• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ کالم میں عرض کیا گیا تھا کہ ڈاکٹر اشرف غنی کے حکمران بننے کے بعد پاک افغان حکومتوں کی دوستی اور تعاون کے نئے سفر کی صورت میں جو نادر موقع ہاتھ آیا تھا، وہ ضائع ہوتا نظر آرہا ہے ۔ اس حوالے سے پاکستان کی کمزوریوں کا تذکرہ اس وعدے کے ساتھ کیا گیا تھا کہ اگلے کالم میں افغانستان کی کمزوریوں کا تذکرہ ہوگا۔ جن کی تفصیل میرے نزدیک کچھ یوں ہے کہ:
(۱)سابق افغان صدر حامد کرزئی صاحب افغانستان کو آئین اور پارلیمنٹ دینے کا کارنامہ تو سرانجام دے چکے لیکن ان کی یہ کمزوری رہی کہ وہ سیاسی جماعتوں پر مشتمل سیاسی نظام تشکیل نہ دےسکے ۔ انہوں نے خود سیاسی جماعت بنائی اور نہ دوسروں کو بنانے دی ۔بدقسمتی سے نئے افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی بھی نہ تو خود کسی سیاسی جماعت سے وابستہ ہیں اور نہ تادم تحریر وہ سیاسی جماعتوں پر مشتمل سیاسی نظام تشکیل دینے میں کامیاب ہوئے ۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان کی سیاست بلکہ خارجہ پالیسی اب بھی شخصیات کے گرد گھومتی ہیں ۔ ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت بھی مختلف افغان شخصیات اور ان کے کارندوں کا ملغوبہ ہے جسے امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے مجبور کرکے ایک ساتھ بٹھا دیا ہے۔ اس سے بھی زیادہ افسوسناک امر یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر شخصیات اپنی سیاسی اور معاشی بقا کے لئے بیرونی ممالک کے محتاج ہیں اور ہر کوئی کسی نہ کسی ملک کی حکومت یا خفیہ ایجنسی سے جڑا ہوا ہے ۔ بعض تو بیک وقت دو دو ، تین تین ممالک یا ان کی خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ایک سال گزرنے کے باوجود اشرف غنی صاحب پوری طرح ان لوگوں پر کنٹرول حاصل کرسکے اور نہ اسی طرح مضبوط حکومت تشکیل دے سکے جس طرح کی حکومت کی ان سے توقع کی جارہی تھی ۔ اس وجہ سے طالبان اشرف غنی صاحب اور ان کی حکومت کو سنجیدہ نہیں لے رہے ہیں اور ان سے زیادہ وہ امریکہ اور پڑوسی ممالک کے ساتھ بات چیت یا ڈیل کو اہمیت دے رہے ہیں ۔
(2)ایک سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود ڈاکٹراشرف غنی اپنی کابینہ تک مکمل نہیں کرسکے ۔ پارلیمنٹ اپنی مدت پوری کرچکی ہے لیکن ان کی حکومت دوبارہ انتخابات کی بجائے اس کی مدت میں توسیع سے کام چلا رہی ہے ۔ وہ نیک نیتی سے یہ کوشش کررہے تھے کہ ماضی میں حکومت کا حصہ رہنے والے وارلارڈز کی بجائے جدید پڑھے لکھے لوگوں پر مشتمل حکومت بنائیںلیکن یہ بھول گئے تھے کہ وہ خود حکمران ان لوگوں کے تعاون سے بنے ہیں اور زمینی حقیقت یہ ہے کہ ان وارلارڈز کے بغیر کسی نظام کو چلانا بھی آسان نہیں ۔ اب جن وار لارڈز کے ساتھ وعدے پورے نہیں ہوئے ، وہ تعاون کی بجائے حکومت کے خلاف کام کررہے ہیں بلکہ بعض طالبان کے ساتھ درپردہ تعاون کررہے ہیں۔ اسی طرح وہ اپنی خواہش کے مطابق پڑھے لکھے ٹیکنوکریٹس کی حکومت بھی نہ بناسکے کیونکہ انہیں رشید دوستم جو ان کے نائب صدر ہیں،جیسے اتحادیوں کے ساتھ ساتھ اب آدھے مناصب ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو دینے تھے اور پھر ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کوآگے اپنے اتحادیوں کو بھی حصہ دینا تھا۔