• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پنکی ماشاء اللہ بڑی ہوگئی ہے۔ لاہور کی ایک نجی یونیورسٹی میں پڑھاتی ہے۔ شادی ہوچکی اور ایک پیاری سے بچی کی ماں ہے۔ اسلام آباد آئے تو ملنے ضرور آتی ہے۔ کیونکہ ہمارے ایک نہایت عزیز بچپن کے دوست کی اکلوتی اولاد ہے۔ جو ہماری طرح سرکاری ملازمت میں تھے اور اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ پنکی شروع سے ہی لال گلابی اور تروتازہ تھی۔ یہی اس کے نک نیم کی وجہ بھی بنی۔ پھر نہ جانے کس کی نظر لگی گئی، کہ سات برس کی عمر میں ایک عجیب و غریب قسم کی بیماری میں مبتلا ہوگئی۔ سارا جسم نیلا پڑجاتا تھا اورزور دار جھٹکے لگتے تھے۔ یہ ایک طرح سے دورہ کی کیفیت ہوتی تھی، جو 15/20 منٹ میں خود ہی ٹھیک ہوجاتی تھی۔ گویا کہ کچھ ہوا ہی نہ ہو۔مگر وہ 15/20 منٹ قیامت کے ہوتے اور معصوم کی اذیت دیکھی نہ جاتی تھی۔ والدین نے علاج کی انتہا کردی۔ ایک سے بڑھ کر ایک اسپیشلسٹ کو دکھایا۔ یورپ اور امریکہ تک بھی ہو آئے، لیکن بیماری وہیں کی وہیں رہی، رتی بھر افاقہ نہ ہوا۔ ایلوپیتھی کے بعد حکمت اور ہومیوپیتھی کو بھی آزمایا۔ پھر دم، جھاڑ اور تعویذ گنڈے کی باری بھی آئی۔ مگر بیماری کی مستقل مزاجی میں فرق نہ آیا۔ وہی علامات، وہی دورانیہ اورذہنی اذیت، یوں لگتا تھا کہ روگ کسی کو سمجھ ہی نہیں آرہا اور سب ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔
بالآخر جب ہر طرف سے مایوس ہوگئے تو والدین نے بھی قسمت کالکھاسمجھ کرحالات سے سمجھوتہ کرلیا۔ دوست احباب بھی ان کے دکھ کو سمجھتے تھے اور بچی کی بیماری کے ذکر سے اجتناب کرتے۔ ایک اتوار صبح ہی صبح ہمارے گھر کی گھنٹی بجی۔ گیٹ کھولا تو میرا دوست اہلیہ اور بچی سمیت گاڑی میں موجود تھے۔ بولے جلدی سے چینج کر آئو۔ کہیں جانا ہے۔ شام تک واپس آجائیں گے۔ بھابھی کو بھی لے لو۔ ہم گاڑی میں ہی بیٹھے ہیں، بس جلدی سے آجائو، عجب مخمصہ تھا۔ اتنے میں بیگم بھی باہر آگئیں۔ یہ سب سنا تو پریشان ہوگئیں۔ بولیں،بھئی ضرور چلیں گے۔مگر اتنی ایمرجنسی بھی کیا؟ دو منٹ بیٹھیں تو سہی۔ ہم کپڑے بدل لیں، چائے کا کپ پی لیں، اور غالباً آپ لوگوں نے بھی تو ناشتہ نہیں کیا۔ غرض بڑی مشکل سے انہیں گاڑی سے نکالا، ناشتہ پیش کیا، جسے انہوں نے ہاتھ تک نہیں لگایا،ان کی یہ حالت دیکھ کر ہم نے بھی جلدی جلدی کپڑے تبدیل کئے، دو چار لقمے زہر مار کئے اور ان کے ساتھ گاڑی میں جابیٹھے۔ گاڑی چل پڑی تو پوچھا کہ اب تو بتادو، کہاں کا پروگرام ہے اور ایسی ایمرجنسی کیا تھی؟ بولے ہمیں دھنکہ شریف جانا ہے۔ مانسہرہ سے ذرا آگے چھوٹی سی جگہ ہے، کسی ملنگ بابا کا سنا ہے کہ کھاتے ہیں نہ پیتے، سوکھ کر کانٹا ہوگئے ہیں۔لوگوں کی ڈانٹ ڈپٹ خوب کرتے ہیں اور مارپیٹ بھی۔ مگر جاجت مند بدمزہ نہیں ہوتے اورمن کی مراد پاکر ہی لوٹتے ہیں۔ کسی نے بتایا ہے کہ پنکی وہاں ہوآئی تو ٹھیک ہو جائےگی۔جس یقین اورسرشاری کے ساتھ موصوف نے یہ سب کہا، حیران کن تھا، مگرچپ رہےکیونکہ ضرورت مند دیوانہ ہوتا ہے اور اکلوتی بیٹی کی بیماری نے انہیں واقعی دیوانہ بنادیا تھا۔
پشاور روڈ پر ابھی ترنول کے پاس ہی پہنچے تھے کہ اچھی بھلی فراٹے بھرتی گاڑی یکایک بند ہوگئی۔ مستری ڈھونڈنے اور گاڑی کی درستگی تک لمبی کہانی ہے،جس کی یہاں گنجائش نہیں۔بس اس سے اندازہ لگالیجئے کہ جولائی کی سلگتی دوپہر اسی عمل میں گزری اور گاڑی دوبارہ چلنے کے قابل ہوئی تو دن کا ایک بج رہا تھا۔ ہم نے واپسی کا ہلکا سا اشارہ بھی دیا کہ اب دیر ہوچکی ہے۔ گھر واپس چلتے ہیں، کل آجائیں گے۔مگر موصوف نے سنی ان سنی کردی۔ٹیکسلا پہنچ کر انہوں نے جی۔ٹی روڈ چھوڑ دی اور گاڑی میوزیم روڈ پر ڈال دی۔ بولے یہ راستہ قدرے شارٹ ہے۔ وقت کی بچت رہے گی۔ عجائب گھر سے ذرا آگے سڑک زیر تعمیر تھی اور ٹریفک سائیڈ سے نکل رہی تھی۔ تار کول پگھلائی جارہی تھی اور مزدور پتھر توڑ کر بجری بنارہے تھے۔ جب ہم وہاں پہنچے تو وہ ان ہی پتھروں پر بوسیدہ سی صف بچھائے ظہر کی نماز ادا کررہے تھے۔ ذرا ہی آگے بڑھے تھے کہ گاڑی رک گئی۔ میری تو جان ہی نکل گئی کہ یہ پھر سے جواب دے گئی۔ پوچھاکیا، ہوا، خیریت؟ جواب ملا، ہاں خیریت ہے، بس منزل آگئی ہے۔ مگر ہمیںتو بہت آگے جانا ہے۔ دھنکہ شریف، میں نے کہا۔ جواب ملا، نہیں۔ اب نہیں جانا۔ موصوف نے گاڑی ایک طرف پارک کی اور پانی سے بھری بوتل ہاتھ میں لئے ان نمازیوں کی طرف بڑھے،جو اب سلام پھیر چکے تھے۔ سب کے ساتھ سلام دعا کی اور بڑی لجاجت سے بولے کہ اس پانی پر دم کردیں۔ مزدور پیشہ ناخواندہ پختون انہیں حیرت سے دیکھ رہے تھے اور غالباً ان کی بات سمجھ بھی نہ پائے تھے۔ اتنے میں ذرا بڑی عمر کا مزدور پشتو آمیز لہجے میں بولا، نہ بابا نہ، ہم گنہگار لوگ ہیں،ہم یہ کام نہیں کرسکتے۔مگر موصوف تو گویا ان کے گلے ہی پڑگئے۔ نہیں بزرگو، یہ تو آپ کو کرنا ہوگا۔ اورمیں پانی دم کرائے بغیر یہاں سے نہیں جائوں گا۔ سب کو پھونک مارنا ہوگی۔ عجب منظر تھا۔ اِدھر سے اصرار، اُدھر سے انکار۔ مگر موصوف کی رقت اور دلسوزی کے سامنے حیرت زدہ پختونوں نے بالآخر ہتھیار پھینک دیئے۔ شاید ان کے کام کا حرج ہورہا تھا اور بحث مباحثہ میں وہ مزید وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے تھے۔ سب نے باری باری بوتل پر پھونک ماری اور کام میں مشغول ہوگئے۔ موصوف نے وہیں سے گاڑی موڑی اور ہم اسلام آباد لوٹ آئے۔ راستے میں ہم سب چپ رہے۔ کیونکہ کوئی بھی کچھ کہنے کے موڈ میں نہ تھا۔ انہوں نے ہمیں ہمارے گھر ڈراپ کیا اور کچھ کہے سنے بغیر چلے گئے۔
اس دوران راقم کو مہینہ بھر کیلئے ملک سے باہر جانا پڑا۔ واپسی کو دو دن ہی گزرے تھے۔ کہ موصوف کا فون آیا۔ ہمت کرکے پنکی کی صحت کا پوچھا، تو بولے اسی سلسلے میں تو فون کیا ہے۔کل شام آپ اور بھابھی ہماری طرف آئیں گے۔ کچھ اور دوست بھی آرہے ہیں۔ باقی باتیں تب۔ یہ کہا اور فون بند کردیا۔ اگلی شام ان کے گھر گئے تو ایک جشن کا سماں تھا۔ بہت سے دوست احباب جمع تھے۔ پنکی بھی چہک رہی تھی، اس پریشان حال کنبہ کویوں فرحاں و شاداں دیکھ کر سب کو مسرت ہورہی تھی۔ موصوف کا اصرار تھا کہ پہلے کھانا کھایا جائے۔ جبکہ مہمان پہلے وجہ اہتمام جاننا چاہتے تھے۔ موصوف نے جو انکشاف کیا، حیران کن تھا۔ کہنے لگے، وہ دَم کیا ہوا پانی پنکی کو تین دن تک پلایا گیا اور اس کے جسم پر بھی لگایا گیا۔ اور پھر وہ معجزہ ہوگیا۔ بچی کی بیماری جاتی رہی۔ فوری طور پر ہم نے کسی سے ذکر نہیں کیا کہ کہیں وقتی افاقہ نہ ہو۔ الحمدللہ چالیس روز سے اوپر ہوگئے۔ نامراد بیماری کا شائبہ تک نہیں ہوا اور پنکی کی صحت تو آپ دیکھ ہی رہے ہیں۔ سبھی اس معجزہ پر حیرت زدہ تھے کہ ایک اللہ والے نے بڑے پتے کی بات کی بولے، دوستو! حیران کس بات پر ہو؟ کیا آپ نے حضور سرور کونینؐ وہ حدیث مبارک نہیں سنی کہ۔ ’’الکاسب حبیب اللہ‘‘ یعنی محنت مزدوری کرنے والا اللہ کا دوست ہوتا ہے۔ جولائی کی سلگتی دوپہر تپتے پتھروں پر سجدہ ریز ہمارے وہ پختون بھائی بے شک اللہ کے دوست تھے، جو اس قدر شدید موسم میں پتھر توڑ کر روزی کمارہے تھے۔ ان سے بڑھ کر رزق حلال کس کا ہوگا اور ان سے بڑھ کر اللہ کا دوست کون ہوگا؟ اور یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ رب العزت اپنے دوستوں کا مان نہ رکھتے اور ان کا کہا ٹھکرادیتے۔ انہوں نے معصوم کیلئے دعا کی، جو بارگاہ الٰہی میں مستجاب ٹھہری۔
تازہ ترین