• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بہت دل چاہتا ہے ، یقین مانئے بہت دل چاہتا ہے کہ ٹی وی اسکرینوں پر ظلم کی خبروں، درندگی کی تصویروں،لٹی ہوئی عزتوں، مٹی ہوئی انسانیت، بین کرتی عورتوں ، خون میں نہائے جسموں، احتجاج کرتے مظلوموں ، ایک دوسرے کو نیچا دکھاتے سیاستدانوں،گھٹیا کرائم شوز، سستے مذاق کرتے فنکاروںکے سوا بھی کچھ ہو۔ بہت دل چاہتا ہے کہ ڈراموں میں رشتے داروں کی سازشوں، مردوں کے خفیہ تعلقات، ساس ، بہو کی لڑائی، ذاتی مسائل کی جگ ہنسائی، اور میاں بیوی کے سرعام ازدواجی تعلقات کی بحث کے سوا بھی کچھ ہو۔ بہت دل چاہتا ہے کہ ایسی موسیقی سننے کو ملے جو شور نہ پھیلائے ، سکون دے ، ایسی دھنیں بجیں جو اضطراب نہیں انکسار کی جانب لے جائیں،ایسے نغمے سننے کو ملیں جوبھلے روح کو گرما دیں مگر قلب و بدن کو ہی نہ تڑپا دیں۔ شعر کی بات ہو ، کتاب کی حرمت و عظمت پر بات ہو، بڑے لوگوں کے اقوال زریںپر اظہار خیال ہو، بزرگوں کی کہانیاں ہوں، درویشوں کے قصے ہوں، دانش وروں کی بات ہو۔ بہت دل چاہتا ہے یقین مانئے بہت دل چاہتا ہے۔
اس طرح کے خیالات کے اظہار کے جواب میں اکثر کہا یہ جاتا ہے کہ یہ کسی اور دور کی بات ہے ، زمانہ آگے بڑھ گیا ہے، ہم ماڈرن ہو گئے، نئے دورکے نئے مسائل ہیں،لوگ یہی دیکھنا چاہتے ہیں ، یہی سننا چاہتے ہیں، یہی دنیابھر میں ہوتا ہے اب یہی رسم ہے، اب یہی رواج ہے، اب یہی عام ہے۔ یہ بات درست ہے کہ اس دور میں میڈیا کی سب سے بڑی سچائی ریٹنگ ہے اور بدقسمتی سے شروع میں دئیے گئے پروگرام زیادہ ریٹنگ کے سبب بنتے ہیں۔ یہ کسی ایک شخص کے ذہن کی بات نہیں یہ ایک حسابی کلیہ ہے جسکی مدد سے لوگوں کی پسند ناپسند کو جانچا جاتا ہے۔ ریٹنگ اور اسکے طریقہ کار سے قطعی کوئی اختلاف نہیں مگر ذاتی تجربہ بہرحال مختلف ہو سکتا ہے۔
کوئی بیس برس پرانی بات ہے پاکستان میں نیا نیا ایف ایم ریڈیو متعارف کروایا گیا۔ پرائیویٹ ریڈیو چینل ایک نئی بات تھی۔ ایف ایم دنوں میں فیشن بن گیا۔ قلیل عرصے میں اسکے آر جے ہیرو اور سیلیبرٹی بن گئے۔ اخباروں ، ٹی وی اور میگزین میں ان حالیہ معروف شخصیات کے انٹرویو چھپنے لگے۔لوگوں کو ریڈیو شوز کے اوقات باقاعدہ یاد رہنے لگے۔ ریڈیو ایک مدت کے بعد دوبارہ مقبول ہونے لگا۔ نئی طرح کی آوازیں اور نغمے بجنے لگے۔ بریک فاسٹ شو ، ڈرائیوٹائم شو اور لنچ بریک شو کے نام سے لوگ شناسا ہونے لگے۔ایف ایم اسٹیشنزکے باہر مداحوں کی قطاریں لگنے لگیں۔میرے ایک بہت عزیز دوست احسن ملک اسی کمپنی میں مارکیٹنگ کے شعبے میں کام کرتے تھے ،۔انہوںنے کسی سے کہلوا کر مجھے آڈیشن کے لئے بھیجا۔سب شو بک تھے اور تیزی سے مقبول ہو رہے تھے۔ صرف ایک ٹائم بچا تھااور وہ رات بارہ بجے سے صبح چار بجے کا لائیوشو تھا۔ابھی شو کاکوئی فارمیٹ بھی نہیں بنا تھا کہ ہماری نوکری ایف ایم میںپانچ ہزار روپے ماہانہ پر پکی ہوگئی۔اس میں میری آواز سے زیادہ احسن ملک کی دوستی کا جادو تھا۔ مہینے میں تیس دن شو کرنا تھا اور چھٹی ایک بھی نہیں تھی۔دن نو بجے سے پانچ بجے تک قریبا اسی مالیت کی ایک اور نوکری تھی ،تھوڑا سا مشکل ضرور تھا مگر شوق کی خاطر قبول کرلیا۔