یہی وجہ ہے کہ داخلی محاذ پر حامد کرزئی کی حکومت کے مقابلے میں ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت کی گرفت بہت کمزور ہے ۔ اگر تو اشرف غنی کی حکومت داخلی محاذ پر کامیاب ثابت ہوتی تو طالبان جیسے اس کے مخالفین کے حوصلے پست ہوتے لیکن جوں جوں اس کی مقبولیت کم ہورہی ہے توں توں طالبان کا مورال بلند ہورہا ہے اور کابل سے باہر کے علاقوں میں لوگ حکومت کی کمزوری کی وجہ سے طالبان کا ساتھ دے رہے ہیں یا پھر ان کے ساتھ راہ و رسم بنارہے ہیں ۔ یہ صورت حال بھی طالبان کے ساتھ مذاکرات کے عمل کی ناکامی کی ایک وجہ بنی ۔
(3)رسک لے کر ڈاکٹر اشرف غنی نے ہندوستان کے ساتھ اسٹریٹجک پارٹنرشپ ایگریمنٹ پر عمل درآمد روک دیا اور پاکستان کے ساتھ ادارہ جاتی سطح پر اسٹریجک پارٹنر شپ کا آغاز کردیا ۔ جس سے بجا طور پر پاکستان خوش اور ہندوستان ناراض ہوا لیکن بدقسمتی سے وہ گراونڈ پر ہندوستان کے اثرورسوخ کو پوری طرح کنٹرول نہ کرسکا۔ ناراض بلکہ برہم ہوکر ہندوستان کی حکومت نے افغانستان میں موجود اپنی لابی کو پاک افغان پارٹنرشپ کے خلاف تو کیا ،خود ڈاکٹراشرف غنی کی حکومت کے خلاف بھی پوری طرح متحرک کیا جس کی وجہ سے وعدے اور خواہش کے باوجود افغان حکومت بھی پاکستان کے مطالبات پوری طرح پورےنہ کرسکی۔ اگرچہ افغان حکومت نے آرمی پبلک اسکول کے بعض قاتلوں کی گرفتاری میں تعاون کیا لیکن اس دوران بھی پاکستان کی یہ شکایت برقرار رہی کہ ٹی ٹی پی اور را(RAW) افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کررہی ہیں ۔ اسی طرح افغان میڈیا جو بیرونی ممالک کے زیراثر ہے اور جہاں پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا ایک فیشن بن چکا ہے ، بھی حسب سابق پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرتا رہا۔جس کی وجہ سے پاکستان کے طاقتور حلقوں میں یہ تاثر کسی نہ کسی صورت میں برقرار رہا کہ افغانستان پر پورا اعتماد نہیں کیاجاسکتا۔
(4)افغان طالبان ، پاکستان میں مہاجرین کے اندر موجود ہیں ۔ جب ان مہاجرین کو واپس بھجوانے یا پھر ان کی نگرانی سخت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو افغانستان کی طرف سے سخت ردعمل آتا ہے ۔ اسی طرح افغانستان سرحد کی نگرانی سخت کرنے کے بھی حق میں نہیں ہے ۔برطانیہ کے شہر چیکر میں جب اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضاگیلانی نے بارڈر منیجمنٹ پر زور دیا تو سابق افغان صدر حامد کرزئی نے شروع میں موقف اپنایا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ افغان ، ویزے اور پاسپورٹ کے ساتھ پاکستان جائیں ۔ اس پر وہاں موجود برطانوی وزیر اعظم نے بڑی حیرت کا اظہارکیا ۔اب ایک طرف روزانہ تیس سے پچاس ہزار لوگ بغیر ویزے اور پاسپورٹ کے دونوں ممالک کے درمیان سفر کرتے ہیں اور دوسری طرف شکایت یہ کی جاتی ہے کہ طالبان آزادی کے ساتھ پاکستان اور افغانستان کے درمیان آتے جاتے ہیں ۔ سرحد پر نگرانی نہ ہونے اور ویزے یا پاسپورٹ کے بغیر آمدورفت کی وجہ سے بھی طالبان جیسی قوتوں کو فائدہ پہنچتا ہے ۔
