• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ٹیگور نے لکھا تھا ’’اس دنیا کے جشن میں مجھے مدعو کیا گیا؍اور اس طرح میری زندگی معرض وجود میں آئی؍میری آنکھوں نے دیکھا اور میرے کانوں نے سنا۔ شعیب سلطان صاحب پر ٹیگور کی شاعری اس طرح منطبق ہوتی ہے جیسے اندھیرے کے جانے کے بعد، روشنی کی پہلی کرن۔ یہ شخص دیکھنے میں بہت خاموش، گفتار میں بہت ملائم اور لہجے میں بہت پر خلوص نظر آتا ہے۔ شعیب صاحب میں سول سرونٹ کی کوئی بھی وہ برائی نہیں ہے جو ان افسران کی گردنوں میں سریا ڈال دیتی ہے۔ سبب یہ ہے کہ ان کے گرو اختر حمید خان تھے۔ اختر حمید خان ہمارے بھی گرو تھے۔ ہم مٹّی تھے، وہ ہمیں سونا بنانا چاہتے تھے۔ کومیلا میں کام کرتے انہیں میں نے اپنی جوانی میں دیکھا۔ پشاور رورل اکیڈمی سے اورنگی میں لوگوں کو کام سکھاتے اور اپنے ہاتھ سے اینٹیں جوڑ کر گھر بنانا انہوں نے مزدور پیشہ مردوں اور عورتوں کو سکھایا۔ یہیں اختر حمید خان اور شعیب سلطان کی باہمی عقیدت کا وہ بنیادی رشتہ قائم ہوا جس کی روح اب تک سلامت ہے۔
یوں تو ہر حکومت یہی کہتی ہے کہ ہم لوگ غریبوں کیلئے کام کرنے کیلئے پہلے سیاست میں، پھر حکومت میں آئے ہیں مگر وہ دن ہوا ہوئے کہ جب پسینہ گلاب تھا۔ شعیب صاحب نے اختر حمید خان کی طرح خاکساری سیاست اور کھدر تو نہیں پہنا مگر ان کی عوام کی خدمت کی، ہر لہر کو اپنے اندر سمو لیا۔ کوئی سوچ سکتا ہے کہ ایک ڈپٹی کمشنر اپنی بھونپو والی گاڑی کو چھوڑ کر گلگت کی گلیوں میں بیٹھ کر، ان پڑھ لوگوں کو اپنے علاقے میں صفائی رکھنے، خود اپنے ہاتھ سے کام کرنے اور اپنے محلوں میں ایسی کمیٹیاں بنانے پہ آمادہ کریں کہ جو صحت سے لے کر معیشت اور کھیتی سے لے کر پھلواری کو ایسے سجائیں کہ آغا خان بھی ان آبادیوں کی بدلی ہوئی شکل دیکھنے کیلئے بار بار آیا کریں۔ آج بھی جب خشک خوبانیاں میرے پاس آتی ہیں تو شعیب سلطان کی مہک ان میں سے آ رہی ہوتی ہے۔ شعیب سلطان کے اندر صرف اختر حمید خان ہی کی روح نہیں ہے، ماوزے تنگ،چی گویرا اور ہوچی منہھ کی شخصیات کی جھلکیاں بھی ہیں، حالانکہ پاکستان میں ڈکٹیٹرشپ اور فاشزم کا زمانہ ہی مسلّط رہا ہے۔ معلوم شخصیات کا تو سب کو علم ہوتا ہے۔شعیب بھائی نامعلوم سناٹوں میںبھی آوازیں جگا دیتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ بےانصافی سہنا، بے انصافی کو قبول کرنے کے برابر ہے۔ یہ وہ درویش ہیں جن میں عیاری نہیں ہے۔ انہوں نے اس نئے نظام کا ڈول ڈالا ہے کہ جہاں دور دراز دیہاتوں میں لڑکیاں بھی لڑکوں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہیں۔ میرے اندر جو احتجاجن تھی اور ہے، شعیب بھائی کے سامنے جا کر، دودھ پہ بیٹھی موٹی ملائی بن جاتی ہوں۔ ہرچند احتجاج ان کے مزاج میں نہیں ہےمگر وہ نوآبادیاتی نظام اور سامراجیت کے خلاف ہیں۔ اپنے ٹھنڈے مزاج کے باعث انہوں نے ضیاء الحق کا دور بھی سلیقے سے گزار لیا کہ انہوں نے علامہ اقبال سے سیکھا ہے ’’آسماں ڈوبے ہوئے تاروں کا ماتم کب تلک‘‘
