• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کراچی گزشتہ تین عشروں سے لہولہان ہے ۔ کراچی کے سوا دنیا کی کوئی ایسا میگا سٹی نہیں ہےجو اتنے طویل عرصے تک بدامنی اور خونریزی کا شکار رہی ہو اور ہزار ہا کوششوں کے باوجود یہاں امن قائم نہ ہو سکاہو ۔ کراچی کے وجود پر جو کاری ضربیں لگیں یا لگ رہی ہیں ، انہوں نے ہماری روحوں کو بھی زخمی کردیا ہے ۔ میں کراچی میں نہیں رہتا بلکہ کراچی مجھ میں رہتا ہے ۔ اس کے وجود پر لگنے والی ہر چوٹ سے میری روح کانپ اٹھتی ہے ۔کراچی پاکستان ہے اور پاکستان کراچی ہے ۔ پاکستان کا ہرشہر ، ہر قصبہ ، ہر گاؤں ،گوٹھ ، بستی، گلی اور ہر علاقہ کراچی میں بستا ہے ۔ کراچی میں گرنے والی لاشیں پاکستان کے ہر قبرستان میں دفن ہیں ۔ یہ ہم سب کا شہر ہے ۔ ہمیں کراچی کو بچانا ہے، ہمیں اپنے آپ کو بچانا ہے، ہمیں اس ملک کو اور اپنی نسلوں کو بچانا ہے ۔
ان سطور میں کراچی کا مقدمہ پیش کیا جا رہا ہے تاکہ اس بات کا ادراک کیا جا سکے کہ کراچی کے دشمن اس پر رحم کرنے کے لئے کیوں تیار نہیں ہیں ۔ وہ جنوبی ایشیا کے اس قدیم ترین شہر اور اقتصادی مرکز میں امن قائم کیوں نہیں ہونے دیتے ہیں ۔ اس بات کو سمجھنے کیلئے ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ کراچی کے بارے میں حقائق کیا ہیں ۔ کراچی کو خون میں نہلانے کے اسباب اور دیگر مسائل کیا ہیں اور کراچی کو کس طرح پر امن بنایا جا سکتا ہے ۔ پہلی قسط میں کراچی کے بارے میں کچھ حقائق تاریخی تناظر میں پیش خدمت ہیں، جن سے یہ اندازہ لگایا جاسکے گا کہ کراچی کچھ بین الاقوامی قوتوں اور انکے مقامی کارندوں کا ہدف کیوں ہے ۔ دوسری قسط میں ان مسائل کی نشاندہی کی جائے گی ، جن کی وجہ سے ان قوتوں کو کراچی میں اپنے مقاصد حاصل کرنے کیلئے سازگار حالات میسر آتے ہیں اور بد انتظامی اور شہری سہولتوں کے فقدان سے مزید تباہی آتی ہے۔تیسری قسط میں کراچی کے مسئلے کا حل پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔
سب سے پہلے کراچی سے متعلق وہ حقائق بیان کرنا ضروری ہیں ، جن کے پیش نظر کچھ قوتیں مستقل طور پر کراچی کی دشمن ہو گئی ہیں ۔ یہ حقائق درج ذیل ہیں۔ (1 ) کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے ، جس کی آبادی ایک بین الاقوامی سروے کے مطابق 2 کروڑ 35 لاکھ سے زیادہ ہے ۔ اگر اس اندازے کو درست تسلیم کر لیا جائے تو کراچی دنیا کے 35 میگا سٹیز میں سے چھٹے نمبر پر ہے ۔ پہلے پانچ بڑے شہروں میں ٹوکیو ، دہلی ، سیؤل ، شنگھائی اور ممبئی شامل ہیں ۔ کراچی کی بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر عالمی ادارے یہ پیشگوئی کر رہے ہیں کہ 2030ء میں یہ دنیا کا سب سے بڑا شہر ہو گا ۔ اگر آج درست مردم شماری ہو جائے تو کراچی آج بھی تیسرے یا چوتھے نمبر پر آسکتا ہے ۔ پاکستان کے کچھ شماریاتی اداروں کے خیال میں کراچی کی آبادی ڈھائی کروڑ سے زیادہ ہے۔ نادرا کے اعدادو شمار کے مطابق دوکروڑ 15 لاکھ سے زیادہ افراد کا کراچی کا شناختی کارڈ بنا ہوا ہے جبکہ بہت بڑی تعداد میں یہاں ایسے لوگ بھی ہیں ، جن کے کراچی کے شناختی کارڈ نہیں ہیں ۔ کراچی کی آبادی دنیا کے 76 ملکوں کی انفرادی آبادی سے زیادہ ہے۔کراچی منی پاکستان ہے ۔ (2) ایک بین الاقوامی شہر کی جو خصوصیات ہونی چاہئیں ، وہ سب کراچی میں موجود ہیں ۔ جہاں دنیا کے ہر مذہب ، رنگ، نسل اور زبان سے تعلق رکھنے والے لوگ موجود ہیں۔ جس خطے میں آج پاکستان قائم ہے ، اس خطے میں کراچی قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے ۔ سکندر اعظم کے جرنیلوں کی تحریر کردہ کتابوں میں اس علاقے کا ذکر ملتا ہے ، جہاں آج کراچی آباد ہے۔ ابتدائی طور پر یہ ماہی گیروں کی بستی تھی ، جو دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر آباد ہوئی اور جسے ایک ماہی گیر خاتون ’’ کولاچی ‘‘ سے منسوب کیا گیا ۔ یہ بلوچستان خصوصاً مکران سے آئے ہوئے بلوچ قبائل کا مسکن تھا ۔ یہ لوگ آج بھی کراچی کے قدیم علاقوں میں آباد ہیں ۔ 18 ویں صدی میں ہی یہاں دنیا کے مختلف خطوں سے نقل مکانی کرکے آنے والے لوگوں نے مستقل سکونت اختیار کی ۔ 19 ویں صدی میں ہی یہ کاسموپولیٹن بن گیا تھا،جہاں ہندو ، مسلمان ، عیسائی ، یہودی ، پارسی ، لبنانی ، ایرانی اور کئی دیگر مذاہب اور نسلوں کے لوگ آباد تھے ۔ یہاں چرچ ، مساجد ، امام بارگاہیں، مندر ، گرجا گھر اور دیگر عبادت گاہیں اور اپنے وقت کے جدید بازار موجود تھے ۔ قیام پاکستان کے بعد ہندوستان سے بڑی تعداد میں ہجرت کرکے آنے والے لوگوں نے اس شہر کو اپنا مسکن بنایا ۔ ان کے علاوہ پاکستان کے ہر علاقے سے لوگ یہاں آکر آباد ہوئے ۔ اس خطے کے دیگر ممالک مثلاً افغانستان ، برما ، بنگلہ دیش ، ایران اور دیگر ممالک سے بھی لوگوں نے یہاں نقل مکانی کی ۔ اب یہاں پاکستان کی تمام زبانیں بولنے والے ، تمام مذاہب اور تمام فرقوں کے لوگ آباد ہیں ۔ پاکستان کی ہر زبان بولنے والا یہ دعویٰ کرتا ہے کہ کراچی اس کی زبان بولنے والوں کا سب سے بڑا شہر ہے۔ ایک اندازے کے مطابق کراچی میں 70 سے زائد ملکی اور غیر ملکی زبانیں اور بولیاں بولی جاتی ہیں ۔ کراچی ایک حقیقی کاسموپولیٹن سٹی ہے ۔ (3 ) یہاں پاکستان کی سب سے قدیم اور آج کے دور کے حوالے سے جدید ترین بندرگاہ ہے ۔ یہ بندرگاہ برطانوی حکمرانوں نے19 ویں صدی میں بنائی تھی ۔ سکندر اعظم کے جرنیلوں کی کتابوں میں ’’ مورون ٹوباڑا ‘‘ کی بندرگاہ کا ذکر ملتا ہے ۔ عام خیال یہ ہے کہ یہ منوڑہ کی بندرگاہ تھی ۔ عرب اسے دیبل کی بندرگاہ کا نام بھی دیتے تھے ، جہاں سے محمد بن قاسم 712 ء میں جنوبی ایشیا میں داخل ہوا تھا ۔ ’’ کولاچی ‘‘ کے لوگوں نے 16 ویں صدی کے آخر میں مسقط اور خلیج فارس کی ریاستوں سے باقاعدہ تجارت شروع کر دی تھی اور 17 ویں صدی میں یہ اس خطے کا تجارتی مرکز بن گیا تھا ۔ اس ترقی پذیر تجارتی مرکز کی حفاظت کےلئے ایک قلعہ بھی تعمیر کیا گیا تھا ۔ یہ قلعہ 1795ء میں خان آف قلات نے تالپور حکمرانوں کے حوالے کر دیا تھا ۔ آج پاکستان کی 90 فیصد سے زیادہ تجارت اسی بندرگاہ سے ہوتی ہے۔پاکستان کی دوسری بندرگاہ پورٹ قاسم بھی یہاں موجود ہے ۔ (4) کراچی میں پاکستان کا بین الاقوامی ایئرپورٹ بھی موجود ہے ۔ یہاں ایئرپورٹ قیام پاکستان سے پہلے موجود تھا ۔ ایک زمانہ ایسا تھا کہ کراچی ایئرپورٹ اس خطے میں ایئر لائنوں کے لئے مرکزی اہمیت کا حامل، دنیا کی تمام بڑی ایئرلائنوں کی پروازیں یہاں آیا کرتی تھیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس ایئرپورٹ کی رونقیں ماند پڑگئیںکچھ حکومتی غلطیاں اور کچھ حالات۔(5)کراچی پاکستان کی اقتصادی شہ رگ ہے۔ وفاقی اور صوبائی محصولات کی صورت میں قومی آمدنی میں اس شہر کا تقریباً70 فیصد سے زیادہ کا حصہ ہے ۔ (6 )کراچی کو پاکستان کا بینکاری و فنانس کیپیٹل بھی قرار دیا جا سکتا ہے ۔ یہاں تمام بڑے سرکاری و نجی ملکی بینکوں کے ہیڈ آفس ہیں ۔ اسٹیٹ بینک کا بھی مرکزی دفتر یہاں ہے۔ اسی طرح مالیاتی اداروں کے بھی مرکزی دفاتر یہاں قائم ہیں ۔ کراچی اسٹاک ایکسچینج پاکستان کی سب سے بڑی اسٹاک ایکسچینج ہے ۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی اور صنعتی مرکز بھی ہے ۔ یہاں ہر طرح کی صنعتیں موجود ہیں ، جو دنیا کی باقی میگا سٹی میں نہیں ہیں۔ یہاں آٹو موبائل،اسٹیل،ٹیکسٹائل ، کیمیکلز، آئل ریفائنریوں سمیت بے شمار انڈسٹریز ہیں۔ (7) سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کراچی کی اس خطے میں انتہائی اہم اسٹرٹیجک پوزیشن ہے ۔ یہ جنوبی ایشیا کا گیٹ وے ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وسطی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور مشرقی ایشیا کےلئے اہم تجارتی راہداری ہے ۔ اس اسٹرٹیجک پوزیشن کی وجہ سے 1960ء کے عشرے کے دوران کراچی دنیا میں ایک رول ماڈل تھا اور جنوبی کوریا نے اپنے شہر سیول کی منصوبہ بندی کراچی کی طرز پر کی تھی۔ شہری منصوبہ بندی کے حوالے سے کراچی کو اس خطے کے دیگر شہروں پر سبقت حاصل تھی اور یہاں شہری حکومت سب سے زیادہ مضبوط تھی1970کے بعد اس شہر کا کوئی ماسٹر پلان ہی نہیں بنایا گیا اور یہ شہر بغیر کسی شہری پلان کے ہر طرف پھیلتا چلا جا رہا ہے۔
مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں کراچی نہ صرف ایک بڑا شہر ہے بلکہ اس خطے کی ایک ’’ اکنامک اینڈ پولٹیکل پاور ‘‘ بھی ہے اور شاید یہی بات کراچی میں بدامنی اور مسائل کا بنیادی سبب بھی ہے۔ ان مسائل پر ہم اگلے کالم میں بات کریں گے ۔کراچی کے بارے میں ہم اتنےپریشان نہیں ہیں ، جتنا پوری دنیا پریشان ہے کیونکہ کراچی کی بدامنی نہ صرف پاکستان کے سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا باعث بن رہی ہے بلکہ دنیا کو یہ خدشہ ہے کہ کراچی کی یہ آگ انہیں بھی متاثر کر سکتی ہے ۔
تازہ ترین