذاق بنواتے ہوئے ہمیں بے عزّتی کا احساس کیوں نہیں ہوتا! ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ دنیا میں ہمارا تعارف اور ہماری شناخت ہماری سیاسی پارٹی، گروہ یا مسلک نہیں ہے۔ دنیا بھر میں ہماری پہچان صرف پاکستان ہے۔
آپ کو یاد ہوگا چند سال پہلے امریکہ میں الگور، بُش جونیئر سے الیکشن جیت چکا تھا کہ عدالتی فیصلہ آگیا تواس نے سرجھکا دیا۔ چند روز بعد وہ بیرونی دورے پر تھا جب میڈیا نے متنازعہ انتخابی نتائج پر سوالوں کی بوچھاڑ کردی۔ لُبِّ لباب تھا کہ آپ نے نتائج تسلیم تو نہیں کئے ناں! امریکہ کے مدّبر سیاسی راہنما نے جواب دیا ’’امریکہ کی سیاست پر باتیں کرنے کیلئے آپ کا ملک مناسب جگہ نہیں اس کیلئے میرے ملک امریکہ میں بہت کھلی جگہ میسّر ہے۔ ویسے بھی امریکہ کی عزّت اور عظمت میری اور بُش کی اناؤں سے بہت بلند ہے‘‘۔ بھارت کے سیاسی لیڈر بھی بیرون ملک جاکر اندرونی سیاست پر بات نہیں کرتے۔
ہمارے لیڈران جلسوں اور جلوسوں کا شوق اپنے ملک میں ہی پورا کرلیں۔ باہر کے ملکوں میں ایسی کوئی سرگرمی نہیں ہونی چاہیے جس سے پاکستانی تقسیم ہوں اور ان کا اتحاداور اتفاق متاثرہو۔ کئی یورپی ممالک میں پاکستانیوں کی تعداد اب اس قدر زیادہ ہے کہ ان کے نمائندے منتخب ہوکر پارلیمنٹ تک پہنچ گئے ہیں۔ اگر پاکستانی کمیونٹی متحد ہو اور منقسم نہ ہو تو اورزیادہ تعداد میں پاکستانی باشندے وہاں کی پارلیمنٹ کے ممبر بن سکتے ہیں، ان کا وزن بہت بڑھ سکتا ہے اور وہ اپنا اثر رسوخ پاکستان کیلئے زیادہ موثر انداز میں استعمال کرسکتے ہیں۔
سیاسی راہنماؤں سے گزارش ہے کہ خدارا اوورسیز پاکستانیوں کو تقسیم نہ کریں!باہر کے ملکوں میں صرف اور صرف ’’پاکستان سوسائٹی ‘‘کے نام سے سماجی تنظیم قائم ہونی چاہیے جو قومی تہواروں کے موقع پر تقریبات کا انعقاد کرے اور مادرِ وطن کے خوشنما پہلوؤں کواجاگر کرے۔ انہیں ووٹ کا حق بھی ہو مگر وہ پاکستان آکر یا خاموشی سے ڈاک کے ذریعے اپنا ووٹ کاسٹ کرلیں۔بیرونِ ملک پاکستانی سیاسی جماعتوں کی شاخیں قائم کرنا ایک غلط اور بیہودہ نظریہ ہے۔
دنیا میں وطنِ عزیز کی جگ ہنسائی کا موجب بننے والی یہ خرافات فوری طور پر ختم ہونی چاہیے اور ملک سے باہر پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کی شاخیںبند ہونی چاہئیں۔ اس سلسلے میں بڑی پارٹیاں مسلم لیگ (ن) ، تحریک انصاف اور پی پی پی پہل کریں اوراپنی شاخیں بند کردینے کا اعلان کریں باہر رہنے والے پاکستانیوں کی واضح اکثریت اس کا خیر مقدم کرے گی۔
نوٹ:میری کتاب ’’دوٹوک باتیں‘‘کی تقریب رونمائی پرلاہور کے الحمراء ہال میں اتنی بڑی تعداد میں شریک ہوکر ہر شعبۂ زندگی کے ممتاز افراد نے جس محبّت کا اظہار کیا میں اس پر تمام خواتین و حضرات کا شکر گزار ہوں۔ کتاب کی اگلی تقریب انشاء اﷲ 11دسمبر کو کراچی میں ہوگی۔ مڈل ایسٹ، برطانیہ اور امریکہ سے دوستوں کا اصرار ہے کہ وہاں بھی تقریبات منعقد ہوں۔ ناچیز کو اس ادنیٰ مساعی کی اس قدر پذیرائی کا اندازہ نہیں تھا۔ اس پر اﷲ سبحانہ تعالیٰ کی رحمتوں کا جتنا بھی شکر اداکروں کم ہے۔