صرف قصہ خوانی بازار پشاور کے ایک کلومیٹر کے رقبے میں اب تک 21 دھماکے ہو چکے ہیں ۔ پاکستانی شہر اب اپنی مخصوص ثقافت ،زبانوں ،کھانوں ،عمارتوں یا قدرتی مناظر کی وجہ سے نہیں پہچانے جاتے ،بلکہ دہشت گردی کا کوئی نہ کوئی واقعہ اب ان شہروں کی شناخت بن چکا ہے ۔ بد قسمتی سے ہم ایک ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جہاں روز لاشیں اٹھائی جاتی ہیں ۔ ہم نے اپنی زندگی نفرت اور تشدد کے ساتھ گزارنے کا ‘‘ڈھنگ ’’سیکھ لیا ہے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہر شخص موت کے انتظار میں ایک انتشار زدہ زندگی کے ساتھ جینے کا غیر اعلانیہ معاہدہ کر چکا ہے ۔ اس ملک میں کوئی ایسا لسانی ،سیاسی یا مذہبی گروہ موجود نہیں جن کے پاس ماتم کرنے کے لیے لاشیں موجود نہ ہوں۔
دہشت گردوں نے بازاروں ،اسکولوں اور اسپتالوں کے علاوہ تفریحی مقامات جیسے نرم اہداف کا انتخاب کر کے بزدلانہ کارروائیاں کیں ۔ بولان میڈیکل کالج کی طالبات اور پشاور سمیت کئی مقامات پر معصوم طالب علموں پر حملہ کرکے وہ معاشرے میں بے چینی اور انتشار کا درجہ حرارت بڑھانا چاہتے تھے۔ گلوبل کولیشن فار پروٹیکشن آف اسکول کی رپورٹ کے مطابق 2009 سے 2012 کے دوران پاکستان میں اسکولوں پر 800 سے زیادہ حملے ہوچکے ہیں۔ صرف سوات میں تین سو زائد اسکولوں کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا ۔ دہشت گردی کی ان بڑی کارروائیوں کے باجود سیکورٹی کے حوالے سے کوئی عملی اقدام نہیں کیا گیا ۔ دہشت گردی کے خاتمے کی گفتگو کو ایران و طوران کی بحث میں الجھا کر انتشار فکر پیدا کرنا بھی دہشت گرد ذہنیت کا سوچا سمجھا منصوبہ ہے ۔ہماری نسل اور تعلیم دونوں ہی دہشت گردوں کا اصل ہدف ہیں ۔بحیثیت شہری سیکورٹی امور سے متعلق سوال سوچنا بھی مشکل کام ہے کیونکہ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ کسی تشویش ناک خبر کا سبب بھی بن سکتا ہے ۔60ہزار سے زائد افراد دہشت گردی میں مارے جاچکے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف تمام اقدامات فائلوں سے آگے نہیں بڑھ سکے ۔ اس وقت بلوچستان ،فاٹا ،کراچی اور پشاور تمام دہشت گردی کی لپیٹ میں ہیں لیکن ملک میں کوئی جامع سیکورٹی پالیسی وجود نہیں رکھتی ۔ ملک کے اندر 29 سیکورٹی ایجنسیوں کی موجودگی کے باوجود دہشت گردی کی خوفناک اور پر اسرار کارروائیاں جہاں حالات کی سنگینی کو ظاہر کر تی ہیں وہیں ان اداروں کی اہلیت اور صلاحیت پر بھی سوال ہیں ۔سیاسی جماعتیں اپنا وجود تو رکھتی ہیں لیکن اپنا وجود ثابت کر نے کی طاقت اور اختیار نہیں رکھتیں جس کا اظہار کبھی کبھار سیاسی بحران کی صورت نکلتا ہے ۔ یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ ملک کے اہم ترین مسائل کے بارے میں سیاسی جماعتوں اور عسکری قیادت کے سوچنے کا انداز مختلف کیوں ہے۔؟ پارلیمان میں دہشت گردی کے خلاف 8 قراردادیں منظور ہوئیں لیکن عملی طور پر کوئی قدم نہیں اٹھایا جا سکا ۔ملک میں انتہا پسند ایک مذہبی فکر موجود ہے جو اپنی مخصوص طرز کی تشریح دین کو قوم پر مسلط کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ یہ تعبیر دین ریاست کے وجود کے لئے ایک چیلنج سے کم نہیں ۔ دین کی اس من پسند تعبیر کا ہی نتیجہ ہے کہ مصرو شام سمیت خلیجی ملکوں کی پراکسی وار کے لئے پاکستان کو میدان جنگ میں بدلا جا رہا ہے ۔ ملک میں داعش کی وال چاکنگ کی جاتی ہے تو دوسری جانب حزب اللہ کے جھنڈے کھلے عام جلوسوں میں دیکھے جا سکتے ہیں ۔ مختلف الخیال افراد کا آزادی کے ساتھ مختلف ممالک کے سفارت خانوں میں گہرا ربط و تعلق بھی قابل غور ہے ۔ حالات یہاں تک آن پہنچے کہ دہشت گردی کی ان خونی وارداتوں کی مذمت کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی جاتی ۔عسکریت پسندوں کے مؤقف کی ترجمانی علی الاعلان منبر ومحراب سے ہوتی ہے اور کالعدم تنظیمیں کھلے عام عوامی مقامات پر جھنڈے اٹھائے جلسے کرتی ہیں ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ملک کے نام نہاد پالیسی سازوں کو ادراک ہی نہیں کہ انتہا پسندانہ فکر کا بیانیہ کیا ہے اور اس کا مخالف بیانیہ کیا ہو سکتا ہے ؟
وفاق کے زیر اہتمام قبائلی علاقوں میں بد امنی اپنے عروج پر ہے اور 14برس کے بعد بھی صورتحال جوں کی توں ہے ۔ پاک فوج نے وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں تھری ڈی ’’ ڈائیلاگ، ڈویلپمنٹ اور ڈیٹرنس ‘‘ کی پالیسی شروع کی تھی تاہم فوج کسی بھی ایسے گروہ کے ساتھ بات چیت کرنے کے حق میں نہیں جو پاکستان کے آئین اور قانون کو تسلیم نہیں کر رہا۔ پاک فوج کے نئے ڈاکٹرائن کے مطابق داخلی سلامتی کا مسئلہ بھارت سے بھی زیادہ خطرناک ہے اور دہشت گردی کے خاتمے تک اس ڈاکٹرائن کو تبدیل کیا جائے گا اور نہ ہی اس پر کسی قسم کا سمجھوتہ کیا جائے گا ۔آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا سانحہ پشاور کے بعد کابل کا اہم ترین دورہ بھی نتائج کا منتظر ہے ۔ پڑوسی ممالک سے جو خونی کھیل پاکستان میں کھیلنے کی ریاستی یا غیر ریاستی سطح پر کوششیں ہو رہی ہیں ،اس سے پورے خطے کے امن اور معیشت کو خطرات لاحق ہیں۔
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ حکومت اور عسکری اداروں کے حالیہ اقدامات پالیسی شفٹ ہے لیکن یہ بات علامتی طور پر ہی کی جاسکتی ہے کیونکہ ابھی معاملہ صرف پھانسیوں اور بیانات تک ہی محدود ہے ۔ انتہا پسندانہ سوچ اور فکر کی ترویج اور اشاعت کے تمام ادارے پہلے سے زیادہ پوری طرح متحرک ہو چکے ہیں ۔ ان حالات میں ممبئی حملوں میں مبینہ طور پر ملوث ذکی الرحمان لکھوی کی رہائی کی خبر نے کئی جملوں کے مفہوم بدل ڈالے ہیں ۔ مناسب وقت کا انتظار بہترین حکمت عملی ہے لیکن مناسب وقت کی موجودگی سے فائدہ نہ اٹھانا صلاحیت کو مشکوک بنا دیتا ہے ۔ اس سے بہتر کونسا وقت ہو گا کہ جب ہم اپنی پالیسی کو تبدیل کرتے ہوئے تزویراتی گہرائی کے نام پر ذخیرہ شدہ اثاثوں کی ذہنی اور فکری تشکیل کو تبدیل کریں گے۔ ؟
سی ایم ایچ پشاور کے میدان میں ایک ماں اپنی گود میں میں تین بچوٕں کی لاشیں لیے کانپ رہی تھی ۔ اس کی پتھرائی آنکھیں پوچھ رہی تھیں کہ کیا اس کی اجڑی گود کے نتیجے میں پاکستان میں امن کا قیام ممکن ہو سکے گا یا ماؤں کو مرنے کے لئے مزید بچے پیدا کرنا ہوں گے ؟
عوام کا امن او امان کے باب میں ریاستی کارکردگی پر مایوسی کا اظہار دونوں کے درمیان اعتماد کے رشتے کو ختم کر دیتا ہے ۔اگر آپ چاہتے ہیں کہ عوام اور ریاست کا رشتہ مضبوط ہو تو اس کے لئے لازم ہے کہ عملی طور پر مایوس فضا کو بدلا جائے ۔ سیاسی اور عسکری قیادت نے اچھے فیصلے کئے لیکن اصل امتحان صلاحیت کا ہے۔ جو امتحان ہی نہیں ایک بڑا سوال بھی ہے ؟