• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج کل اندر اور باہر ایک عجیب موسم کے شکنجے میں ہیں۔ پورے ماحول پر عجب وحشت طاری ہے۔ پچھلے کئی مہینوں سے جاری خزاں کا عالم کچھ اور طویل ہوا جاتا ہے۔ ہر منظر پر پت جھڑ کے ساتھ ساتھ بدلتی رُت کی اداسی اور وحشت چھائی ہے۔ سخت سردی شریانوں میں خون منجمد کئے دیتی ہے، اپنوں کے رویوں میں موجود سرد مہری اور بیگانگی دِل کو گہرے دکھ اور کرب سے روشناس کرتی ہے مگر وہ پھر بھی سب کچھ سہتے ہوئے ہر لمحہ متحرک ہے۔ شاید یہی اس کا وظیفہ ہے کیوں کہ اسے اکثر ایسے حالات کا سامنا رہتا ہے لیکن دل کی اداسی شخصیت کو توڑ پھوڑ دیتی ہے اور جب اندر اور باہر ہر طرف درد کا راج ہو تو مجروح احساس کا عالم کیا ہو گا؟ کہا جاتا ہے کہ بدلتا موسم محبتوں، رویوں اور سوچ پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ انسان کے لئے بدلتے موسموں کے ساتھ مزاج کو ہم آہنگ کرنا شاید اس لئے کٹھن ہوتا ہے کہ اس کے وجود کو موسم کی کسی خاص آہٹ، رنگ، خوشبو اور ادا کی عادت ہو جاتی ہے۔ یہ عادت اپنائیت میں ڈھل کر دوستی کا احساس دلاتی ہے جس سے فوری بچھڑنا محال نظر آتا ہے۔ آج کل آہٹ اور خوشبو کی بجائے ہر سو عجب خامشی کا راج ہے، شاید بدلنے والے کو بھی کرب کے عالم کا سامنا ہے، شاید پھولوں کے مسلے جانے کے قلق نے اس رُت کو ملول کر رکھا ہے، شاید پرانے پتوں سے جدائی کا غم ماحول میں یاسیت کا باعث ہے۔ تعلق اور رشتے بھی پتوں کی طرح ہوتے ہیں ذرا سی ناموافق ہوا چلے تو ایک لمحے میں محبت کے شجر کو الوداع کہہ کر ہوا کے دوش پر بکھر جاتے ہیں، رشتوں کی طرح موسم میں بھی منافقت کی ادائیں موجود ہوتی ہیں۔ کبھی کبھی وہ اپنے ظاہر اور باطن کو مکمل عیاں نہیں کرتا یعنی دل کی بات نہیں کہتا جس کی وجہ سے انسان تذبذب کا شکار ہو جاتا ہے۔ ذات کے شجر پر بھی خزاں کا موسم آتا رہتا ہے، کبھی تو ٹھہر ہی جاتا ہے۔ موسموں کا تغیر تو فطری نظام کے تابع ہے مگر ذات کی داخلی اور باطنی کیفیات کے تابع موسم کا ضابطہ بالکل مختلف ہے۔ موسمی تغیر کے نتیجے میں خزاں کے بعد بہار کی آمد فطری اور طے شدہ حقیقت ہے لیکن ذات کے مزاج کا پلّو اگر گلاب کے کانٹے میں اٹک جائے تو بعض اوقات اس سے نجات حاصل کرنا مشکل ہو جاتا ہے اور کانٹے کی چبھن دھڑکن میں تیر کی طرح سرایت کر کے روح اور بدن کا تعلق توڑ دیتی ہے۔ اگر فطرت کے ضابطوں کی طرح دُکھ سکھ اور ہجر و وصال کے بھی آنے جانے کے اوقات مقرر ہوتے تو شاید انسان اتنا اداس اور یاسیت کا شکار نہ ہوتا۔ چند دن پہلے مالی نے اچانک میری کھڑکی سے نظر آنے والے گُلوں کے سر قلم کردیئے۔ شاید وہ بھی بدلتی رُت کو محسوس کروانا چاہتا تھا۔ لیکن یہ قتل میرے احساس کو مجروح کر گیا۔ وہ پھول جنہیں مرجھا کر ختم ہونا ہی تھا کے کٹنے پر دل لہو لہو ہو گیا کیوں کہ وہ عام پھول نہیں تھے، وہ مجھ سے باتیں کرتے تھے، میری زبان سمجھتے تھے، مجھے دلاسہ دیتے تھے، میری کہانیاں سنتے تھے، میری ر وح کی آسودگی کا سامان کرتے تھے وہ اک پل میں مٹی میں مل گئے، آخر ان کی میعادِ حیات کا انتظار کیوں نہیں کیا جاتا؟
