• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے تمام سیاستدان، حکومتی ارکان،بیورو کریٹس اور بہت سے دوسرے شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد اوورسیز پاکستانیوں کو ملک کا سرمایہ سمجھتے اور پُکارتے ہیں ۔اوورسیز پاکستانیوں کو ملکی معیشت کے بڑھاوے میں ریڑھ کی ہڈی ہونے کا لقب بھی دیا جاتا ہے، دیکھا جائے تویہ لقب بالکل ٹھیک ہے کیونکہ اوورسیز پاکستانی دیار غیر میں محنت مزدوری کرکے اپنی کمائی پاکستان میں مقیم اپنے ماں باپ یا بہن بھائیوں کو بھیجتے ہیں تو اس میں سے کچھ حصہ زر مبادلہ کی مد میں ہمارے قومی خزانے میں بھی جاتا ہے۔ جب بھی کوئی پاکستانی ایم پی اے ،ایم این اے، بیورو کریٹ یا کسی بھی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھنے والا کارکن اپنے نجی دورے پر یورپی یا کسی بھی دوسرے ملک جاتا ہے تو اوورسیز پاکستانی اُس مہمان کے لئے اپنی آنکھیں بچھا دیتے ہیں ، مہمان کی آؤ بھگت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی ۔آنے والے مہمان تارکین وطن سے اُن کے مسائل پاکستان پہنچتے ہی جلد سے جلد حل کرانے کا وعدہ کرکے دیار غیر میں اپنا ’’ ٹائم پاس ‘‘ کرکے رفو چکر ہو جاتے ہیں پھر اگر کبھی کوئی تارک وطن پاکستانی مہمانوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کرے تو اسے ٹیلی فون پر آٹو میٹک ریکارڈ کیا ہوا پیغام سُنائی دیتا ہے کہ ’’ آپ کا مطلوبہ نمبر کسی کے استعمال میں نہیں ‘‘ ۔تارکین وطن پاکستانی مہمانوں پر ہونے والے ہزاروں ڈالرز یا یوروز کے ضائع ہونے کا کبھی ملال نہیں کرتے لیکن انہیں دُکھ ہوتا ہے تو اُس وقت جب اُن کی آخری اُمیداُن کے اپنے’’ پاکستانی گھر‘‘ یعنی قونصل خانے بھی اُن سے ناروا سلوک کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ بڑی اُمید کے ساتھ پاکستان سے آنے والے مہمانوں سے اس بات کی شکایت کرتے ہیں مگر وہ مہمان اُن شکایات یا مسائل پر کان نہیں دھرتے ، شاید اس کی یہ وجہ ہے کہ قونصل خانوں میں تعینات اہلکاروں کو پاکستانی سیاستدانوں اور حکمرانی نمائندوں کی پُشت پناہی حاصل ہوتی ہے ۔اسپین کے خوبصُورت شہر بارسلونا اور اُس کے گرد و نواح میں پاکستانیوں کی 60سے ستر ہزار کے لگ بھگ تعداد مقیم ہے ،جو اپنے پاسپورٹ اور شناختی کارڈ کے حوالے سے درپیش مسائل کو قونصلیٹ آف پاکستان بارسلونا سے حل کرانے کی کوشش کرتے ہیں ،آن لائن پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بنانے والی مشینوں کے ہوتے ہوئے پاکستان سے کاغذات کی تصدیق کا عمل کئی سالوں پر محیط ہے جسے عملے کی غفلت یا ہٹ دھرمی ہی کہا جا سکتا ہے،قونصلیٹ آفس بارسلونا کے باہر پاکستانی ’’ کماؤ پُتروں ‘‘ کو میں نے اپنی آنکھوں سے سسکیوں اور آہوں کے ساتھ روتے اور قونصلیٹ کے عملے کو بد دعائیں دیتے دیکھا اور سُنا ہے لیکن مجال ہے کہ اہلکاروں کے کان پر جُوں تک رینگتی ہو ؟ ایک دن میں نے قونصلیٹ بارسلونا کے دروازے کے باہر دیکھا کہ ایک نوجوان پریشانی کی حالت میں بیٹھا ہوا ہے مجھے دیکھ کر وہ میری طرف بڑھا اور کچھ کہنے سے پہلے ہی رونا شروع ہو گیا ،میں نے اُس کی ڈھارس بندھائی پُوچھا کہ کیوں رو رہے ہو خیریت تو ہے ؟ وہ نوجوان مجھے اپنا نام نوید بتاتے ہوئے بولا کہ مجھے تین سال ہوگئے ہیں میں نے یہاں اپنا پاسپورٹ بننے کے لئے دیا تھا ،میرے پاس کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ بھی ہے ،جس کی تصدیق آن لائن کی جا سکتی ہے مگر مجھے قونصلیٹ کا عملہ یہ کہہ کر ’’ٹرخا‘‘ دیتا ہے کہ تمہارے بارے میں ڈی پی او سرگودھا کی جانب سے ابھی تصدیق شُدہ خط موصول نہیں ہوا جب ہوگا تو تمہیں پاسپورٹ جاری کریں گے ۔نوید نے مزید بتایا کہ کچھ ماہ پہلے میں نے سابق ویلفیئر قونصلر کے کہنے پر وہ تصدیق شُدہ خط دستی طور پر سرگودھا ڈی پی او آفس سے منگوا لیا تھا وہ خط پیش کرنے پر کہا گیا کہ ڈی پی او سرگودھا آفس میں موجود ’’ نادرا‘‘ والے ہمیں خود ای میل یا فیکس کریںتو پاسپورٹ دیا جائے گا ،میں نوید کو اُس کے تمام کاغذات سمیت موجودہ ویلفیئر قونصلر بارسلونا عمر عباس میلہ کے پاس لے گیا اور سارا ماجرا سُنا یا وہ بولے کہ ہمیں محکمانہ طور پر ہماری طرف سے لکھے گئے خط کا جواب آنا چاہئے ، میں وہاں سے چلا آیا لیکن نوید سے وعدہ کیا کہ میں پاکستان جا رہا ہوں تمہارا خط جلد بھجوا دونگا ،پاکستان پہنچ کر میں نے ڈی پی او سرگودھا آفس سے یہ کہہ کر کہ تصدیق کا خط تین سال سے تاخیر کا شکار ہے تصدیق شُدہ خط ویلفیئر قونصلر بارسلونا کو ای میل کروا دیا ،اب ویلفیئر قونصلر بارسلونا کا کہنا ہے کہ ہمارا ایک سرکاری ’’ تھیلا‘‘ پاکستان سے آتا ہے یہ تصدیق شُدہ خط اُس میں آنا چاہئے ۔میرا سوال ہے کہ اگر کسی تارک وطن پاکستانی کے شناختی کارڈ یا پاسپورٹ کی تصدیق کا عمل تین سال یاا س سے زیادہ عرصہ کا ہے توپھر قونصل خانہ بارسلونا سے آن لائن سسٹم ختم کر دینا چاہئے؟نوید آٹھ سال سےا سپین میں غیر قانونی مقیم ہے اگر اسے پاکستانی پاسپورٹ مل جائے تو وہ قانونی رہائش کے کاغذات حاصل کر کے اپنا مستقبل تابناک بنا سکتا ہے،مگر شاید اُس کے پاس سفارش نہیں یا یہ کہ اُس کی آواز خارجہ اور داخلہ وزارتوں تک نہیں پہنچ سکتی ؟ نوید کی آواز کسی طریقے سے اگر پاکستان کی حکومت کے ایوانوں تک پہنچ بھی جائے تو اُس آواز کو سُننے والا کوئی ممبر یا متعلقہ وزیر ایوانوں میں موجود نہیں ہوگا کیونکہ وفاقی وزیر داخلہ اور خارجہ مشیروں سمیت پاکستان کی ساری حکومتی مشینری 2نومبر کو تحریک انصاف کی جانب سے اسلام آباد کو بند نہ ہونے اور پاناما لیکس اسکینڈل کو غلط ثابت کرنے کے لئے مصروف عمل ہے ، اب آپ خود فیصلہ کریں کہ ایسے میں پاکستانی تارک وطن نوید کو بہتر مستقبل کی’’ نوید‘‘ کون سُناسکتا ہے ۔یہ واقعہ تو ایک نوید کا ہے جو تحریر کر دیا لیکن ایسے کئی نوید قونصل خانوں کے نارو ا سلوک کی بھینٹ چڑھ کر اپنا مستقبل تاریک کر چکے ہیں ، وزیر داخلہ پاکستان چوہدری نثار ، مشیران خارجہ امور سرتاج عزیز و طارق فاطمی اور سفیر پاکستان میڈرڈ رفعت مہدی سے گزارش ہے کہ وہ قونصلیٹ جنرل آف پاکستان بارسلونا میں تعینات اہلکاروں کوہدایت کریں کہ وہ تارکین وطن پاکستانیوں کو قونصل خانے کے اندر تحفظ اور عزت فراہم کریں ساتھ ساتھ یہ درخواست بھی ہے کہ یورپی ممالک سے اوورسیز پاکستانیوں کے کاغذات کی تصدیق کا عمل جو پاکستان میں سُست روی کا شکار ہے اُسے تیز کیا جائے اس عمل کے بدلے میں اوورسیز پاکستانیوں کی جانب سے ڈالرز اور یوروز کے زرمبادلہ کے ساتھ ساتھ موجودہ حکومت کے پانچ سال پُورے ہونے کی لاکھوں دُعائیں بھی موصول ہوںگی ۔



.
تازہ ترین