شعیب صاحب نہ کسی سیاسی جماعت سے وابستہ رہے اور نہ کسی سیاسی تحریک سے۔ سانپ کے زہر کو تریاق بنانے کا فن انہیں آتا ہے۔ انہیں رشتوں کی ہم رشتگی کا توازن قائم رکھنا اور اس نظریہ پر قائم رہنا کہ جس میں انفرادیت اور قومیت دونوں ہوں۔ انہوں نے سمندر کو دریا بنا کر دور دراز کے دیہات میں ایسی تنظیمیں قائم کی ہیں جہاں لوگ قرض لے کر پائی پائی واپس کر دیتے ہیں۔ غریب بے ایمان نہیں ہوتا، یہ ان کا یقین ہے اور ثابت بھی کیا ہے کہ کسی شخص کو عزت دو تو وہ بھی تمہیں عزت سے بلائے گا مگر یہ بات سیاستدانوں پر لاگو نہیں ہوتی ہے۔
شعیب سلطان کے اندر شعلے کی طرح بھڑکنے اور شمع کی طرح جلتے رہنے والا دل ہے جس نے اپنی بیوی سے عشق، نئی نئی آنے والی مونچھوں کے دنوں میں کیا تھا اور اس کی وفات تک، وہ عشق اپنی بےچینیوں کے ساتھ سلامت رہا۔ یہی سبق اپنی بیٹیوں کو بھی سکھایا۔ بہت کم باپ اپنی بیٹیوں سے دوستی قائم رکھتے ہیں۔ ان کی دوستی ہو بھی تو بیٹوں سے ہوتی ہے۔شعیب بھائی نے وہ صدمہ بھی اٹھایا جہاں گیس سے دم گھٹنے سے ان کے دو بچّے جاں بحق ہو گئے تھے پر انہوں نے اپنے زخموں کی نمائش نہیں کی بلکہ ہر خوشی اور ہر دکھ کو دیہات میں کام کرنے کی جرأت میں سمو دیا۔ شعیب بھائی کو جب مشرقِ بعید کا اعلیٰ انعام ملا تب بھی مسکرا کر خاموش ہو گئے اور جب ہندوستان میں راہول گاندھی کی دعوت پر مہاراشٹر میں ایسے منصوبے بنائے کہ وہاں کے چیف منسٹر نے بھی ان کو انڈیا آنے کی بارہا دعوت دی اور راہول گاندھی تو شعیب بھائی پر فدا تھا۔
معرفت میں کہا جاتا ہے کہ ہم زاد بہت مدد کرتا اور راستے سمجھاتا ہے۔ شعیب صاحب کا بھی ہم زاد راشد باجوہ ہے۔ راشد نے بھی شعیب صاحب کا تتبع کرتے ہوئے سول سروس کو بستے میں بند کیا اور کان پر قلم رکھ کر شعیب صاحب کے اشاروں کو پالیسیاں بناتے ہوئے مائیکرو فنانس بینک بہاول پور میں گلگت کے رہنے والے ظہور بیگ کی ہمراہی میں قائم کیا۔ جب میں اس علاقے کے دیہاتوں میں جا کر عورتوں کو اپنے دوپٹے کی گانٹھ کھول کر پیسے جمع کراتے ہوئے دیکھتی ہوں تو آنکھوں میں خوشی کے آنسو آ جاتے ہیں۔ قالین بافی کرتی ہوئی عورتیں ہوں کہ اپنے گھر کے ایک کونے میں دکان ڈالے ہوئے ایک بزرگ خاتون یا دودھ دھوتی ہوئی عورتیں اور بازار میں دودھ بیچتے مرد، تو مجھے ایلیس فیض کا پڑھایا ہوا سبق یاد آ جاتا ہے کہ انہوں نے فیض صاحب کے ساتھ مل کر خاص کر جب فیض صاحب قید میں تھے تو کس طرح نوکری کر کے اپنی بچیوں کو پڑھایا اور صبر کرنا سکھایا تھا۔
شعیب صاحب کی شخصیت بہت حد تک فیض صاحب سے ملتی جلتی ہے۔ وہ بہت اچھے سامع ہیں۔ آپ کی بات سن کر وہ جب اپنا نقطۂ نظر پیش کرتے ہیں تو دوسرا قائل ہو جاتا ہے۔ معلوم نہیں وہ خدا کو کتنا مانتے ہیں مگر ان کی زندگی یہ ہے کہ ’’میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا۔‘‘ یہیں میاں محمد بخش کا مصرعہ یاد آتا ہے ’’جے دیکھاں میں عملا والے کچھ نئیں میرے پلّے۔‘‘
تازہ ترین