شو کے فارمیٹ پر جب بات ہوئی میری رائے کے مطابق کچھ ادبی قسم کا شو ہونا چاہیے تھا۔ پہلے تو لوگوں کو یہ فارمیٹ بوسیدہ لگامگر شو کے ٹائم کی وجہ سے یہ کہہ کر بات مان لی گئی کہ جو مرضی کر لیں اس وقت کس نے سننا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پاپ میوزک ہمارے مزاجوں میں در آیا تھا۔شور اور آواز کے ملاپ کو لوگ میوزک کہنے لگے تھے۔ غزل گائیکی معدوم ہورہی تھی۔کتاب سے رشتہ ٹوٹ رہا تھا،شعر اور شاعری ، اردوافسانہ اور ناول کی بات بوسیدہ ہوتی جا رہی تھی۔لوگ ماڈرن ہوتے جا رہے تھے، اردو ، انگریزی بری طرح مدغم ہوتی جارہی تھیں،ریڈیو کی رفتار تیز ہوگئی تھی، لوگوں کے پاس وقت کم ہوتا جا رہا تھا،اس وقت بھی نیا زمانہ آچکا تھا۔ بہر کیف ایک ادبی پروگرام کے فارمیٹ پر بات ختم ہوئی ۔ فیصلہ یہ کیا گیا کہ شعر سنائیں جائیں گے اور کالرز سے شعر سنیں جائیں گے۔ اردو اور سلیس اردو بولی جائے گی ۔ کوشش کی جائے گی کہ جو شعر اور موضوع منتخب کیا جائے وہ محبت کے اسلوب میں ہو۔ انقلابی یا مزاحمتی شاعری سے اس لئے اجتناب کیا جائے کیونکہ یہ وقت محبت کے پیرائے میں بات کرنے کے لئے مخصوص ہے۔
قصہ مختصر اسلام آباد کی شدیدسردیوں کی راتوں میں اس شو کا آغاز ہوا۔ ایک پرانے موٹر سائیکل کی یخ بستہ سواری کے بعد جب میں پینل پر بیٹھا تو آواز سردی کی وجہ سے بھی کانپ رہی تھی۔شو کے فارمیٹ کی تفصیل بتانے کے بعد جب لوگوں کی کالز لینا شروع کیں تو جلد ہی بے ہودہ اشعار اور سستے جملوں کا انبار لگ گیااور میرے پاس ایسی کالوں کو کاٹنے کے سوا کوئی چارہ نہ بچا۔پہلی رات صبح چار بجے تک صرف چند ایک نے کچھ اچھے شعر سنائے اچھی شستہ بات کی لیکن زیادہ تر کا رجحان گھٹیا شاعری اور گفتگو ہی رہا۔لیکن چند ہی راتوں میںلوگوں میں سنجیدہ بات اور شعر کا ذوق بڑھنے لگا۔اچھے اچھے شاعر اس شو کو سننے لگے ،نامی گرامی موسیقار اس شو میںلائیو شامل ہونے لگے، زیادہ سے زیادہ کالز کے ریکارڈ ٹوٹنے لگے، اچھی غزل کی فرمائش ہونے لگی ، اچھے شعر پر داد ملنے لگی،محبت کے موضوع کو عروج ملنے لگا،باذوق لوگوں کا گلدستہ بننے لگا، امن، آشتی ، احترام اور خلوص پھولنے اور پھلنے لگا اور یہاں تک کہ یہ شو اس وقت کے ایف ایم کا سب سے مقبول شو بن گیا اور اب معاملہ یہ کہ ہر نئے ایف ایم اسٹیشن پر رات کے وقت ویسا ہی ایک مقبول ادبی شو ہوتا ہے جس کا فارمیٹ بیس سال پہلے متعارف کروایا گیا تھا۔
کہنے کی بات صرف اتنی ہے ہر دور میں اچھے پروگراموں کے شائق ناظرین اور سامعین موجود ہوتے ہیں بس ابتداء کی چند بے ہودہ فون کالوں کو کاٹنا ہوتا ہے۔ دیوانے کا خواب صحیح لیکن کیا عجب کل کو اسطرح کےپروگراموں کی ریٹنگ آنے لگے تو سب کچھ کتنا بدل جائے۔ ہمیںیہ ملک کتنا اچھا لگنے لگے۔ کتنا فخر ہو اپنے فنکاروں پر ، کتنا مان ہو اپنی سوچ پر، کس قدر فروغ ہو محبتوں کا، کتنا احترام ہو قدروںکا۔ میں نہیں کہتا ہے کہ رومی، فردوسی، عرفی اور جامی کی بات کریں۔ میں یہ بھی نہیں کہتا کہ غالبؔ، میرؔ، سوداؔ اور ذوقؔ کو لوگ سمجھیں۔ میری التماس صرف اتنی ہے کہ اب بھی عباس تابش کا شعر دلوں میں محبت بپا کرتا ہے، اب بھی امجد اسلام امجد کی نظم لوگوں کی آنکھوں میں اداسی لاتی ہے، اب بھی سعود عثمانی کی غزل پہروں رلاتی ہے، اب بھی پیرزادہ قاسم کا ترنم سینے میں اترتا ہے، اب بھی عزم بہزاد کی یاد تڑپاتی ہے۔ اب بھی بانو قدسیہ کی ہر بات صحیفہ لگتی ہے، اب بھی اچھی غزل گانے والے موجود ہیں،اب بھی نفیس احمد خان کا ستار دل میں بجتاہے،اب بھی منو بھائی کے ڈراموں کے کردار یاد آتے ہیں۔ اب بھی عطاء الحق قاسمی کا جملہ پہروں گدگداتا ہے۔ بہت دل چاہتا ہے، یقین مانئے بہت دل چاہتا ہے کہ سب مل کر کوئی ریٹنگ کا ا یسا حیلہ تلاش کریں کہ ہم اپنے فنون کے ذریعے احترام کے مضمون کو عام کریں۔ اس ملک میں محبتوں کو رواج دیں۔ یقین مانئے بس اتنی سی کاوش سے یہ ملک بہتر دکھنے لگے گا۔ لوگ اچھا سوچنے لگیں گے۔ محبت کرنے لگیں گے۔
تازہ ترین