• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
1985ء سے تاریخی لحاظ سے لاہور پاکستان مسلم لیگ کا حمائتی بن چکا ہے۔ائیر مارشل اصغر خان جن کی جماعت تحریک استقلال میں میاں نواز شریف ایک صوبائی عہدے دار بھی رہے۔وہ بھی لاہور میں پیپلز پارٹی کے حمایت یافتہ امیدوار بنکرشکست کے بعد تاریخ کے صفات میں گم ہو چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی تو حالت یہ ہے کہ اس کے امیدوار کو بتانا پڑرہا ہے کہ میں بھی انتخابات میں امیدوار ہوں۔نہ خبر نہ اخبار۔جماعت اسلامی نے مسلم لیگ کیساتھ ایک طویل عرصہ تک محبت نبھائی مگر اب نبھ نہیں رہی۔ عمران خان نے عام انتخابات کے بعد دھاندلی کی بات کی۔ 4حلقوں کا تفصیلی ریکارڈ چیک کرنے کا مطالبہ پورا نہ ہوا ۔اور پھر ملکی تاریخ میں سب سے طویل دھرنا ہوا۔ گولی چلی،لوگ جاں بحق ہوئے، بچے، بوڑھے ،خواتین ،نوجوان موسم کی شدت کا مقابلہ کرتے رہے بالآخر کمیشن قائم ہوا۔الزامات کچھ ثابت ہوئے کچھ رہ گئے۔اورپھر تان ٹوٹی الیکشن ٹریبونل کے فیصلہ پر۔ سردار ایاز صادق کو ڈی سیٹ کر دیا گیا۔ فیصلہ تسلیم ہوا۔ا سپیکر شپ بمعہ اپنے غیر متنازعہ و تنازعہ فیصلوں کے ختم ہو گئی،ماضی کے دو ۔دوست ،ساتھی اور ہم جماعت کے درمیان دوری بھی ایسی ہوئی کہ مشکل سے ہی ختم ہو گی۔1985ء سے سید فخر امام ، حامد ناصر چٹھہ،ملک معراج خالد، گوہر ایوب خان،یوسف رضا گیلانی، چوہدری امیر حسین، ڈاکٹر فہمیدہ مرزا سبھی کو اپنے اپنے حلقہ میں مشکل صورت حال سے دوچار ہونا پڑاماسوائے ڈاکٹر فہمیدہ مرزا سبھی نے شکست کا خوب سامنا کیا۔ فخر امام کے ہاتھوں ضیاء الحق اور خواجہ محمد صفدر(وزیر دفاع خواجہ آصف کے والد)نے شکست کھائی۔وزیراعظم جونیجو بھی شکار ہوتے ہوتے بچے اور پھر سید فخر امام اسمبلی میں لیڈر آف اپوزیشن بن گئے۔یوسف رضاگیلانی نے جیل اور وزیراعظم ہائوس طویل مدت تک دیکھا، معراج خالد بھی وزیراعظم بنے،گوہر ایوب خان اور حامد ناصر چٹھہ وفاقی وزراء رہے۔مگر کبھی ان کے حلقوں میں سیاسی درجہ حرارت غیر معمولی نہ ہوا۔برطانیہ میں روایت ہے کہ اسپیکر نے چونکہ جماعتی ہونے کے باوجود ہائوس میں غیر جانبدار کردار ادا کرنا ہوتا ہے اس لیے کوئی بھی جماعت ہائوس آف کامنز کےا سپیکر کے مقابل امیدوار کھڑا نہیں کرتی اور وہ بلامقابلہ جیت جاتا ہے۔ ہمارے ہاں معاملہ بالکل مختلف ہے یہاں معاملہ ہی اسپیکر کے ایم این اے بننے کا تھا۔ 2013کے انتخابات میں میاں نواز شریف نے اسی حلقہ میں آخری جلسہ کرتے ہوئے عوام سے ووٹ کی اپیل کی تھی۔ یہ اپیل بالخصوص صوبائی اسمبلی کے رکن کی حلقے میں غیر حاضری کے حوالے سے بھی تھی۔ سردار ایاز صادق کے بارے بھی انہوں نے خاص محبت کا اظہار کیا اور پھر ان کا آخری انتخابی جلسہ یہ پیغام دے رہا تھا کہ خاص نظر الفت ادھر ہی ہے۔عمران خان نے تو اپنی ضد پوری کر لی کہ اس حلقہ میں دوبارہ انتخابات ہو۔ وہ اور انکی جماعت اپنی تمام تر قوت استعمال کررہے ہیں۔حکمران مسلم لیگ ۔