اکثر پھول خشک ہو کر بیج بن جاتے ہیں یعنی نئی زندگی کے جنم کا سبب بنتے ہیں پھر انہیں وقت سے پہلے کاٹ کر مستقبل کے رنگوں کی جگہ بنانا کیوں ضروری ہے؟ کیا یہ فطرت کے برعکس عمل نہیں کیوں کہ پہاڑوں، وادیوں اور میدانوں میں کوئی مالی نہیں ہوتا جو کانٹ چھانٹ کے ذریعے فطرت کے حسن کو تبدیل کرنے کی کوشش کرے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسانی وجود فطرت سے ہم آہنگ کیوں نہیں ہو سکا حالانکہ پوری کائنات میں ایک ہی روح جاری و ساری ہے۔ کائنات کی ہر شے احساس سے عبارت ہے۔ وہ مکالمہ کرتی ہے اور ہوائوں کی سرگوشیاں سنتی ہے۔ انسان یہ سرگوشیاں سننے پر قادر کیوں نہیں ہے؟ کہیں اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ اس نے خود کو فطرت سے الگ سمجھتے ہوئے خود کو اس کا حاکم تصور کر لیا ہے حالانکہ وہ خود بھی فطرت کے نظام کا حصہ ہے تو وہ اس کے اصولوں سے بغاوت کرکے کیسے خوش رہ سکتا ہے؟ آج کا انسان دیواروں میں محبوس ہو کر بالکل غیر فطری ماحول کا اسیر ہو چکا ہے جس کی وجہ سے اس کا رابطہ پھولوں، خوشبوئوں، جگنوئوں، تتلیوں، چاند اور ستاروں سے منقطع ہو چکا ہے۔ اسے فطرت سے دوبارہ جڑت کے لئے نہ صرف اسے منانا ہو گا بلکہ اپنے وجود کو اس کے نظام سے ہم آہنگ کر کے روح اور بدن کی مسافت کو کم کرنا پڑے گا ورنہ یہ مسافت زیست کی کثافت میں اور اضافہ کر کے اسے لطافت سے محروم کردے گی جس سے وہ نہ صرف فطرت سے جدا ہو گا بلکہ اپنی ذات سے بھی بچھڑ جائے گا۔ تخلیق کار کا مسئلہ ذرا مختلف ہے۔ زندگی اسے ویسے نہیں ملتی جیسے عام انسان سے ملتی ہے۔ ملن کی یہ تفریق اس کے اعلیٰ روحانی اور تخلیقی شعور کی کارفرمائی ہے۔ تخلیق کار حساسیت کی اس سطح پر ہوتا ہے جہاں عام فرد پہنچنے اور محسوس کرنے کی قدرت سے عاری ہوتا ہے۔ حساسیت کی یہ بلند سطح احساس کی وہ صلیب ہے جہاں وہ خود اپنے آپ کو لے کرجاتا ہے۔ حساس انسان زیادہ تر اپنی ذات کے سائے تلے زندگی بسر کرنا پسند کرتا ہے کیوں کہ اس کے جداگانہ نظریات و تصورات اس کے سائبان ہوتے ہیں۔ اسے خبر ہوتی ہے کہ زندگی کو صرف مفادات کی نظر سے دیکھنے والے مشکل وقت میں اس کی دلجوئی کی بجائے دھوپ اوڑھ لیں گے۔ اس کا تجربہ اسے کسی اور کے سائے سے اجتناب کا درس دیتا ہے۔
سب دھوپ کا لباس پہن کر کھڑے رہے
سایہ یہاں کسی بھی شجر نے نہیں دیا
وہ میرا کچھ نہیں تھا مگر اس کے باوجود
دل میں اسے کسی کے اُترنے نہیں دیا
تبدیلی اور تغیر فطرت ہے تو انسان کیوں بدلتے ہوئے دو موسموں کے بیچ میں معلق ہو کر رہ جاتا ہے؟ وہ فوری طور پر نئے موسم سے جڑت قائم کرکے پرانے کو الوداع کیوں نہیں کہہ دیتا؟ شاید اس لئے کہ دو موسموں کے درمیان کا فاصلہ ہی اصل میں تغیر کا عمل ہے جس کے تحت غیر محسوس طریقے سے آہستہ آہستہ نیا رنگ، روپ اور تاثر پرانے کی جگہ لیتا ہے۔ یہ فطرت کا اصول ہے کہ تغیر اور تبدیلی میں آہستگی اور شائستگی کا توازن برقرار رہے۔ یکدم اور فوری تبدیلی کو انسانی فطرت برداشت کرنے کی متحمل نہیں ہوتی اس لئے یکدم تبدیلی بغاوت کے مترادف گردانی جاتی ہے جب کہ فطرت بغاوت کی بجائے انقلاب کے سامان کرتی ہے اور انقلاب ہمیشہ روایت اور نظام کے اندر سے پھوٹتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حسن اور توازن کو قائم رکھنا فطرت کا شیوہ ہے اور اسی سے خیر کے چشمے پھوٹتے ہیں۔ اگر یہی فارمولا باقی سوشل سائنسز کے ساتھ ساتھ پولیٹیکل سائنس پر بھی لاگو کیا جائے تو یہ دیکھنا بہت ضروری ہو جاتا ہے کہ پولیٹیکل سائنس میں کی جانے والی کوشش بغاوت کے زمرے میں آئے گی یا انقلاب کے۔ بدلتے موسموں کی طرح اگر تعلق بھی آہستہ آہستہ اپنا رُخ بدلیں تو شاید انسانی دِل اسے بھی قبول کر لے اور پرانے تعلقات کا ماتم کرنے کی بجائے زندگی کو سمجھوتے کی نئی شکل سے ہم آہنگ کر لے۔ نہ جانے فضا میں پھیلے زہر سے کب سانسوں کو نجات حاصل ہو گی؟ نہ جانے بدلتی قدریں کب اپنا احتساب کریں گی؟ اور دل کا موسم بدلے گا۔
تازہ ترین