(5)امسال افغانستان کے اندر خود افغان حکومت طالبان کو کنٹرول کرنےمیں بری طرح ناکام رہی ۔ امریکہ اور اس کے نیٹو کے اتحادیوں نے ڈرون اور مخصوص فضائی حملوں کے علاوہ اپنی افواج کو میدان سے ہٹا دیا اور دوسری طرف افغان فوج اور پولیس پوری طرح کنٹرول کے لئے تیار نہ تھی ۔ افغان حکومت سارا ملبہ پاکستان کے اوپر گرانا چاہتی ہے لیکن صورت حال یہ ہے کہ وہ جنوبی اور وسطی صوبے جن کا پاکستان کے ساتھ کوئی سرحد نہیں لگتی، میں بھی طالبان پورے پورے اضلاع پر قابض ہوجاتے ہیں ۔ اب تاجکستان کی سرحد سے متصل کندوز صوبے میں بھی طالبان کے دو اضلاع پر قبضے کو پاکستان کے کھاتے میں ڈالا جارہا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ جب یہ طالبان پاکستان سے جاکر پورے مشرقی اور وسطی افغانستان سے ہوتے ہوئے کندوز میں قابض ہورہے تھے تو افغان حکومت کے ادارے کیا کررہے تھے ۔
(6) افغان حکومت سے سب سے بڑی غلطی یہ سرزد ہوئی کہ اس نے ملامحمد عمر کی موت کا بے وقت اعلان کردیا اور پھر اس کو جواز بنا کر مذاکرات کا دوسرا دور ملتوی کرایا حالانکہ اس کے لئے طالبان ، چین اور امریکہ کے نمائندے بھی اسلام آباد پہنچے تھے ۔ ملامحمد عمر کی موت کا اگر اس کی انٹیلی جنس کو علم نہیں تھا تو یہ اس کی ناکامی ہے ۔ حالانکہ ماضی میں افغان حکام یہ دعویٰ کرتے رہے کہ ملامحمد عمر مر چکے ہیں ۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ خود افغان حکومت بھی یکسر بے خبر نہیں تھی ۔ بلکہ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ حامد کرزئی اور ڈاکٹر اشرف غنی کو ملامحمد عمر کی موت کے معاملے کا میاں نوازشریف کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ علم تھا۔ پھر یہ طالبان کے اندر کا مسئلہ تھا۔ اگر ملااختر منصور ، ملامحمد عمر کے نام سے گزشتہ دو ڈھائی سال سے احکامات جاری کررہے تھے اور اب پاکستان کی کوششوں سے مذاکرات پر بھی نہ صرف آمادہ ہوگئے تھے بلکہ ملامحمد عمر بن کر عید کے موقع پر ان مذاکرات کی حمایت میں بیان بھی جاری کیا تھا تو افغان حکومت کو کیا ضرورت پڑی تھی جو اس نے ملامحمد عمر کی موت کی خبر دے کر ملااختر منصور کو دفاعی پوزیشن لینےپر مجبور کردیا۔اب طالبان کی صفوں میں اپنا اعتماد بحال کرنے کے لئے ملااختر منصور کو مذاکرات کی مخالفت کرنا پڑی اور شاید اسی وجہ سے انہوں نے طالبان کی کارروائیاں مزید تیز کردیں۔
یہ اور اسی طرح کی دیگر درجنوں کمزوریاں ہیں جو افغانستان کے حصے میں آتی ہیں لیکن میرے نزدیک یہ ایک دوسرے کی کمزوریاں بیان کرنے اور ان سے فائدہ اٹھانے کا وقت نہیں ۔ افغانستان کو چاہئے کہ وہ پاکستان کی کمزوریوں یا غلطیوں کے تذکرے کے ذریعے ماحول کو مزید خراب کرنے کی بجائے اپنی کمزوریوں کو دور کرے اور پاکستان ، افغانستان کی طرف انگلی اٹھانے کی بجائے اپنے گریبان میں جھانکے ۔ میرے نزدیک مذاکرات کا ڈول دوبارہ بھی ڈالا جاسکتا ہے بلکہ ایسا کرنا پڑے گا کیونکہ مذاکرات اور امن افغانستان کی بھی ضرورت ہے اور پاکستان کی بھی ۔ بلکہ افغانستان کی بھی مجبوری ہے اور پاکستان کی بھی ۔ سچ تو یہ ہے کہ مذاکرات اور مفاہمت طالبان کی بھی ضرورت ہے ۔ یہ موقع ہاتھ سے نکل گیا اور افغانستان انارکی کی طرف چلا گیا تو نہ صرف افغانستان اور پاکستان دونوں کو بربادی کا سامنا کرناپڑے گابلکہ طالبان کے ہاتھ بھی کچھ نہیں آئے گا۔
تازہ ترین