ن نے جو رویہ اب اختیار کیا ہے یہ گھبراہٹ کے شکار ہونے کی نشاندہی کر رہا ہے۔ الیکشن کمیشن کی واضح ہدایات کے باوجود وزراء کا اس مہم میں پیش پیش ہونا،نعرے لگانا، کارنر میٹنگوں سے تقاریرکرنا۔ ایک نہیں بار بار اصرار کرنا ، بے نظیر انکم سپورٹ کا سہارا دکھایا جانا، ریلوے کی آبادیوں میں ریلوے کے وزیر کا اجتماعات سے خطاب کرنا،ٹی وی پر اشتہارات کے بھر مار اور قواعدو ضوابط کی خلاف ورزی کا مرتکب ہونا۔حد تو یہ ہے کہ جماعت اسلامی کو بھی ہدف تنقید بنانا اور وہ ایسے وقت پر جب انکی پوری مجلس شوریٰ لاہور میں اکٹھی ہو۔ سعد رفیق لاہور کی سیاست کو اچھے طریقے سے جانتے ہیں ان کی والدہ خود بھی صوبائی اسمبلی اور کارپوریشن کی رکن رہ چکی ہیں ۔ایسی ہڑ بونگ تو اچھے بھلے منظم انتخاب کو خراب کر سکتی ہے ۔ سردار ایاز صادق کا خاندان لاہور میں جانا پہچانا جاتا ہے۔وہ شہر کے مزاج سے واقف ہیں۔ میاں نواز شریف کی تمام عمر اسی شہر میں گزری ہے 1985سے مسلم لیگ کا پورے شہر پر کنٹرول ہے ایسے میں سرکاری جماعت کے امیدوار اور اسکی کارکردگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔لاہور میں آرائیں، کشمیری ،راجپوت، کمبوہ اور امر تسری بہت اہم ہیں۔ ان کے گروپ سبھی جانتے ہیں ۔ اگر اس انتخاب میں پارہ اور چڑھ گیا اور بخار اتارنے کی کوئی تدبیر نہ کی گئی تو یہ بخار بلدیاتی انتخابات میں رنگ دکھائے گا۔تحریک انصاف گزشتہ انتخاب تقریباََ 9ہزار ووٹ سے ہاری تھی اگر علیم خان ہی سب سے بہتر امیدوار ہوتے تو اسی وقت وہی انتخاب لڑ رہے ہوتے۔ مسلم لیگ کی تو مجبوری ہے کہ اسکو قومی اسمبلی کیلئے اسپیکر کی ضرورت ہے اور اب سردار ایاز صادق کے پاس تجربہ بھی ہے ۔ لاہوریے سب کچھ برداشت کرتے ہیں۔ مگر ان کا نمائندہ ان کے ساتھ ملاقات نہ کرے ۔یہ قبول نہیں ۔ میاں نواز شریف باقاعدگی کے ساتھ لاہوریوں کیلئے اجتماع کیا کرتے تھے اور سب کی بات سنا کرتے تھے۔ وہ اس راز کو اچھی طرح جانتے ہیںکہ کسطرح سب کو ساتھ لے کر چلنا ہے ۔ اگر یہ انتخاب تحریک انصاف جیت بھی جائے تو کوئی فرق نہ پڑے گا ۔ماسوائے اس کہ کوئی نیا اسپیکر ہو گا اور تحریک انصاف اپوزیشن کی نشستوں پر ہی رہے گی اور سردار ایاز صادق جیت گئے تو بھی معرکہ سر نہ ہو گا ۔ مگر اس الیکشن کو زندگی موت کا مسئلہ بنایا گیا تو سیاسی درجہ حرارت کی تپش دیر تک محسوس کی جاتی رہے گی۔اور یہ رنجش کدورت میں بدل جائے گی۔ماضی میں بھی ضمنی انتخابات ہوتے رہے ہیں بعض ایسے ہیں جواب تک لوگوں کو یاد ہیں ۔ پنجاب کے مزاج کے مطابق بالعموم حکومتی امیدوار ضمنی انتخاب جیت جایا کرتے ہیں سروے بھی ایسا ہی بتا رہے تھے انتخاب تو عوام کے حق نمائندگی کیلئے ہوتا ہے سب کچھ تہہ وبالا کرنے کیلئے نہیں یہ درست ہے کہ اس انتخاب کا نتیجہ دور رس اثرات رکھے گا مگر محنت، محبت اور خدمت کا کوئی مقابلہ نہیں بس خدارا اس انتخاب کو ایک حلقہ کے حق نمائندگی تک ہی رہنے دیجئے۔یہ انتخاب ہے کوئی معرکہ حق وباطل نہیں۔
تازہ ترین